چین اور سعودی عرب سے موصولہ دو تصویریں


دو روز قبل ہمارے سیاسی وزیر خارجہ چین پہنچے تو ان کا شاہانہ اور والہانہ استقبال کیا گیا۔ ہوائی اڈے پر ان کا استقبال چین میں پاکستان کے سفیر معین الحق اور چین کے وزارت خارجہ کے اعلٰی حکام نے کیا۔ وزیر خارجہ کے لیے ریڈ کارپٹ بچھایا گیا اور انہیں ایک ایٹمی ملک کے وزیر کے طور پر عزت دی گئی۔

ہمارے وزیر خارجہ دو روزہ دورے پر چین پہنچے تھے جہاں انہوں نے چین کے وزیر خارجہ سمیت بہت سے اعلٰی حکام سے ملاقاتیں کیں اور دو طرفہ امور پر گفتگو کی۔ وزیر خارجہ کا یہ پروٹوکول اور پذیرائی دیکھ کر ہمیں کچھ دن پہلے کیا جانے والا اپنے آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ کا دورۂ سعودی عرب یاد آ گیا۔

سچ تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے آرمی چیف کی سعودی عرب میں سبکی کٔے مناظر دیکھ کر دلی رنج ہوا۔ کسی زاویے سے بھی یہ دکھائی نہیں پڑتا تھا کہ یہ ایک ایٹمی ملک کے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی ہیں۔ ایئر پورٹ پہ ان کے لیے سرخ قالین بچھایا گیا نہ سعودی عرب کے اعلٰی حکام میں سے کسی نے ان کا استقبال کیا۔ پاکستانی سفارت خانے کے عملے کے اراکین نے آرمی چیف کو خوش آمدید کہا۔

ولی عہد کے ساتھ ملاقات میں بھی ہمارے آرمی وفد کی جان بوجھ کر بے توقیری کی گئی۔ ملاقات میں سعودی عرب کا پرچم تو موجود تھا مگر پاکستانی جھنڈا نظر نہیں آیا۔ اس کے علاوہ آرمی چیف سمیت ہمارے وفد کے اراکان کی بدن بولی اور چہروں کے تناؤ سے ہویدا تھا کہ برادر اسلامی ملک کے ساتھ ہمارے تعلقات میں بہت بڑی خلیج پیدا ہو چکی ہے۔

آرمی چیف کا دورۂ سعودی عرب عجلت میں طے کیا جانے والا دورہ تھا جو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے کشمیر کے حوالے سے، سفارتی آداب کے بر خلاف اور سخت بیان کے بعد شیڈیول کیا گیا تھا۔ دورے سے قبل علامہ طاہر اشرفی سمیت بہت سے لوگوں کو شاہی خاندان کے پاس بھیجا گیا تھا۔ پاکستانی سفارت خانے نے بھی بہت کاوش کی کہ کسی طرح آرمی چیف وزیر خارجہ کے متنازع بیان کے اثرات کو زائل کر سکیں۔ باوثوق ذرائع کے مطابق وزیر اعظم پاکستان خود سعودی عرب کا دورہ کرنا چاہتے تھے مگر شاہی خاندان انہیں خوش آمدید کہنے کے لیے تیار نہ تھا اس لیے بادل نخواستہ آرمی چیف کو بھیجا گیا۔

افسوس کہ ہمارے آرمی چیف کا دورہ مکمل طور پر ناکام رہا اور سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تععلقات معمول پر نہ آ سکے۔ وزیر خارجہ کے بیان کے علاوہ بھی بہت سے معاملات پر سعودی قیادت کے ساتھ ہمارے اختلافات ہیں جن میں اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے جیسا مسئلہ بھی شامل ہے۔

آرمی چیف کے دورے کو یہیں چھوڑ کر ہم دوبارہ وزیر خارجہ کے دورۂ چین کی طرف واپس آتے ہیں۔ ہمارے خیال میں ایک جمہوری ملک کی خارجہ پالیسی چلانا منجھے ہوئے، تجربہ کار اور جہاندیدہ سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے۔ آرمی چیف کو ان حالات میں سعودیہ کے دورے پر بھیجنا پرلے درجے کی حماقت تھی۔ اول تو وزیر خارجہ کے بیان کے فوراً بعد ایسے کسی دورے کی تک بنتی ہی نہیں تھی اور اگر دورہ ضروری ہی تھا تو وزیراعظم خود جاتے یا اپنے وزیرخارجہ کو بھیجتے۔

ایک طرف چین میں ہمارے وزیر خارجہ کی غیر معمولی پذیرائی ہو رہی ہے اور دوسری طرف سعودی عرب میں ہمارے آرمی چیف کو ان کے شایان شان پروثوکول نہیں ملا۔ جب راقم مذکورہ دونوں دوروں کی تصویریں اور جزیات دیکھتا ہے تو اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ مہذب دنیا غیر جمہوری اور غیر منتخب لوگوں کے مقابلے میں جمہوری اور سیاسی طور پر منتخب لوگوں کی زیادہ قدر کرتی ہے۔ یقین نہ آئے تو نواز شریف کے بیرونی دوروں کا تقابل موجودہ حکمرانوں اور آرمی چیف کے دوروں سے کر کے دیکھ لیں۔ سب کو واضح اور نمایاں فرق دکھائی دے گا۔

آرمی چیف کے دورۂ سعودی عرب اور وزیر خارجہ کے دورۂ چین کے ذریعے ہمیں یہ پیغام دیا گیا ہے ہمیں کلی، جزوی یا علامتی آمریت کے چنگل سے نکل کر مکمل جمہوریت کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).