ہمارے عرب بھائیوں کا یہود و ہنود سے اتحاد پرانا قصہ ہے


روایتی طور پر پاکستان اور کئی عرب ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات قائم ہیں۔ اور یہ تعلقات اس وقت زیادہ مضبوط ہو جاتے ہیں جب پاکستان کو مالی مدد یا ادھار پر تیل درکار ہو۔ ہم اس وقت ”یا اخی“ کا نعرہ لگا کر ان کے درباروں میں حاضر ی دیتے ہیں اور من کی مراد پاتے ہیں۔ ہمارے برادر ممالک کو ہماری یاد اس وقت ستاتی ہے جب انہیں کسی فرمانبردار اتحادی کی ضرورت ہویا مناسب تنخواہ پر فوجی خدمات درکار ہوں۔

سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ مگر کچھ ہفتوں سے یہ تعلقات اتھل پتھل کا شکار ہیں۔ پہلے تو متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کر کے سفارتی تعقات قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہ خبر سن کو کئی پاکستانی حلقوں نے دانتوں میں انگلیاں دبا کر حیرت کا اظہار کیا لیکن جمیعت العلماء اسلام کے مرکزی ترجمان حافظ حسین احمد صاحب نے تو حد کر دی۔ انہوں نے بیان داغا کہ متحدہ عرب امارات نے عالم اسلام کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ہے۔ جمیعت العلماء اسلام کو اپنے ترجمان کی اردو بہتر بنانے کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ یہ محاورہ تو اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کوئی بے خبری میں اچانک وار کرے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کے اخبارات میں یہ خبریں ایک عرصہ سے شائع ہو رہی تھیں کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب اسرائیل کے قریب آ رہے ہیں۔ تجارتی تعلقات قائم ہو رہے ہیں۔ دنیا یہ نوشتہ دیوار پڑھ رہی تھی کہ کون کس کے ساتھ بھاگنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ اور خاکسار نے اس پر ایک کالم بھی تحریر کیا تھا۔

بہر حال ابھی اس واقعہ کے بعد ہم نے اپنی انگلیاں دانتوں سے نہیں نکالی تھیں کہ ہمارے وزیر خارجہ نے اس بات پر کچھ آنکھیں دکھانے کی کوشش کی کہ کشمیر کے مسئلہ پر مسلمان ممالک کی تنظیم او آئی سی کا اجلاس کیوں نہیں بلایا جاتا۔ حالانکہ انہیں علم ہونا چاہیے تھا کہ او آئی سی ان کاموں کے لئے نہیں بنائی گئی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ برادر ملک سعودی عرب نے اپنا ادھار واپس مانگ لیا اور یہ بھی بتا دیا کہ غالب کو قرض کی مے ملتی ہو گی لیکن اب سے پاکستان کو ادھار پر تیل نہیں ملے گا۔

یہ سن کر جنرل قمر باجوہ صاحب سعودی عرب کے دورہ پر روانہ ہوئے۔ شہزادہ محمد بن سلیمان تو دنیا داری کے جھمیلوں سے اکتا گئے تھے۔ اس لئے نہیں مل سکے۔ چنانچہ نائب وزیر دفاع اور باجوہ صاحب کی ملاقات ہوئی۔ اور نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت کے اخبارات کو بغلیں اور شادیانے بجانے کا ایک اور موقع ہاتھ آیا کہ پاکستانی اپنا سا منہ لے کر واپس ہوگئے۔

اس وقت پاکستان کے عوام حیرت اور دکھ سے ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں کہ ہم سے وہی سلوک ہوا جو برادران یوسف نے اپنے چھوٹے بھائی سے کیا تھا۔ فرق یہ ہے کہ ہمارے پاس ”حسن یوسف“ نہیں اور کوئی ہمارے لئے ”گریہ یعقوب“ بھی نہیں کرے گا۔ مناسب ہوگا اگر اس تنہائی میں ہم اپنے برادر ممالک کی کچھ تاریخ دہرا لیں۔

سلطنت برطانیہ کے قبضہ میں آنے سے قبل فلسطین کا علاقہ سلطنت عثمانیہ کے تحت تھا۔ ظاہر ہے کہ یہودی وہاں پر آباد ہونا چاہتے تھے تاکہ وہاں اپنا وطن بنا سکیں اور اس کے لئے سلطنت عثمانیہ کے بادشاہ کی اجازت چاہیے تھی۔ اس کے لئے پہلی کوشش بھی ہندوستان سے ہوئی تھی۔ اس وقت یہودی سائنسدان ہیفکائن یہاں پر طاعون کے حفاظتی ٹیکے پر کام کر رہے تھے۔ آغان خان سوئم ان کے دوست اور سرپرست تھے۔ اور انہوں نے ہیفکائن کو لیبارٹری کے لئے بمبئی میں خسرو لاج نام کی عمارت بھی دی تھی۔

