سیاست کا انتہائی گنجلک کھیل اور عمران خان


جب سے کپتان وزیراعظم بنے ہیں اقتدار کے ایوانوں سے سیاست میں کرکٹ کی اصطلاحات کا استعمال عام ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت کے دوسال مکمل ہونے پر وزیراعظم اور وفاقی وزرا نے یہ نوید سنائی ہے کہ بحران ختم ہوگیا، اب ہم لمبی اننگز کھلیں گے، ان کے مطابق چند شعبوں کو چھوڑ کر ہر میدان میں ریکارڈ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ ایک نجی چینل کے معروف اینکر کے ساتھ قریباً ڈھائی گھنٹے طویل خصوصی انٹرویو میں وزیراعظم نے گورننس، خا رجہ پالیسی، سیاسیاست، اکانومی اور اپوزیشن سے تعلقات کار سے لے کر ہر موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔

 اقتدار کے مزے لوٹنے والے سیاستدانوں کوہر طرف ہرا ہی ہر انظر آتا ہے۔ لہٰذا خان صا حب کے بلند بانگ دعوؤں اور کابینہ کی تالیوں کی گونج میں مبارک سلامت کے ڈونگرے ناقابل فہم نہیں ہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن کا شدید ردعمل سامنے آیا ہے کہ حکومت نے دوسال میں کچھ نہیں کیا اور خارجہ محاذ پر کشمیر سے لے کر سعودی عرب کے ساتھ تعلقات تک ناکامیاں ملیں۔ شاید حقیقت حکومت کے بلندبانگ دعوؤں اور اپوزیشن کی کڑی تنقید کہ تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوا کے کہیں درمیان میں ہے۔

 اس بات کو بھی سراہنا چاہیے کہ وزیراعظم نے چند غلطیاں کرنے کا اعتراف کیا ہے لیکن ساتھ ہی ریکارڈ کامیابیوں کا دعویٰ بھی کردیا۔ یقینا کوویڈ 19 کی موذی وبا پر قابو پا لینا کسی حد تک قابل ستائش ہے۔ تاہم یہاں بھی جیسا کہ حکومت کے عمائدین خود تسلیم کرتے ہیں کہ چین کی طرح ہم کورونا وائرس کو جڑ سے اکھاڑنے میں ابھی کامیاب نہیں ہوئے لیکن اگر احتیاط کے دامن کو ہاتھ سے نہ چھوڑا تو ان شااللہ اس وبا کا خاتمہ ہو جائے گا۔

 اس کامیابی کا کریڈٹ بھی حکومت لے سکتی ہے اگرچہ منفی انداز میں سہی، کہ ملک کے اقتصادی طور پر دیوالیہ ہونے کے باوجود اکانومی کا بھٹہ نہیں بیٹھا۔ تحریک انصاف نے اپنے دوسالہ دور اقتدار میں ریکارڈ قرضے لئے، شرح نمو جو پچھلے دورحکومت میں 5.8 فیصد تھی اب نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے لیکن اس کے باوجود حکومت بجا طور پر یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ بجٹ کے کرنٹ خسارے میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے اور ترسیلات زر میں گزشتہ ماہ ریکارڈ اضافہ ہواہے۔

سٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر نے مجھے بتایا کہ اس کے باوجود کہ شرح سود پہلے کے مقابلے میں نصف ہونے پر جس کے نتیجے میں ہاٹ منی جتنی تیزی سے آئی تھی اسی تیزی سے نکل گئی لیکن ادائیگیوں کا توازن برقرار رہا اور حکومت نے اپنے قرضے بھی اتارے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت کے یہ دعوے کہ گزشتہ حکومت پاکستان کو دیوالیہ کر گئی، تحریک انصاف کی حکومت نے مجموعی طور پر 2 برسوں کے دوران 29 ارب 20 کروڑ ڈالر کا ریکارڈ قرضہ لیا ہے۔

آئی ایم ایف نے پیکیج کے لئے وعدے وعید بالخصوص پاور سیکٹر میں پورے نہ کرنے پر اگلی قسط منجمد کر رکھی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مہنگائی کے سیلاب میں قریباً ڈوبے ہوئے عوام حکمرانوں کو کوس رہے ہیں۔ خان صاحب کے بقول ان سے غلطیاں ہوئیں لیکن انہوں نے ان کا تفصیلی ذکر نہیں کیا۔ سب سے بڑی غلطی تو ملک کے اندر کسی بھی معاملے پر اتفاق رائے ہونے کا فقدان ہے، حکومت کی ہٹ دھرمی اور منتقمانہ رویے کی بنا پر اپوزیشن کو دیوار سے لگا دیا گیا، کسی معاملے پر اتحاد کی فضا نظر نہیں آتی۔

