گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے سے کام نہیں چلے گا


اب حکومت کو یہ یقین ہو چکا ہے کہ وہ کہیں نہیں جا رہی اس کا اظہار وزیراعظم کے قریبی ساتھیوں جو ان کی کابینہ میں بھی شامل ہیں نے کیا ہے۔ اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ پچھلے دنوں یہ جو ان کے جانے کی باتیں ہو رہی تھیں وہ سچ تھیں، باتیں اب بھی ہو رہی ہیں کہ حزب اختلاف کی جماعتیں یہ خواہش رکھتی ہیں۔ عمران خان کو اقتدار سے محروم کر دیا جائے کیونکہ وہ عوام کی خدمت کرنے میں ناکام رہے ہیں، وہ ان کے دو برسوں کی کارکردگی سے قطعی مطمئن نہیں کہ انہوں نے ملک کی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا۔

عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لاد کر ان کی زندگیاں اجیرن کر دیں لہٰذا وہ نا اہل بھی ہیں اور کاہل بھی پھر ان کے بعض ساتھیوں نے خوب عوام کی جیبوں سے پیسے نکلوائے اور ان سے اپنی تجوریاں بھر لیں یعنی وہ بدعنوانی کے خاتمے کے لیے آئے تھے مگر ان کے دور میں وہ اور بھی زیادہ رفتار سے ہونے لگی۔ لہٰذا انہیں حکمرانی کا کوئی حق نہیں

کیسے کیسے لوگ ہیں یہ!

اس حزب اختلاف کو اپنی منجھی تھلے بھی تو ڈانگ پھیر لینی چاہیے کہ ان پر بدعنوانی کے کئی کئی مقدمات قائم ہیں۔ نیب ان کے پیچھے پیچھے ہے۔ اگرچہ ابھی تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی کہ وصولیاں جن کی توقع کی جا رہی تھی وہ نہیں ہوئیں مگر پھر بھی کنویں میں اینٹ گری تو ہے جو ظاہر ہے سوکھی نہیں باہر آئے گی کچھ نہ کچھ ضرور برآمد ہو گا لہٰذا حزب اختلاف محض شور اپنے آپ کو بچانے کے لیے کر رہی ہے وگرنہ اس کے ادوار میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا ہے۔

اس سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا مہنگائی کے طوفان نہیں آتے رہے۔ کمزوروں کی جائیدادوں پر قبضے نہیں ہوئے۔ تھانہ کلچر وہی نہیں رہا جو آج سے ساٹھ ستر برس پہلے تھا۔ پٹواریوں نے غریب کسانوں اور لوگوں کو دونوں ہاتھ سے نہیں لوٹا سرکاری محکموں میں رشوت کا بازار گرم  نہیں رہا۔ کمیشن خوری نہیں ہوتی رہی اور من پسند افراد کو ٹھیکے دے کر قومی خزانے کو نہیں نقصان پہنچایا گیا۔ یہ سب دھڑلے کے ساتھ ہوتا رہا اور ہاں کیا بیورو کریسی بے لگام نہیں تھی۔

ان سب سوالوں کا جواب اسے دینا چاہیے۔ سچ یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کو ناکام بنانے کے لیے ہر طرف سے ہر طرح کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ان کے کچھ رفقاء جو بدعنوانی کو غلط قرار نہیں دیتے غریب عوام کا دانستہ مال ہتھیا کر یہ تاثر دینا چاہتے ہیں اب کسی اور کو لایا جائے گا۔ تو ان کے حالات بہتر ہوں گے یعنی اس میں انہیں ایک بار پھر لوٹ کھسوٹ کا موقع میسر آ جائے گا۔ اس طرح مختلف مافیاز بھی حکومت کو کامیاب نہیں دیکھنا چاہتے لہٰذا وہ اپنے اپنے دھندوں میں مصروف عمل نظر آتے ہیں جن سے عوام بے حد پریشان ہیں۔ آٹا، چینی اور ادویات سکینڈل منظر پر آ چکے ہیں مگر نیب نے ان سب پر ہاتھ ڈال لیا ہے آگے کیا ہوتا ہے معلوم نہیں مگر ایک خوف لازمی جنم لے چکا ہے جن پر الزامات ہیں کہ وہ سزا کے مستحق بھی ٹھہرائے جا سکتے ہیں یا پھر وہ آئندہ سوچ سمجھ کر کوئی غلط قدم اٹھائیں گے؟

