کراچی کے مسائل کی جڑ: موثر بلدیاتی نظام نہ ہونا


حا ل ہی میں نے ایک ہی سوال کے دو دلچسپ جو ا ب سنے جو کہ شاید ہ دونوں درست ہوں۔ ایک خیا ل یہ ہے کہ نچلی سطح پر بلدیاتی انتخابات کے اندر اپنے امیدوار کھڑے کرنے کے نتیجے میں سیاسی جماعتیں گاؤں تحصیل اور ضلع کی سطح پر مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جائیں گی۔ پلڈاٹ کے احمد بلال محبو ب اس خیال کے حامی ہیں۔ دوسرا نظریہ سماج اور سیاست کے استاد عمیر جاوید کا ہے کہ سیاسی جماعتیں نچلی سطح پر منظم ہوں گی تو بلدیا تی ادارے وجود میں آئیں گے۔

پچھلے کئی برسوں سے تحریک انصاف صرف اپنے آپ کومنظم کرنے کی جدوجہد میں لگی ہو ئی ہے کبھی پارٹی کی سطح پر الیکشن کا نظریہ پیش کیا گیا کبھی نامزدگیوں کے سہارے پارٹی کے اندر تنظیمیں بنانے کی کوشش کی گئی اور کبھی پارٹی کے لیے نئے آئین بنائے گئے۔ میں ذاتی طو ر پر جانتا ہوں کہ متعدد فعال کارکن جن میں سے کچھ بیرون ملک سے بھی آئے تھے، مایوس ہو کر مارے مارے پھرتے رہے اور پا رٹی ان کے لیے اپنے دامن میں کوئی جگہ نہ بنا سکی۔

اسی طرح مسلم لیگ ن کے ایک سینئر رہنما جو ایک وقت میں بائیں بازو کے ایک پرکشش طالب علم رہنما بھی تھے نے مجھے بتایا کہ انہوں نے کم از کم تین سے چار دفعہ پارٹی کی قیا دت کے سامنے پارٹی کی جمہو ری تنظیم سازی کے لئے ایک سے بڑھ کر ایک منصوبہ پیش کیا جن کو ہر بار بہت معمولی غور و خوض کے بعد ان کی قیادت نے ترک کر دیا۔

کراچی کا مقامی مسئلہ ایک قومی اہمیت کا مسئلہ بنا ہوا ہے جس میں وفاق، صوبائی حکومت اور قومی سلامتی کے ادارے مسلسل دلچسپی لے رہے ہیں۔ لیکن مسئلہ کی جڑ ایک طاقتور بلدیاتی نظام کا نہ ہو نا ہے اور ایسا نظام جو کہ 2002 کے الیکشن کے بعد جنرل مشرف نے دیا جس نے آٹھ سال تک مقامی حکو متوں میں بے شمار ترقیاتی کام کیے اور اس کی سب سے بڑی مثال کراچی لاہوراور فیصل آباد جیسی وہ کامیاب شہر ی حکو متیں تھیں جہاں پر عوامی نمائندگی کی بنیاد مقامی سطح کے ترقیاتی مسائل اور لوگوں کی رسائی کے حوالے سے بہت عمدہ کام ہوا۔ صر ف کراچی میں نعمت اللہ خان صاحب نے شہر کا بجٹ 4 ارب روپے سالانہ سے 44 ارب روپے سالانہ تک پہنچا دیا تھا۔ پا کستان میں بلدیاتی نظام پر 2004 میں ورلڈ بینک اور ڈیفیڈ کی رپورٹ آج بھی اس نظام کی عوامی مسائل حل کرنے کی اہلیت کے حساب سے ایک اہم دستاویز ہے۔

