بہروز بوچانی: جس نے آسٹریلیا کا نقاب نوچ لیا


ایک طویل عرصے تک آسٹریلیا تارکین وطن کی جنت بنا رہا۔ امریکہ کی طرح یہ بھی ایک ایسا ملک رہا تھا جہاں دینا بھر سے لوگ آ کر بس گئے۔ یہاں طرح طرح کے لوگ اپنی اپنی شناخت برقرار رکھے ہوئے بھی یہاں رچ بس گئے اور امن اور استحکام سے زندگی بسر کرنے لگے۔ ان دونوں ملکوں نے دل کھول کر تارکین وطن کو خوش آمدید کہا۔ دونوں ملکوں کے اصلی باشندے پس پردہ رہ گئے۔ آنے والوں نے باگ ڈور سنبھالی اور ترقی کی راہ پر بگٹٹ روانہ ہو گئے۔

آسٹریلیا لگتا ہے اللہ نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ یہاں قدرت نے بے پناہ فیاضی دکھائی ہے۔ زمین زرخیز ہے۔ دریا نہریں اور سمندر ہے۔ کاشکاری سے لے کر گائے بیل اور سمندی غذا سب وافر دستیاب ہے۔ ملک اتنا بڑا تھا کہ لوگ اس میں سماتے چلے گئے۔ آسٹریلیا کو 1606 میں ایک ڈچ کشتی ران نے دریافت کیا۔ پھر برطانویوں نے یہاں آنا شروع کیا اور اس پر قبضہ جما کر اسے اپنی کالونی بنا لیا۔ اور اپنے جرائم پیشہ افراد کو کالے پانی کی سزا کے طور پر آسٹریلیا بھیجا جانے لگا۔

اور ایک رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا میں ہر پانچواں فرد انہی سزایافتہ افراد کی اولاد میں سے ہے۔ 1948 کے بعد سے 1972 میں پہلی بار لیبر پارٹی کی حکمرانی ہوئی اور ان کے امیگریشن وزیر نے ملک کی پالیسی میں زبردست تبدیلی کی اور باہر سے آنے والوں اور یہاں بس جانے کی خواہش کرنے والوں کے لیے آسانیاں پیدا کیں۔ ملک نے اپنی امیگریشن پالیسی وضح کی اور دوسرے ملکوں سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا جس کی وجہ یہ تھی کہ ملک بڑا ہو رہا تھا۔

1975 میں پہلی بار ” کشتی والے لوگ” آنے شروع ہوئے۔ آنے والے 30 برسوں میں لگ بھگ 25000 ہزار مہاجرین ماہی گیروں کی ٹوٹی پھوٹی غیر محفوظ کشتیوں میں جانوں سے کھیلتے یہاں آن پہنچے۔ ان میں ایسٹ تیمور، ویت نام اور چین کے باشندے تھے۔ لیکن حالیہ برسوں میں مشرق وسطی سے بھی بڑی تعداد میں مہاجرین آئے۔ جیسے جیسے دنیا میں نا انصافی اور سیاسی توڑ پھوڑ بڑھتی گئی، مہاجرین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔

نوے کی دہائی میں آسٹریلیا نے امیگریشن قوانین میں سختی شروع کردی۔ اور یہاں حراستی کیمپ یعنی ڈیٹنشن سینٹرز بنائے۔ اس کا بظاہر مقصد یہی تھا کہ غیر قانونی طور پر آنے والوں کی چیکینگ کی جائے۔ آسٹریلیا دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اس قسم کے حراستی کیمپ بنائے اور چلائے جاتے ہیں اور غیر قانونی ہر آنے والے کو یہاں لازمی رہنا ہوتا ہے۔ وہ بھی جو پناہ کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان کیموں کی شہرت بہت خراب ہے۔ ان کو متواتر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی انجمنوں اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کو ان پر شدید تحفظات ہیں۔ ان بدنام زمانہ کیمپز میں انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ اور انسانی وقار کو روندا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ کیمپ مہاجرین کو سزا دینے کے لیئے قائم کیئے گئے ہیں۔