بہرحال عمران خان ابھی کہیں نہیں جا رہے موجودہ عالمی صورت حال کے تناظر میں ان کو حزب اختلاف کا اقتدار سے الگ کرنا یا اس کی کوشش کرنا بالکل مناسب نہیں نئے نئے بلاک بن رہے ہیں جن میں پاکستان کو بہت اہمیت حاصل ہو گئی ہے لہٰذا کوئی بھی سیاسی تبدیلی خسارے کا سبب بن سکتی ہے۔ اگرچہ وہ انقلابی تبدیلی نیہں لا سکے مگر دل کہتا ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ بہتر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ بدعنوان عناصر سے سخت ہاتھ کے ساتھ نمٹا چاہتے ہیں ان کی حکومت میں بھی جو کوئی عوام کو لوٹ رہا ہے اسے قانون کی گرفت میں لانے کے خواہشمند ہیں مگر ابھی تک اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔

امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں انہیں کچھ کامیابیاں حاصل ہو سکتی ہیں۔ یوں عوام کو بھی ریلیف ملنے کی توقع کی جا سکتی ہے مگر ان سے یہ گزارش ہے کہ وہ ڈرگ مافیا، تھانہ کلچر، پٹوار نظام اور بیورو کریسی پھر نظریں جمائیں۔ علاوہ ازیں انتظامی امور جو ڈھیلے ڈھالے ہیں جس سے مہنگائی مافیا اور ذخیرہ اندوز خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں اور عوام کا جینا حرام کر رکھا ہے پر بھی خصوصی توجہ دیں ایک عرض یہ بھی ہے کہ وہ صحت کے حوالے سے بھی اقدامات کریں۔

ایک ہی طریقہ علاج ایلو پیتھک پر انحصار نہیں کیا جانا چاہیے ہیومیو پیتھک کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے کیونکہ یہ سستا بھی ہے اور بڑی حد تک بے ضرر بھی۔ ہومیو ڈاکٹروں سے بھی استدعا ہے کہ وہ اب جب یہ علاج بالمثل اپنی پہچان کروا رہا ہے مریضوں کی جیب پر بوجھ زیادہ نہ ڈالیں۔ کیسوں کو لٹکائیں نہیں تیزی سی شفایاب کی طرف لے جانے والی ادویات دیں تا کہ لوگ اس بارے اپنا نقطہ نظر بدلیں اور تندرستی کی جانب بڑھیں!

بات ہو رہی تھی موجودہ حکومت سے توقعات کی کہ مستقبل میں عوام کے دن بدلنے کی آس لگائی جا سکتی ہے کیونکہ اب لوگوں کو مزید بھول بھلیاں میں گھمانا ممکن نہیں رہا وہ تنگ آ چکے ہیں اس نظام سے حکمرانوں کے طرز عمل سے۔ میں دوبارہ کہتا ہوں کہ عالمی صورت حال میں عوام کو حکمرانوں کا خود سے دور رکھنا اور ڈنڈے کے زور پر اپنے تابع کرنا جاری منصوبوں کو متاثر کر سکتا ہے لہٰذا پالیسی یہ ہونی چاہیے کہ لوٹی ہوئی دولت جس کسی نے بھی ایسا کیا ہے واپس قومی خزانے میں لائی جائے بدعنوانوں کو کسی صورت نظر انداز نہ کیا جائے احتساب کا عمل شفاف اور تیز بنایا جائے۔ محض لوگوں کو اطمینان دلانے کے لیے کارروائیاں نہیں ہونی چاہئیں۔

حرف آخر یہ کہ اب واقعتاً حکومت کے پاؤں جم چکے ہیں تو اسے عوام کے لیے سرعت کے ساتھ میدان عمل میں آجانا چاہیے کیونکہ وہ اس کی پالیسیوں سے سخت نالاں ہیں۔ دو صوبوں میں اس کی حکومت ابھی تک انتظامی امور کے حوالے سے کوئی مثال قائم نہیں کر سکی ہر کوئی اپنی من مرضی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ قانون سویا ہوا ہے تو کچھ غلط نہ ہو گا لہٰذا فعالیت کی طرف آیا جائے گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے سے کام نہیں چلے گا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).