کراچی: ایک شہر تھا عالم میں انتخاب


ساٹھ کی دیہائی میں کراچی پاکستان کا دارلخلافہ ہونے کے علاوہ سارے مشرق وسطی اور مشرق بعید میں بیروت کے بعد ایک بہت ہی خوبصورت اور ماڈرن شہر تھا۔ جدید ہوٹلوں کی کثرت تھی۔ جدید ترین سینما ہاؤسز تھے۔ تمام ملکوں کی ائرلائنز کی پروازیں کراچی میں اترتی تھیں اور ان سب ائرلائنز کے دفاتر بھی کراچی میں موجود تھے۔ ساٹھ کی دیہائی میں تو پاکستان کا واحد پاسپورٹ آفس بھی کراچی میں ہی ہوا کرتا تھا اور انٹرنیشنل ہوائی اڈا بھی یہاں ہی تھا۔

شہر میں نائٹ لائف کے سارے لوازمات موجود تھے۔ پینے پلانے کی آزادی تھی لیکن کہیں کوئی غل غپاڑہ نہیں تھا۔ اس کے علاوہ کراچی کا کردار اس وقت پورے پاکستان کے لوگوں کے لئے ایک ماں کا تھا۔ جس کسی کو کہیں روزگار نہیں ملتا تھا وہ سیدھا کراچی چلا آتا۔ جہاں کہیں نہ کہیں اس کے گاؤں شہر یا علاقے کا کوئی نہ کوئی آدمی رہ رہا ہوتا۔ وہ اسے اپنے پاس رکھتا اور کسی کام پر لگا دیتا۔ کراچی میں بندرگاہ۔ ائرپورٹ۔ ٹیکسٹائل ملیں۔ ریس کورس اور بہت سی جگہیں تھیں جہاں لوگوں کو کام مل جاتا تھا۔ ہمارے گاؤں کے کتنے ہی لوگ کراچی میں رہ رہے تھے۔ ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے دور دراز سے آنے والے زیادہ تر لوگ محنت مزوری ہی کرتے تھے۔ غرض کہ کراچی ایک مہربان اور روشنیوں کی شہر تھا۔

اگست 1973 کا زمانہ تھا۔ میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔ میں نے ابا جان سے اپنی بڑی ہمشیرہ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا جو اس وقت کوئٹہ کے قریب ہرنائی میں رہتی تھیں۔ والد بزرگوار صاحب فراش ہونے کی وجہ سے سفر نہیں کر سکتے تھے اور وہ مجھے اکیلے اتنے دور دراز کے سفر پر بھیجنا نہیں چا ہتے تھے۔ ابا جان کے ساتھ کافی دفعہ میں ٹرین کا سفر کر چکا تھا اس لئے میں نے جب بہت ضد کی تو انہوں نے مجھے اکیلے جانے کی اجازت دے دی۔

کوئٹہ میں نے ریلوے کے ذریعے جانا تھا۔ ہمارے گاؤں سے نزدیک ترین ریلوے سٹیشن جہلم تھا۔ ابا جان نے مجھ سے بڑے میرے ایک خالہ زاد بھائی کو کہا کہ وہ مجھے جہلم ریلوے سٹیشن سے کوئٹہ جانے والی گاڑی پر سوار کرا کر آئیں۔ ہم گاؤں سے صبح پہلی بس سے جہلم کے لئے روانہ ہوئے۔ ان دنوں تک کوئٹہ کے لئے روزانہ ایک ٹرین کوئٹہ ایکسپریس راولپنڈی یا پشاور سے روانہ ہوتی تھی۔ وہ ٹرین دن دس بجے جہلم ریلوے سٹیشن پر رکتی تھی۔ ہم ساڑھے آٹھ بجے جہلم پہنچ گئے۔ ان وقتوں میں ٹرین لیٹ ہونے کا کوئی زیادہ رواج نہیں تھا۔ اگر ہوں بھی تو پندرہ بیس منٹ سے زیادہ لیٹ نہیں ہوتی تھیں۔