 مقام شکر ہے کہ ان معاملات پر جن میں کشمیر اور بھارت کے بارے میں پالیسیوں کا تعلق ہے حکومت اور اپوزیشن ایک صفحے پر نظر آتی ہیں۔ حال ہی میں ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے قانون سازی پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں ان کا کوئی کمال نہیں تھا بلکہ یہ مقتدر اداروں کی مہربانی تھی اور اپوزیشن کی سوچ کہ اگر اس کلیدی قانون سازی کی مخالفت کی گئی تو پاکستان بلیک لسٹ میں جا سکتا ہے، اس لئے قانون سازی کرنے پر اتفاق رائے ہو گیا۔

 اپوزیشن نے نیم دلانہ انداز میں ایف اے ٹی ایف قانون سازی کے ساتھ نیب قانون میں ترمیم کو نتھی کرنے کی کوشش کی لیکن حکومت نے صاف انکار کردیا کیونکہ اسے خوب معلوم تھا کہ ایف اے ٹی ایف قانون سازی پر اپوزیشن کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ اس میں بھی اپوزیشن کا طرز عمل خاصا غیر لچکدار تھا، بہتر تو یہ تھا کہ حکومت او ر اپوزیشن کے درمیان کم از کم پہلے مرحلے میں نیب آرڈیننس کا زہر نکالنے کی کوشش کی جاتی لیکن جیسا کہ خان صا حب تواتر سے کہتے رہتے ہیں کہ اپوزیشن کو کھلی چھٹی نہیں دے سکتے یہ ساراعمل رائیگاں چلا گیا۔

 نگل کو گورنر ہاؤس لاہورمیں چند ساتھیوں کے ہمراہ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سے ملاقات ہوئی جہا ں وہ یہ اعتراف کر رہے تھے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتنی شدید محاذ آرائی ہے کہ ایوان کو چلانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے وہیں انہوں نے انکشاف بھی کیا کہ وہ نیب قانون میں ترمیم کے لیے اپوزیشن اور حکومت کے درمیان محدود پیمانے پر ہی سہی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کاوشیں کر رہے ہیں۔

اس حکومت کی بہت بڑی ناکامی اپوزیشن کے علاوہ میڈیا کو دیوار سے لگانا ہے۔  بظاہر تو میڈیا آزاد نظر آتا ہے لیکن درحقیقت اس پر اتنی قدغنیں ہیں جو شاید آمر جنرل پرویزمشرف کے دور میں بھی نہیں تھیں۔ سچ بولنا اور لکھنا خاصا مشکل ہوگیا ہے، افسوسناک بات یہ ہے کہ میڈیا اور صحافتی تنظیمیں سجدہ سہو کرتی نظر آتی ہیں۔ کرکٹ کی مثالیں خان صاحب پر پوری طرح منطبق نہیں ہوتیں۔ مثلاً وزیر منصوبہ بندی اسد عمر جو ایک ناکام وزیر خزانہ ثابت ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی کے برسراقتدار آنے کے چند ماہ بعد ہی فارغ کر دیے گئے تھے اب فرماتے ہیں کہ خان صاحب کریز پر جم گئے ہیں۔

جیسا کہ حامد میر نے 92 نیوز پر میرے پروگرام ’ہو کیا رہا ہے‘ میں درست طور پر نشاندہی کی کہ خان صاحب اچھے فاسٹ باؤلر اور کسی حد تک اچھے کپتان بھی تھے لیکن آل راؤنڈر ہونے کے باوجود انہیں بیٹسمین نہیں کہا جا سکتا۔ کرکٹ میں آؤٹ ہونے والے کھلاڑیوں بالخصوص پاکستانی ٹیم کی لائن لگ جانا اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ سیاسیات کرکٹ کے مقابلے میں ایک انتہائی گنجلک کھیل ہے۔ کرکٹ میں اگر کوئی بیٹسمین مسلسل پرفارم نہ کر پائے تو وہ ریٹائر ہو کر قصہ پارینہ بن جاتا ہے لیکن سیاست میں اگر اس کا ستارہ عروج پر رہے اور اتفاق سے وزیراعظم بھی ہو تو آؤٹ ہونے کے بعد اسے تختہ دار پر بھی لٹکایا جا سکتا ہے، طویل عرصے کے لئے قید اور صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑسکتی ہیں اور جلاوطنی کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

لہٰذا سیاست کے میدان میں پاکستان جیسے ملک میں ہارنے والے لیڈر کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے اور جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں اور پھر وطن عزیز میں سیاست کے اندر شاذ ہی ایسا ہوتا ہے کہ امپائر نیوٹرل ہو۔ خان صاحب کو یہ سوچنا چاہیے کہ آج وہ اپوزیشن کے ساتھ جو سلوک روا رکھ رہے ہیں، خدانخواستہ کل یہی سلوک ان کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).