حیات بلوچ کے قتل کے ملزم ایف سی اہلکار کا ’اعترافِ جرم‘


پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں پولیس کا کہنا ہے کہ تربت میں نوجوان طالبعلم حیات بلوچ کو قتل کرنے والے نیم فوجی دستے فرنٹیئر کور کے اہلکار نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا ہے۔

حیات بلوچ 13 اگست کو تربت میں ہونے والے ایک بم دھماکے کے مقام کے قریب اپنے والدین کے ہمراہ موجود تھے اور دھماکے کے بعد ایف سی کے اہلکاروں میں سے ایک نے انھیں گولی مار دی تھی۔

ابتدائی طور پر حیات بلوچ کی ہلاکت کا مقدمہ ان کے بھائی محمد مراد کی مدعیت میں ’نامعلوم‘ اہلکار کے خلاف درج کروایا گیا تھا تاہم بعدازاں ایف سی حکام نے گولی چلانے والے اہلکار شاہدی اللہ کو پولیس کے حوالے کر دیا تھا اور ایس ایس پی تربت نجیب پندرانی کے مطابق انھیں وقوعے کے وقت موجود حیات بلوچ کے والد نے شناخت بھی کر لیا تھا۔

تربت پولیس کے مطابق ملزم کا ایک ہفتے کا جسمانی ریمانڈ ختم ہونے کے بعد اسے بدھ کو مقامی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں ملزم نے دفعہ 164 کے تحت اپنا اعترافی بیان ریکارڈ کروایا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

حیات بلوچ کے والد نے شناخت پریڈ میں ملزم ایف سی اہلکار کو شناخت کر لیا

طالب علم حیات بلوچ کے مبینہ قتل کے مقدمے میں ایف سی اہلکار گرفتار

’اسٹیبلشمنٹ نے بلوچستان کو صرف ایک کالونی سمجھا ہے‘

’بھائی لاپتہ ہوا تو نقاب اتارا اور احتجاج شروع کر دیا‘

پولیس کے مطابق بیان ریکارڈ کیے جانے کے بعد ملزم کو عدالت نے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھج دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ عدالت میں ملزم کے اعترافی بیان سے یہ مقدمہ مزید مضبوط ہو گیا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کیے جانے والے بیان کو عدالتیں مقدمے کی سماعت کے دوران قبول کرتی ہیں جبکہ اس کے برعکس دورانِ تفتیش ملزم کے پولیس کے سامنے دیے گئے اعترافی بیان کو عدالت بطور ثبوت تسلیم نہیں کرتی اور اسے ثابت کرنے کے لیے پولیس کو مزید ثبوتوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

کوئٹہ میں مظاہرہ

دورانِ تفتیش ملزم نے پولیس کو کیا بتایا؟

پولیس حکام کا دعویٰ ہے کہ دورانِ تفتیش ملزم نے بتایا کہ وہ اپنی ملازمت کے دوران دو مرتبہ مختلف واقعات میں شدید زخمی ہوا تھا اور جب تربت میں دھماکہ ہوا تو اس وقت انتہائی مشتعل ہو گیا تھا اور ماضی میں زخمی ہونے کے واقعات اس کے ذہن میں گھوم رہے تھے۔ پولیس کے مطابق ملزم کا کہنا ہے کہ اس دوران سڑک پر اسے حیات بلوچ نظر آیا جس پر اس نے ریموٹ کنٹرول دھماکے کا ذمہ دار اسے ہی سمجھا اور اشتعال میں آ کر حیات بلوچ کو قتل کر دیا۔

موقع پر پہچنے والے پولیس افسر نے کیا دیکھا؟

13 اگست کو جائے وقوع پر پہنچنے والے ایک پولیس افسر کا کہنا ہے کہ ’ہمیں اطلاع ملی کہ ایف سی کی گاڑی کے سامنے دھماکہ ہوا ہے جس کے بعد پولیس فورس کو ہدایت کی گئی کہ وہ فوراً جائے وقوع کا محاصرہ کر لے اور دھماکے کے تقریباً دس سے پندرہ منٹ کے اندر میں خود جائے وقوعہ پر پہنچ گیا تھا۔

’جائے وقوع پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ دھماکے میں ایف سی گاڑی کو کچھ نقصان پہنچا اور اہلکار زخمی ہوئے تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا تاہم وہاں پر ایک اور تکلیف دہ منظر تھا۔ ایک نوجوان خون میں لت پت سڑک پر پڑا ہوا تھا جبکہ ایک بزرگ مرد و خواتین رو پیٹ رہے تھے۔ یہ نوجوان حیات بلوچ تھا اور بزرگ اس کے ماں، باپ تھے۔‘