قلی کی مہربانی سے سیکنڈ کلاس کے ایک ڈبے میں سیٹ اور برتھ دونوں مل گئیں، اور سفر شروع ہو گیا۔ ٹرین اچھی حالت میں تھی۔ گرمیوں کے دن تھے اس لئے سارے پنکھے چل رہے تھے اور کام بھی بالکل صیح کر رہے تھے۔ ٹائلٹ بھی صیح حالت میں تھے جن میں پانی کا بھی انتظام اچھا تھا۔ میں نے سبی سے ٹرین تبدیل کر کے ہرنائی جانے والی ٹرین پر سوار ہونا تھا۔ ٹائم ٹیبل کے مطابق کوئیٹہ ایکسپریس نے صبح چھ بجے سبی پہنچنا تھا۔ وہاں سے ساڑھے سات بجے اگلی ٹرین کی ہرنائی کے لئے روانگی تھی۔

ہماری ٹرین بروقت سبی پہنچی۔ میں نے اپنا سامان اتارا اور ویٹنگ روم کا رخ کیا۔ مجھ سے پہلے دو انگریز خواتین اورایک مرد وہاں موجود تھے۔ ہرنائی جانے والی ٹرین دوسرے پلیٹ فارم سے روانہ ہونا تھی اور وہ بھی بروقت تھی۔ پندرہ بیس منٹ آرام کر نے کے بعد میں دوسری ٹرین میں سوار ہوا اور سہ پہر کو ہرنائی پہنچ گیا۔

اس وقت پیپلز پارٹی کی نئی نئی حکومت بنی تھی۔ امن امان کی صورت حال کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ایک پندرہ سال کا بچہ اتنا لمبا سفر بغیر کسی خوف وخطر اور تکلیف کے کر لیتا ہے۔ آج ہم اپنے بچوں کو اسلام آباد اکیلے بھیجنے سے ڈرتے ہیں۔ وہاں دو ہفتے قیام کے بعد میرے بہنوئی جو میرے خالہ زاد بھائی بھی تھے، مجھے کراچی کی سیر کرانے لے گئے۔ ہم کراچی جانے والی کراچی ایکسپریس کے ذریعے سبی سے کراچی کے لئے روانہ ہوئے اور اگلے دن صبح گیارہ بجے سٹی ریلوے سٹیشن پہنچے۔

اتنا بڑا ریلوے سٹیشن اور اتنا بڑا لوگوں کا ازدحام میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔ سٹیشن سے باہر آئے تو کراچی میں رہنے والے ہمارے ماموں زاد بھائی ہمیں لینے کے لئے موجود تھے۔ جن کو ہم نے خط لکھ کر آنے کی تاریخ سے آگاہ کر دیا تھا۔ وہ سٹیشن کے نزدیک ہی دہلی مسلم کالونی میں رہائش پذیر تھے۔ ان کے گھر پہنچتے ہی ہم نے نہا دھو کر کھانا کھایا اور سو گئے۔

سہ پہر کو ہی میرے چچا زاد بھائی ہمیں ملنے آئے اور شام کو مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ وہ تب ناظم آباد میں رہتے تھے۔ ایک کمرے کا گھر تھا جس میں تین آدمی رہتے تھے۔ ایک فیکٹری میں سب کام کرتے تھے۔ شام کو انہوں نے صدر میں ایک ہوٹل میں کھانا کھلایا اور بمبینو سینما میں وحید مراد کی فلم بہارو پھول برساؤ دکھائی۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ چلو کلفٹن چلتے ہیں۔ اس وقت تین تلواروں والا چوک نیا نیا بنا تھا۔ ہم رات گیارہ بجے کلفٹن پہنچے۔

اس وقت کراچی واقعی عروس البلاد تھا یعنی روشنیوں کا شہر۔ کلفٹن ساحل سمندر پر لوگ اپنی فیملی کے ساتھ یا دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ منچلے اپنی ٹولیوں میں رنگ جمائے بیٹھے تھے۔ کہیں رندوں نے اپنی علیحدہ محفل جمائی ہوئی تھی۔ ہم دو بجے تک وہاں رہے اور پھر ناظم آباد واپس آ گئے۔ اگلے دن اتوار تھا۔ اسی سال قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کا مزار مکمل ہوا تھا اور سب کے لئے کھولا گیا تھا۔ ہم چودہ اگست کو مزار قائد دیکھنے گئے۔