آسٹریلیا کا یہ کہنا ہے کہ وہ ایسا اپنی سرحدیں محفوظ بنانے کے لیئے کرتا ہے۔ لیکن یہ کچھ حد سے زیادہ ہو گیا۔ آسٹریلیا نے اپنی سرزمین سے بھی آگے یہ کیمپز بنائے اور مہاجرین کو اپنی زمین پر قدم دھرنے نہیں دیتے۔ پاپوئے نیو گنی کا کیمپ مانوس جو آسٹریلیا نے مستعار لیا ہے اس کی ایک مثال ہے۔ ان کیمپز کو آف شور کیمپپز کہا جاتا ہے۔ اتنہائی درجے کا یہ ذلت آمیز رویہ آسٹریلیا کی لبرل اور جمہوری سوچ کے بالکل برعکس ہے۔ اس کیمپ کو آسٹریلیا کا گوانتانا موبے بھی کہا جانے لگا۔ آسٹریلیا کا وہ ملائم تاثر ضائع ہو گیا وہ اب بے رحم سنگدل اور سفاک نظر آنے لگا۔ دنیا کو اس نئے روپ کی خبر قدرے دیر سے ملی۔ ان کیموں میں انسانوں کے ساتھ برے سلوک کی ایکا دکا خبریں آئیں۔ کچھ عالمی شہرت والے صحافیوں نے ان کیمپز کا دورہ کیا اور انہیں غیر انسانی اور شرمناک حد تک بے رحم قرار دیا۔ اخبار گارڈین نے ان کیمپز پر بہت کچھ لکھا اور دنیا متوجہ ہوئی۔ اس معاملے کو دنیا کے سامنے لانے میں ایک شخص بہروز بوچانی کو بڑا کردار ہے۔

پاپوئے نیو گنی کا کیمپ مانوس بدنام ترین کیمپ ہے۔ اسی کیمپ میں ایران کا ایک شہری لایا گیا۔ جس کا نام تھا بہروز بوچانی۔ بوچانی ایرانی کرد ہے۔ وہ صحافی، مصنف ،فلم ساز اور انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے والا ایک جرات مند شخص ہے۔ 2013 میں جب ایران کی سرزمین پر اسے تنگی اور گھٹن کا احساس ہونے لگا اس کے کئی ساتھیوں کو گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو بہروز خود کو غیر محفوظ جان کر ایران سے فرار ہوا اور انڈونیشیا پہنچ گیا۔ اس کی منزل آسٹریلیا تھی۔ جو اس کے خیال میں ایک آزاد اور پر امن ملک تھا۔ جہاں انسان کی وقعت اور قدر ہے۔

انڈونیشیا سے وہ 60 اور لوگوں کے ساتھ ایک کشتی میں آسٹریلیا کی جانے کی غرض سے روانہ ہوا۔ ایک بار ناکام کوشش کے بعد جولائی میں وہ آسٹریلیا کے پانیوں میں داخل ہو گئے۔ آسٹریلیا کی نیوی نے کشتی کو گھیر لیا اور ان سب کو ایک جزیرے کرسمس آئی لینڈ میں ایک ماہ رکھ کر ایک اور جزیرے مانوس میں بھیج دیا۔ مانوس وہ جزیرہ ہے جو آسٹریلیا میں نہ ہوتے ہوئے بھی آسٹریلوی حکومت کے تحت ہے۔ اس حراستی کیمپ میں تنہا مرد تارکین کو رکھا جاتا تھا۔ یہاں 600 کے قریب افراد رہ رہے تھے۔