پولیس اہلکار کے مطابق ’وہاں بڑی تعداد میں لوگ بھی موجود تھے۔ وہ جائے وقوع کے ارد گرد کھڑے تھے۔ وہ مشتعل تھے اور انھیں آگے جانے نہیں دیا جا رہا تھا۔‘

عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟

اگست کا مہینہ تربت میں کھجوروں کی کاشت کا موسم ہوتا ہے اور مقامی مزدور بڑی تعداد میں کھجور کے باغات میں مزدوری کرتے ہیں۔ یہ باغات اس مقام کے اردگرد بھی واقع ہیں جہاں حیات بلوچ کے قتل کا واقعہ پیش آیا۔

ان باغات میں کام کرنے والے متعدد افراد حیات بلوچ کے قتل کے واقعے کے عینی شاہد ہیں اور ان میں سے ایک شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کی۔

باغ میں مزدوری کرنے والے ایک طالبعلم کا کہنا تھا کہ وہ بھی حیات کی طرح اپنے والد ہمراہ باغ میں کام کر رہا تھا کہ اچانک دھماکہ ہوا جس کے بعد ہر طرف دھواں پھیل گیا تھا۔

’جب دھواں کم ہوا تو دیکھا کہ ایف سی کی گاڑی کھڑی ہے جس کو کچھ نقصان پہنچا ہوا تھا۔ اتنے میں دیکھا کہ ایف سی کے شاید دو یا تین اہلکار حیات بلوچ کو پکڑ کر لا رہے ہیں جب کہ اس کے پیچھے اس کے والد دوڑ رہے ہیں اور ان کے پیچھے حیات کی ماں دوڑتی اور چیخ و پکار کرتی ہوئی آ رہی تھیں۔

’یہ تو میں نہیں دیکھ سکا کہ حیات بلوچ کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے کہ نہیں مگر ابھی ہم صورتحال سمجھنے کی کوشش ہی کر رہے تھے کہ فائرنگ کی آواز آئی اور حیات بلوچ زمین پر گر گیا۔ ایف سی اہلکاروں نے بندوقیں تانی ہوئی تھیں اس لیے کوئی بھی سڑک کی طرف نہیں جا رہا تھا اور حیات کے والدین کو بھی زمین پر گرے ہوئے ان کے بیٹے کی طرف جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

’چند ہی منٹ بعد ایف سی کی مزید گاڑیاں وہاں پہنچیں جس کے بعد حیات بلوچ کے والدین کو آگے جانے کی اجازت دی گئی جبکہ اس کے چند منٹ بعد پولیس بھی پہنچ گئی تھی۔ پولیس کے وہاں پہنچنے کے بعد منٹ بعد ایف سی کی گاڑیاں چلی گئی تھیں`۔

عینی شاہد طالبعلم کا کہنا ہے کہ ’ حیات بلوچ کی ماں جب اپنے بیٹے کی لاش کے پاس پہنچیں تو وہ بار بار آسمان کی طرف دونوں ہاتھ اٹھا کر کہہ رہی تھیں کہ اے اللہ انھوں نے میرے سامنے میرے بیٹے کو گولیاں ماری ہیں۔ اے اللہ تو دیکھ رہا ہے، تو انصاف کر، تو انصاف کر۔‘

ایف سی کا موقف کیا ہے؟

ایف سی ساؤتھ کے ترجمان کی جانب سے بدھ کو جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ’13 اگست کو ابسر کے مقام پر دہشت گردوں نے ایف سی کے قافلے کو آئی ای ڈی سے نشانہ بنایا اور ایک صوبیدار سمیت تین اہلکار اس حملے میں شدید زخمی ہوئے۔ حملے کے موقع پر تفتیش کے سلسلے میں علاقے میں موجود افراد بشمول حیات بلوچ سے پوچھ گچھ کی جا رہی تھی کہ ایک اہلکار نائیک شاہدی اللہ نے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فائر کھول دیا جس کے نتیجے میں نوجوان طالب علم حیات بلوچ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پر ہی دم توڑ گیا۔‘

بیان کے مطابق ’موقع پر موجود ایف سی کے دیگر جوانوں نے ملزم پر قابو پا کر اس کا ہتھیار قبضے میں لے لیا تھا اور بنیادی محکمانہ تفتیش موصول ہونے پرآئی جی ایف سی نے فوری طور پر ملزم کو پولیس کے حوالے کرنے کے احکامات جاری کر دیے تھے۔‘

ایف سی کی ایک اور پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ آئی جی ایف سی میجر جنرل سرفراز علی نے بھی بدھ کو حیات بلوچ کے لواحقین سے ان کے گھر پر ملاقات کی اور انھیں یقین دلایا کہ ایف سی بحیثیت ادارہ حیات بلوچ کے لواحقین کے ساتھ کھڑا ہے اور انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp