کیا مدارس کے طلباء کند ذہن ہوتے ہیں؟


انسان کی دماغی صلاحیتیں کسی اسکول کالج اور یونیورسٹی کی رہین منت نہیں ہیں۔ کم و بیش پچھلے دو صدیوں میں انسان اپنی دماغی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر زندگی کے ہر شعبے میں محیر العقول ترقی کی ہے اور انسانی زندگی کو آسان سے آسان تر بنانے کے لئے طرح طرح کے ایجادات و اختراعات دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ مدارس کے طلباء مضر حد تک جمود کے شکار ہیں؟ کیا ان کے اندر ذہنی ارتقاء کی صلاحیت نہیں ہے یا کسی لکیر کے فقیر نظام تعلیم نے ان کو ناکارہ بنا رکھا ہے یا خود ان کے اندر جذبے کی کمی ہے یا وہ اپنے مستقبل کے تئیں لاپروا ہوتے ہیں؟ ممکن ہے ان میں سے کوئی ایک یا سبھی عوامل کارفرما ہوں۔

جب اسکول میں بچے بچیوں کا داخلہ کرایا جاتا ہے اسی وقت سے والدین اپنے بچوں کے لئے خواب بننا شروع کر دیتے ہیں کہ ان کے بچوں کو کیا بننا ہے۔ دوسرا مرحلہ آٹھویں کلاس کے فوراً بعد شروع ہوتا ہے جس وقت والدین کی خواہش، بچے کا رجحان اور بچے کی علمی و فنی صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اساتذہ طے کرتے ہیں کہ اس کے لئے آرٹس اسٹریم بہتر ہوگا یا کا کامرس یا سائنس اسٹریم پھر اگر سائنس تو انجنیئر اور سائنٹسٹ بننا ہے تو سائنس اسٹریم مع میتھیمیٹکس ریاضیات اور اگر ڈاکٹر یا فارمیسسٹ بننا ہے تو سائنس اسٹریم مع بایولوجی حیاتیات۔

افسوس مدارس کے طلباء ان امور سے نابلد ہوتے ہیں۔ عموماً وہ ایک روایتی مولوی بننے تک محدود رہتے ہیں۔ مستقبل میں کیا بننا ہے کیا کرنا ہے اس کے لئے ان میں کوئی ambition ایسی کوئی خواہش، تمنا اور خواب نہیں ہوتے جن کو پورا کرنے کے لئے سرگرداں ہوں۔ تاہم ذہانت کی کمی نہیں ہوتی۔ ذہانت انسانوں کو ترقی یافتہ اور خوشحال کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے بشرطیکہ ذہانت intelligence کو عقل و شعور wisdom کے ساتھ استعمال کیا جائے۔

دماغ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک خاص نعمت ہے جو انسانوں کو عطا کی گئی ہے۔ یہ دماغ ہی ہے جس کے اندر سوچنے اور سمجھنے کی قوت ہوتی ہے تصور کرنے کی قدرت ہوتی ہے اور جس میں حافظے کی قوت ہوتی ہے۔ دماغ کی اسی تیزی کو کو ذہانت اور سست روی کو کند ذہنی کہتے ہیں۔

مدارس کے طلباء میں دماغ کی وہ صلاحیت، جسے حافظہ کہتے ہیں، غیر معمولی ہوتی ہے۔ اس کا ایک نمونہ حفظ قرآن ہے۔ یہ اعجاز قرآنی ہے اس میں کلام نہیں مگر حافظ قرآن میں حافظہ کی قوت دیکھیں کہ الفاظ و آیات تو الفاظ آیات بغیر فتحہ کسرہ اور ضمہ یا حروف میں غلطی کیے قرآن مجید کے تیس پاروں کو یاد کر لیتے ہیں۔ بہت سے فارغین مدارس کو سو سے زائد احادیث نبویہ علیہ الصلوٰۃ والتسلیم ازبر ہوتے ہیں۔ ضرورت ہے ان ذہنی صلاحیتوں کو مرتب کرنے کی۔ ان کو آگ میں تپا کر سونا بنانے کی۔ ان کو کچھ بننے کے لئے اکسانے کی ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی اور ان کی دست گیری کرنے کی۔

یہ بات خوش آئند ہے کہ بعض مخلص شخصیات نے اس جانب توجہ دی ہے اور وہ فارغین مدارس کے لئے کمپٹیشن کے امتحانات، یونین پبلک سروس کمیشن کے کمپٹیشن کے اہل بنانے کے لئے نظم کیا ہے بعض مخلص شخصیات نے حافظ قرآن + ڈاکٹر اور حافظ قرآن+ انجنیئر کا کورس شروع کیا ہے ان کے لئے معقول رہائشی تعلیم گاہوں کا نظم کیا ہے، بعض شخصیات فارغین مدارس کے لئے قانون دان بننے کے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ یہ جنوبی ہند کے مسلمان کر رہے ہیں۔ افسوس شمالی ہند کے مسلمان ابھی بھی پدرم سلطان بود کی دنیا میں جی رہے ہیں۔ مدارس اور مدارس کے فارغین یہاں کے دانشوروں کی تنقید و تنقیص کبھی بجا کبھی بے جا اعتراض کی زد پر ہوتے ہیں کوئی بامعنی تعمیری حل کی طرف توجہ نہیں دیتے۔

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ دینی مدارس کا مقصد صرف اور صرف قرآن وحدیث فقہ و تفسیر جاننے والے مولوی بنانا ہے وہ لوگ ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کی ہدایات سے یا تو نابلد ہیں یا جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہیں حضرت نانوتوی رحمہ اللہ نے لکھا کہ مدارس کی تعلیم یعنی عالمیت کے بعد ہمارے طلباء عصری تعلیم کے لئے اسکول کالج اور یونیورسٹی میں داخلہ لیں اور اپنی صلاحیتوں کو وہاں بھی بروئے کار لاتے ہوئے امتیاز حاصل کریں۔ ویسے بھی ہر سال دس سے پندرہ ہزار فارغین مدارس کی کھپت کے لئے کتنے مدرسوں اور مسجدوں میں آسامیاں ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).