جدید فن تعمیر کا ایک بہترین نمونہ دیکھ کر ہماری خوشی اس سے بھی دوبالا ہو گئی کہ ہم نے مزار قائد پر حاضری دی ہے۔ ان دنوں مڈل کلاس کے لئے تفریح کا واحد ذریعہ سینما میں فلم دیکھنا تھی۔ پورے کا پورا خاندان اکٹھے فلم دیکھنے جاتا تھا۔ ہمارے میزبان بھائی نے بھی اگلے دن سنیما میں فلم کا پروگرام بنایا اور ہم نے شام کو صدر کے ہی کسی سنیما میں اسی ہفتہ ریلیز ہونے والی فلم نیا راستہ دیکھی۔

والد صاحب کے دوست اور ہمارے گاؤں کے ایک صاحب ریس کورس میں ایک اچھے عہدے پر کام کر رہے تھے۔ ان دنوں وہاں باقاعدہ گھوڑوں کی ریس ہوا کرتی تھی۔ ہم دو دن ان کے گھر رہے۔ اس دوران انہوں نے ہمیں ریس کورس دکھایا اور کراچی صدر کی بھی سیر کرائی۔ صدر ہی ان دنوں سب سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ ان دنوں زیب النسا سٹریٹ کا نام الفنسٹن سٹریٹ ہوتا تھا۔ جسے ایلفی کہتے تھے، ایک صاف ستھری کھلی سڑک۔ اعلی دکانوں سے مزین، یہاں کی سیر بھی ایک رومانس ہوتا تھا۔

اب تو تجاوزات نے اس سٹریٹ کا سارا حسن تباہ کر دیا ہے۔ ۔ حبیب بنک پلازہ کی بلڈنگ اس وقت جنوبی ایشیاء کی سب سے بڑی بلڈنگ تھی۔ کراچی بندرگاہ بھی بہت مصروف تھی۔ لوگوں کو ابھی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا بخار نہیں چڑھا تھا۔ اخلاقی قدریں ابھی زندہ تھیں۔ میں اکیلا دہلی کالونی سے بس پر صدر آ جاتا تھا۔ ایمپریس مارکیٹ صدر کا اپنا ایک حسن ہوا کرتا تھا۔ زمزمہ۔ بہادرآباد اور طارق روڈ ابھی بنی نہیں تھیں یا ابھی اتنی مشہور نہیں تھیں۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ میں بھی ہمارے گاؤں کے کچھ افراد کام کرتے تھے وہ ایک دن مجھے وہاں لے لئے اور میں نے سارا دن وہاں گزارا۔

ہم نے ایک ہفتہ کراچی کی خوب سیر کی۔ ناظم آباد۔ فیڈرل بی ایریا۔ مہاجر کیمپ۔ بندر روڈ۔ آئی آئی چندریگر روڈ سب ہم نے دیکھ لیا۔ ڈیفنس ابھی بن رہا تھا۔ ایک ہفتہ بعد ہم نے واپسی کا رخت سفر باندھا اور ایک دوپہر عوام ایکسپریس سے ہم جہلم کے لئے روانہ ہو گئے۔ اس کے بائیس سال بعد اپنی ملازمت کے کسی کام سے ہوائی جہاز کے ذریعے کراچی پہنچا تو ائرپورٹ سے باہر نہیں جانے دیا گیا کہ سارا شہر بند تھا اور باہر جانے کی صورت میں جان کا خطرہ تھا ہم اسی دن دوسری فلائٹ سے واپس آ گئے۔ پتہ نہیں اس روشنیوں کے شہر کو کس کی نظر لگ گئی تھی کہ برسوں عروس البلاد کہلانے والا یہ شہر برسوں تک اندھیروں میں ڈوبا رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).