تحریک انصاف نے بہرحال 2013 میں خیبر پختونخوا میں اقتدار میں آنے کے بعد بلدیاتی نظام کے فروغ میں ایک نمایاں اقدام کیا۔ اور یونین کو نسل کے بجا ئے حکومتی یونٹ گاؤں کی سطح پر لے گئے جہاں نظام کو بے شمار کامیابیاں ملیں۔ جہاں سرکار نے ہر گاؤں کی سطح پر ایک سیکرٹری بھی عوامی نما یندوں کو دیا تا کہ وہ گا ؤں کے لوگوں کی خد مت کر سکیں۔ مجھے یاد ہے کہ صوابی میں ایک مرتبہ مجھے وہاں کے ڈی سی صاحب نے خود بتایا کہ کیسے انہوں نے اس روز ضلع کے تمام سیکر ٹری صاحبا ن کو بلا رکھا تھا کہ ان کو ہر گاؤں کے منصوبو ں پر عملدرآمد کے با رے میں خود سے ہدایات دے سکیں۔ ایسے روابط ایک فعال بلدیاتی نظام میں ہی ممکن ہیں۔

1985 کے بعد معرض وجود میں آنے والی اسمبلی میں غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب ہو نے والے زمیندار، مقا می تاجر اور صنعت کار اور ایسے طبقات سیاست اور سیاسی جماعتوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے جن کا سیاست میں آنے کا مقصد اپنے گر وہی مفادات کا تحفظ تھا۔ سیاسی جماعتوں کا ان طبقات پر انحصار جیسے جیسے بڑھتا چلا گیا اور جیسے جیسے یہ طبقہ سیاسی جماعتوں کی قیادت میں شامل ہوتا چلا گیا۔ سیاسی عمل کارکنان اور نظریے کے بنیادی عنصر سے خالی ہوتا چلا گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اقتدار سے باہر ہونے کے بعد ہر بڑی سیاسی جماعت ایک کمزور سی سیاسی تحر یک چلا نے کی سکت بھی نہیں رکھتے اور ان کو بار بار محلاتی سازشوں اور اور مقتدر حلقوں کے ساتھ تال میل پیدا کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

بہت بڑی تعداد میں غیر سیاسی افراد کا سیاسی جماعتوں میں جگہ بنانے کی وجہ سے انداز حکمرانی کا جمہوری اقدارسے تعلق جا تا رہا۔ حکومت میں آنے کے بعد اپوزیشن کو برداشت نہ کرنے کا فیصلہ اور اپوزیشن میں ہوتے ہوئے حکومت کے ساتھ مسلسل دشمنی کا سا رویہ اور اس کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے ساتھ عدم دلچسپی پارلیمنٹ کے کے اندر بحث کے معیار میں مسلسل کمی اور سول سوسائٹی، مزدوروں کی یونینز کے ساتھ سیاسی جماعتوں کا تقریباً نہ ہو نے کے برابر رابطے اور عدم اشتراک نے جمہوریت کو مسلسل کمزوری سے دوچار کر دیا۔

بلدیاتی نظام سیاسی جماعتوں کو واپسی کا ایک راستہ فراہم کرتا ہے۔ جسے سیاسی جماعتیں اگر اپنا لیں تو نا صرف ان کے اندر معاشرے سے ایک نیا خون سرایت کرے گا اور ایک نئی قیادت مہیا کرنے کا ایک مستقل ذریعہ بن سکتا ہے۔ دوسری طرف صرف بنیادی اور ضلعی سطح پر سیاسی کارکنان کو حکومت میں کام کرنے کا تجربہ انہیں انداز حکمرانی سے واقف کر پائے گا۔ سیاسی جما عتوں کو تجربہ کار وزرأ ملیں گے اور انسانی اور معاشی ترقی ممکن ہو پائے گی کہ مالیاتی پالیسی کی کامیابی کا بہت زیادہ انحصار مقامی سطح پر وسائل کے بہتر استعمال پر منحصر ہے۔ چائنا کی ترقی کا سارا راز مقامی معاشی تدبیر سے حاصل ہوا۔ اس کا تفصیلی جائزہ کبھی پھر انشا اللہ۔

جاوید احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

جاوید احمد ملک

جاوید احمد ملک سماجی ترقی اور انداز حکمرانی پر ایک کتاب Transforming Villages کے مصنف ہیں

javed-ahmad-malik has 6 posts and counting.See all posts by javed-ahmad-malik