کیا ریاست کو یاد ہے؟


ایک فلاحی ریاست کیسی ہوتی ہے کیسے بنتی ہے اس کے کیا مقاصد ہیں؟ ایک فلاحی ریاست کی ذمہ داری کیا ہے؟ ان سوالوں کا جواب کیا ریاست کے دستور میں موجود ہے؟

ایک فلاحی ریاست کی سادہ سی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ ریاست عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے واسطے ضروری اقدامات کرے۔ خاص کر ایسے معاشی اقدامات کرے جس سے ریاست کے تمام شہری بلا کسی تخصیص کے با عزت روزگار کما سکیں۔

دستور پاکستان 1973 میں ایک آرٹیکل 38 ہے۔ جس کا مقصد عوام کی معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود کا فروغ ہے۔ جس کے تحت ریاست کی ذمہ داری ہے اور جسے پورا کرنا حکومت کا کام ہے کہ عوام کی فلاح کے لئے بہتر روزگار کے مواقع پیدا کرے۔ اس پر کس حد تک عمل ہوا یا بس لاکھوں کروڑوں نوکریاں دینے کے نعرے ہی لگتے رہے یہ قابل غور ہے۔

آرٹیکل 38 کہتا کیا ہے؟

مملکت۔

الف۔ عام آدمی کے معیار زندگی کو بلند کر کے، دولت اور وسائل پیداوار و تقسیم کو چند اشخاص کے ہاتھوں میں اس طرح جمع ہونے سے روک کر کہ اس سے مفاد عامہ کو نقصان پہچنے اور آجر و ماجور اور زمیندار اور مزارع کے درمیان حقوق کی منصفانہ تقسیم کی ضمانت دے کر بلا لحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل، عوام کی فلاح و بہبود کے حصول کی کوشش کرے گی۔

ب۔ تمام شہریوں کے لئے ملک میں دستیاب وسائل کے اندر، معقول آرام و فرصت کے ساتھ کام اور مناسب روزی کی سہولتیں مہیا کر گی۔

ج۔ پاکستان کی ملازمت میں یا بصورت دیگر ملازم تمام اشخاص کو لازمی بیمہ کے ذریعے یا کسی اور طرح معاشرتی تحفط مہیا کرے گی۔

د۔ ان تمام شہریوں کے لئے جو کمزوری، بیماری یا بیررزگاری کے باعث مستقل یا عارضی طور پر اپنی روزی نہ کما سکتے ہوں، بلا لحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل بنیادی ضروریات زندگی مثلاً خوراک، لباس، رہائش، تعلیم اور طبی امداد مہیا کرے گی۔

ہ۔ پاکستان کی ملازمت کے مختلف درجات میں اشخاص سمیت، افراد کی آمدنی اور کمائی میں عدم مساوات کو کم کرے گی۔

مندرجہ بالا شق پڑھ کر خوشی ہوتی ہے کہ دستور میں یہ الفاظ لکھے گئے ہیں اور دکھ یہ ہوتا ہے کہ اور کتنا وقت لگے گا اس پر عمل کرنے میں۔ یہ وہ ذمہ داریاں ہیں جن کو مملکت نے ادا کرنا تھا۔

اب کوئی غریب جب بھی یہ پڑھے گا تو یہی کہے گا نہ۔ ۔ ۔ رولائے گا کیا پگلے۔

کیا سیاسی جماعتوں خاص کر تین بڑی سیاسی جماعتیں جن کے پاس اقتدار رہا ہے۔ کیا انہوں نے کبھی اپنے سیاسی منشور میں اس ایک آئین کے آرٹیکل پر عملدرامد کو اپنا نصب العین بنایا؟

1973 سے آج تک جو حکومتیں بنیں یا بنائی گئیں اور وہ حکومتیں آئین کی اس شق پر عمل کرنے میں ناکام رہی ہیں کیا انھیں اپنی ناکامی کا اعترف نہیں کرنا چاہیے؟

ووٹ کو عزت دو کا نعرہ تو بہترین ہے پر اس نعرے کی تشریح شاید یہ آرٹیکل ہے۔ اگلے انتخابات پر جب سیاست دان آپ سے ووٹ مانگنے آئیں تو ان سے کم از کم یہ ضرور پوچھیں کہ آئین کے اس آرٹیکل پر آپ نے اور آپ کی جماعت نے کیا عمل کیا؟ اسمبلی میں قانون سازی کرتے ہیں کیا کبھی زیر بحث آرٹیکل کو پڑھا بھی ہے؟ ریاستی دستور کی اہمیت کیا ہوتی ہے؟

کیا غریب صرف ووٹ دے کر لولی لنگڑی جمہوریت چلانے کا ایندھن ہے؟ جس کے ووٹ پر ایک جیسا تیسا سیاست دان ایوان اقتدار میں پہنچ کر وزیر مشیر تو بن جاتا ہے پر آئین کو پڑھنے کی جسارت تک نہیں کرتا۔ کب تک تھانہ کچہری کی سیاست کے نام پر جمہور اور جمہوریت کو رسوا کیا جاتا رہے گا؟

اگر کسی بھی حکومت کی ترجیح میں آرٹیکل 38 پر عملدرامد کرنا ہوتا یا کوشش ہی کی ہوتی تو آج اس وبائی دور میں ملک کی معاشی و معاشرتی صورتحال قدرے بہتر ہوتی۔

بے روزگاری کا اژدھا منہ کھولے غریب کو نگل رہا ہے۔ جس شعبہ سے تعلق رہا ہے اس کی اگر بات کی جائے تو آج میڈیا مالکان جس تیزی سے صحافیوں کو بے روزگار کر رہے ہیں وہ دن دور نہیں جب صحافت پر بھی سیٹھوں اور سیٹھوں کے سیٹھوں کی مکمل اجارہ داری اور کنٹرول ہو گا اور صحافت فقط پیسہ بچانے اور کمانے کی ہٹی رہ جائے گی۔

غریب کی عدلیہ سے بھی معصومانہ گزارش ہے۔ جیسا کہ ماضی قریب اور بعید میں عوامی مسائل پر سوموٹو لے کر قانونی کارروائی کی جاتی رہی ہے وہاں اس اہم موضوع پر بھی سو موٹو لیا جائے اور حکومت سے پوچھا جائے کہ زیر بحث آئین کی شق پر کیوں عملدرامد نہیں ہوا؟

حساس اور احساس دونوں طاقتوں کو اس بنیادی آئینی حق پر عملدرامد کے لئے نظریہ احساسیت کے تحت ضروری اقدامات کرنا ہوں گے ۔ کیونکہ غربت کے خاتمہ میں ہی مملکت کی معاشی و سیاسی بقا ہے۔ اور فلاحی ریاست کا خواب پورا ہو سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).