بہروز کو سخت مایوسی ہوئی یہ دیکھ کر کہ خوابوں کی یہ سرزمین حقیقت میں کچھ اور ہی تھی۔ یہاں انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوتی رہی۔ پناہ کی تمنا رکھنے والوں کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کیا جاتا رہا۔ بہروز بوچانی کو کسی نے ایک پرانا موبایئل فون اسمگل کر کے پہنچا دیا۔ بوچانی نے بذریعہ واٹس ایپ انسانی حقوق سے وابسطہ لوگوں کی تلاش شروع کر دی۔ چند آزاد صحافیوں سے بھی آشنائی پیدا کر لی۔ اس نے کیمپ میں ہونے والی زیادتیوں، انسانی حقوق کی پامالی اور گارڈز کے ناروا سلوک کے بارے میں معلومات جمع کیں اور انہیں اپنے چھوٹے سے پرانے سے موبایئل سے واٹس ایپ کرکے بھیجنا شروع کردیا۔ اس نے دا گارڈین، سڈنی ہیرالڈ ، مہاجرین کی مدد اور انسانی حقوق کے انجمنوں کو پیغامات بھیجنے شروع کر دیئے۔ پھر اس نے پین انٹرنیشنل کی میلبورن اور نارویجین شاخوں سے بھی رابطہ کیا۔ اور اب وہ اس کا باقاعدہ ممبر بھی ہے۔

اسی دوران اسے ایک ایرانی شخص امید توفیقیان ملا جسے بہروز نے باقاعددگی سے کیمپ کے حالات کے بارے میں مسیج بھیجے اور امید نے ان پیغامات کو ترجمہ کر کے مختلف جرائد میں پبلش کروا دیا۔ آسٹریلیا کی بہت بدنامی ہوئی۔ بہروز اپنے جیسوں کی آواز بن گیا اور اس کی آواز پھیلتی گئی۔ وہ ان مظالم کا شاہد بھی تھا۔ مزاحمت کا نشان بھی اور بقا کا جنگجو بھی۔ وہ بھرپور احتجاج کرتا رہا۔ آسٹریلوی حکام نے اسے شر پسند کہا۔ الزام لگایا کہ وہ دوسروں کو بھی اکساتا ہے۔ بہروز نے گارڈز کی بد سلوکی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بھوک ہڑتال بھی کی جو بزور توڑی گئی اور اسے آٹھ دن جیل میں اور تین دن قید تنہائی کاٹنی پڑی اور اسے کہا گیا کہ وہ رپورٹنگ کرنا بند کردے۔ کیمپ میں محصور لوگ شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھے۔ آپس میں جھگڑے، خود کو زخمی کرنا، خودکشی کے اقدام اور گارڈز پر حملے معمول بن گیا۔ بوچانی ان کی آواز بن کر بولتا رہا۔ کیمپ کے حکام کی سختیاں بھی اسے خاموش نہ کرا سکیں۔

حراستی کیمپوں میں تارکین وطنوں پر غیر اخلاقی سلوک کیا جاتا رہا ہے۔ یوں تو ہر کیمپ میں ہر جگہ کیمرے لگے ہوئے ہیں لیکن ایک گوشہ ضرور ایسا بھی ہوتا جہاں کیمرے کی آنکھ نہیں پہنچتی۔ کسی پر غصہ آیا ہو یا کسی نے اپنی بساط سے بڑھ کر کوئی بات کہہ دی ہو تو اسے اس گوشے میں لا کر مار پیٹ سے ہوش ٹھانے لگانے کا اہتمام کیا جاتا۔

2017 میں اس کیمپ کی بدنامی کے بعد اسے بند کرنے کو فیصلہ کیا گیا۔ لیکن یہاں رہنے والے رفیوجیز نے کیمپ چھوڑنے سے انکار کردیا اور بھرپور مزاحمت کی۔ انہیں یہ خطرہ تھا کہ یہاں سے نکال کر انہیں اپنے اپنے ملکوں میں ڈی پورٹ کردیا جائے گا۔ اس مزاحمت کا الزام بھی بہروز پر لگایا گیا۔ ان محصورین کو آسٹریلیا کی حکومت کی تو نہیں لیکن عوام کی ہمدردی اور امداد ضرور حاصل تھی۔