چنانچہ ان کی تحریک پر آغا خان سوئم نے ترکی کی سلطنت عثمانیہ کے سلطان عبد الحمید ثانی سے ملاقات کی اور انہیں اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے دیں۔ اور کہا کہ امیر یہودی فلسطین میں زمینیں خریدیں گے۔ لیکن سلطان عبد الحمید ثانی نے سختی سے انکار کر دیا۔ آغا خان اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ یہ انکار سلطان عبد الحمید کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ اس طرح اسرائیل بنانے کے منصوبے میں تاخیر ہو گئی۔

زیادہ طویل عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اس بات کا موقع پیدا ہو گیا کہ فلسطین اور دیگر عرب علاقوں سے ترکوں کا تسلط ختم کیا جائے۔ پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو سلطنت عثمانیہ جرمنی کا اتحادی بن کر میدان جنگ میں کود پڑی۔ دوسری طرف برطانیہ فرانس اور روس تھے۔

چند ماہ ہی میں ترکی کے بحری جہازوں نے بحیرہ اسود میں اپنے روایتی حریف روس کی بندرگاہوں پر حملہ کر کے انہیں کافی نقصان پہنچایا۔ فیصلہ ہوا کہ ترکی کی سلطنت عثمانیہ کو سبق سکھایا جائے۔ برطانیہ اور فرانس نے منصوبہ بنایا کہ گیلی پولی جزیرہ نما پر حملہ کر کے روس تک کے بحری راستوں پر قبضہ کر کے ترکی کو تباہ کر دیا جائے۔

برطانیہ اور فرانس کی فوجوں کے علاوہ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور ہندوستان سے بھی فوجیں منگوائی گئیں۔ برطانیہ اور اس کے اتحادی ترکی کی افواج کو بہت کمزور حریف سمجھ رہے تھے۔ بحریہ کے برطانوی وزیر ونسٹن چرچل کا خیال تھا کہ ہمارے پچاس ہزار فوجی ترکی کے دانت کھٹے کر دیں گے۔ وزیر جنگ لارڈ کچنر کا تخمینہ تھا کہ ستر ہزار کافی ہوں گے۔

جب ارادے ظاہر ہوئے تو ترکی اور جرمنی نے اپنی تیاری شروع کی۔ ایک جرمن جرنل اور ترکی کی طرف سے لیفٹنٹ کرنل مصطفے ٰ کمال فوجوں کی قیادت کر رہے تھے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ بلند مقامات پر اپنی توپیں نصب کر لی جائیں۔

مارچ 1915 میں اتحادیوں نے طمطراق سے اٹھارہ جہازوں کا بیڑہ آگے بڑھایا تاکہ ترکی کی حدود میں تنگ ڈارڈینائل سمندری گزرگاہ سے ان کو شمال کی طرف بڑھایا جائے۔

ان کے اعتماد کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے ترکی کے ساحل سے مناسب فاصلہ رکھنے کی زحمت بھی نہیں کی۔ ابھی وہ اس گزرگاہ میں داخل ہی ہوئے تھے کہ ترکی کی توپوں سے شعلے بلند ہونے شروع ہوگئے۔ دیکھتے دیکھتے برطانیہ اور فرانس کے چار جہاز تباہ ہو چکے تھے۔ اس بیڑے کو شرمندگی سے واپس پلٹنا پڑا۔ یہ ذلت آمیز شکست تھی۔

بدلہ لینے کے لئے اتحادیوں نے 25 اپریل کو جزیرہ نما گیلی پولی پر اپنی فوجیں اتارنی شروع کیں۔ لیکن جب ان افواج کی پیش رفت شروع ہوئی تو انہیں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اتحادیوں نے ان بلند مقامات پر قبضہ کی کوشش کی جن پر ترکی کی توپیں نصب تھیں۔ لیکن بار بار شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ہزاروں کی تعداد میں اتحادی فوجی مرنے لگے۔ چار لاکھ اسی ہزار فوجی اتار کر اور چھیالیس ہزار اتحادی فوجیوں کو مروا کر بھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اور آخر کار خفت اٹھا کر اتحادیوں کو پسپا ہونا پڑا۔ ونسٹن چرچل کو اپنی وزارت سے استعفیٰ دینا پڑا اور برطانیہ کی حکومت اس حد تک کمزور ہو گئی کہ اگلے سال نئی کابینہ کو سامنے لانا پڑا۔

اتحادیوں کو پتہ چل گیا تھا کہ اس طرح جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔ صیہونی تنظیم کو بھی علم ہو گیا تھا کہ اگر اسی طرح فلسطین اور عرب علاقے سلطنت عثمانیہ کے قبضہ میں رہے تو اسرائیل بنانے کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ یہ لوگ ذہین تھے انہوں نے اس کا سستا حل ڈھونڈ لیا۔ برطانیہ نے عرب علاقوں میں اپنے ایجنٹ بھجوانے شروع کیے تاکہ عرب سرداروں سے ترکوں کے خلاف بغاوت کرائی جائے۔ تا کہ دونوں طرف سے مسلمان مارے جائیں اور یہ گروہ اپنے مقاصد حاصل کر لیں۔ اس ڈرامے کی تفصیلات آئندہ کالموں میں پیش کی جائیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).