اس ملک میں سوال کرنا جرم کیوں؟


انسان سازی کے لئے ضروری ہے کہ انسان میں سوال کرنے کی بہترین صلاحیت موجود ہو۔ انسان کی معاشرتی زندگی کا آغاز سوال سے ہی ممکن ہوا۔ انسان سازی کی ارتقاء سوال کے بغیر ناممکن ہے۔ جب تک انسان سوال نہیں اٹھائے گا اس کو جواب مل ہی نہیں سکتا۔

ہزاروں برس پہلے قدیم یونان میں فلسفے کا آغاز سوال ہی سے ہوتا ہے۔ مشہور یونانی فلسفی سقراط کی ساری گفتگو مبنی بر سوال ہوا کرتی تھی۔ سچائی کیا ہے؟ میں کون ہوں؟ میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ انسان اس دنیا میں کب سے ہے؟ کب تک رہے گا؟ اس کائنات کی وسعت کتنی ہے؟ دن اور رات کیوں آتے ہیں؟ سورج مشرق سے نکل کر مغرب میں غروب کیوں ہوتا ہے؟ مادہ کیا ہے؟ روح کیا ہے؟ اچھائی کیا ہے؟ سچائی کیا ہے؟

اس طرح کے بہت سے سوالات تھے جو انسان کے ذہن میں پیدا ہوتے تھے۔ اور انسان ان کا جواب تلاش کرنے کی کوشش میں لگا رہتا تھا۔ سوال کرنے کی آزادی نے اس وقت کے یونان میں تہذیب اور تمدن کی بے مثال شمع روشن کی۔ انسان نے مختلف چیزوں کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ اس طرح انسان ترقی اور خوشحالی کے منازل طے کرتا گیا۔

قدیم فسلفے کی ابتداء ہی سوال سے ہوئی ہے۔ اس کی مثال ایک چھوٹے سے بچے کی طرح ہے۔ وہ ہر چیز کے بارے میں سوال کرتا ہے۔ ہر سوال کا جواب بچے کی ذہنی نشونما میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ سلسلہ ساری زندگی جاری رہتا ہے۔ انسان سازی کے لئے ضروری ہے کہ انسان مسلسل سوالات اٹھا رہے اور ان کے جوابات سے سیکھتا رہے۔

دنیا کی ہر ترقی یافتہ قوم کی سب سے بڑی خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہاں پر سوال کرنے کی پابندی نہیں ہوتی۔ انسان جب تک سوال نہیں اٹھائے گا جواب اس وقت تک نہیں مل سکتا۔ دنیا کا کوئی بھی محقق، فلسفی اور سائنسدان اپنی تحقیق کا آغاز سوال سے ہی کرتا ہے۔ جب وہ سوال کرتا ہے تو اس کا ذہن جواب تلاش کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔

ہمارے ملک کی سب کی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں پر سوال کرنا آپ کا سب سے بڑا جرم بن جاتا ہے۔ آپ کا سوال تمہارے لئے مسائل کے انبار کھڑے کر دیا ہے۔ اس ملک میں نوجوان سے سوال کرنے کی صلاحیت سلب کر لی گئی ہے۔ ہمارے نوجوان کو اپنی ذات، اپنی زندگی اور اپنے معاشرتی مسائل کے بارے میں سوال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ان کی ذہنی نشونما کو زبردستی روک دیا گیا ہے۔ ہمارے نوجوان کا ذہن وہی سوچتا ہے جس کا اس کو حکم دیا جاتا ہے۔

بقول سیدہ عارفہ زہرا ”جو معاشرہ سوال کرنا بھول جاتا ہے وہ جواب کیسے ڈھونڈے گا“ ۔

یہی وہ بنیادی نقطہ ہے جن کی وجہ سے ہمارا نوجوان اس ملک میں کچھ نیا کرنے سے قاصر ہے۔ ہمارے نوجوان کے ذہنی استعداد کو مقید کر دیا کیا ہے۔ اس کو جو نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ اس سے آگے ان کو سوچنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا نوجوان اپنے کمال تک نہیں پہنچ پاتا۔ نوجوان نسل میں کچھ نیا کرنے کی طاقت ختم ہو چکی ہے۔ عروج کا سفر رک گیا ہے۔ آج تک ہم اس ملک میں صرف میکینیکل روبوٹ پیدا کر رہے ہیں۔ ہمارے نوجوان میں لیڈر شپ اور مینیجمنٹ سکیل نہ ہونے کے برابر ہے۔ پورے ملک کا نظام صرف ان چند افراد یا گروہوں کے ہاتھوں یرغمال ہو کر رہ گیا ہے۔ جن کی شان عالیہ پر سوال اٹھانے کی سزا نامعلوم افراد کے ہاتھوں تشدد اور قتل سے کچھ کم نہیں ہے۔

جب تک ہمارے ملک میں دوسرے ترقی یافتہ قوموں کی طرح سوال اٹھانے کی آزادی نہیں ہوگی۔ ہم کبھی بھی دنیا میں ترقی یافتہ اور مذہب قوم نہیں بن سکیں گے۔ اور نہ ہی باقی اقوام میں ہم باعزت مقام حاصل کرسکیں گے۔

جن معاشروں میں سوال کرنے کی آزادی نہیں ہوتی وہ پورا معاشرہ غلام ہوتا ہے اور غلاموں کی دنیا میں کوئی قدر اور عزت نہیں ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).