بوچانی چھے سال اس حراستی کیمپ میں رہا۔ اس کے پیغامات اب ہر جگہ جا چکے تھے۔ آسٹریلیا کے عوام نے اس کی اور کیمپ میں رہنے والے دوسرے لوگوں کی بھرپور حمایت کی۔ ان کے لیئے آواز اٹھائی۔ ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشنز پر یہ مسئلہ ڈسکس ہونے لگا اور حکومت کو مزید سبکی اٹھانی پڑی۔ مانوس کیمپ سے بھیجے جانے والے پیغامات کا ترجمہ ہوا، جو مختلف اخباروں میں شایئع بھی ہوئے۔ اور پھر ان پیغامات پر ایک کتاب بھی بن گئی۔  نو فرینڈز بٹ دا ماونٹینز۔ رفیق بجز کوہ ہا کسی نیست۔ کوئی دوست نہیں پہاڑوں کے سوا۔

اس کتاب میں بہروز نے دل کھول کے رکھ دیا۔ یہ نثری اور شعری تحریر ہے اور اسے بے پناہ پذیرائی ملی اور بیسٹ سیلر رہی۔ 2019 میں آسٹریلیا کا سب سے بڑا ادبی انعام وکٹورین پریمر بھی ملا۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی انعامات ملے۔ اس کے اعزاز میں جلسے ہوئے، تقاریب ہویں لیکن بہروز کے بغیر۔ دنیا بھر سے بہروز کو بلاوے آ رہے تھے۔ نیوزی لینڈ نے بھی بہروز کو اپنے ملک آنے کی دعوت دی۔ یو۔ این۔ ایچ۔ سی آر نے اس معاملے میں دلچسپی لی اور بہروز کو سفری کاغذات بنا کر دیئے۔ بلان یہ تھا کہ بہروز کو انڈونیشیا میں ایک تقریب سے جو بلاوا آیا ہے وہ اس میں شرکت کر لے۔ لیکن انڈونیشیا نے اسے ویزا نہیں دیا۔ ایک دعوت نامہ نیوزی لینڈ سے بھی آیا تھا۔ نیو زی لینڈ نے اسے ایک ماہ کا ویزا بھی دے دیا۔ چھے سال مانوس نامی کیمپ میں رہنے کے بعد بہروز کا آزادی کا سفر شروع ہوا۔ نیو زی لینڈ میں اس کا شاندار استقبال ہوا اس کے ایک ماہ کے ویزے میں توسیع کی گئی جولائی 2020 میں بہروز کو ریفیوجی اسٹیٹس مل گیا اور وہ کنٹربری یونیورسٹی میں ریسرچ فیلوشپ کر رہا ہے۔

بہروز اب آزاد ہے۔ محفوظ ہے۔ لیکن اسے اپنے کیمپ کے ساتھیوں کی اب بھی فکر ہے۔ بہروز بوچانی کی کتاب کو کئی اور انعامات اور اعزازات ملے اور اب اس پر ایک فلم بھی بنائی جارہی ہے۔

آسٹیلیا کے ان کیمپز میں غیر انسانی سلوک کے بارے میں خود آسٹریلیا میں نیٹ فلیکس کی جانب سے ایک فلم سیریز بنی۔ اسٹیٹ لیس نامی اس سیریز کی چھے اقساط ہیں۔ یہ سچے واقعات پر مبنی ہے اور دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ کہانی ہے ایسے لوگوں کی جو اپنے وطن میں سیاسی، مذہبی اور معاشی ناانصافی سے فرار حصل کر کے ایک بہتر اور باوقار زندگی کی خواہش لے کر اپنی جانیں داو پر لگا کر آسٹریلیا پہنچتے ہیں اور یہاں بھی انہیں ذلت، ندامت اور نسلی انتہا بسندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آستریلیا کو ایک بات کی تعریف بنتی ہے کہ اس نے اس فلم کو بنانے میں پیسہ بھی دیا اور اس کی ریلیز میں کوئی روکاوٹ بھی نہ ڈالی۔

 فلم اسٹیٹ لیس کے مناظر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).