مولانا حمداللہ کس کی شلوار اتارتے ہیں؟


محترم ابوالحسن رازی صاحب نے 13 جون 2016 کے ٹیلی ویژن پروگرام میں سینٹر حافظ حمداللہ  اور محترمہ فریحہ ادریس میں ہونے والی تلخ کلامی کے حوالے سے سینٹر حمداللہ کی صفائی پیش کی ہے۔ آزادی اظہار کے اصول کے مطابق یہ تحریر کم سے کم تبدیلیوں یعنی صرف ٹائپنگ اغلاط کی درستی کے بعد پیش کی جا رہی ہے کیوں کہ اردو املاء میں لکھے گئے بہت سے انگریزی الفاظ ہیں جن کو غیررسمی طور پر استعمال کیا گیا ہے اور لسانی تھیوری کی کچھ اصطلاحات بھی برتی گئی ہیں جن کا اطلاق و استعمال مصنف کی صوابدید پر ہے۔ ادارہ ہم سب کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق  ہونا ضروری نہیں۔ بایں ہمہ ہم سب ابوالحسن رازی صاحب کے اس جملے سے اتفاق کرتے ہیں کہ  \”یہ الفاظ ۔۔۔۔ اپنے اندر بہت وزن رکھتے ہیں اور موضوع سے گہری مناسبت بھی کیوں کہ عقل مندوں کے لئے صرف اشارہ ہی کافی ہے\”۔

\"abul-hasan-razi\"واضح کیے دیتے ہیں ،کوئی مانے یا نہ مانے ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہم نہ مُلّاں ہیں نہ مسٹر ، نہ دیوبندی ہیں نہ بریلوی ، نہ اہل حدیث ہیں نہ شیعہ ، نہ ہی کسی سیاسی یا مذہبی گروہ سے کوئی وابستگی کی زرہ پہنے ہوئے ہیں، پرسنل اٹیکس کرتے ہیں نہ مخالفت بلکہ ہم تو اختلاف رائے کی جسارت کرتے ہیں کسی کو ہضم نہ ہو تو وہ کسی گیسٹرولوجسٹ سے اپنے معدے کا علاج کرائے ۔ ہم صحافت پر یقین رکھتے ہیں جس کا مکالمے سے رشتہ ہے مناظرے سے نہیں ۔ حضور! لکھنے بولنے والوں سے ان کی تحریر و تقریرکے بارے میں پرسش ہوگی کیوں کہ وہ ویووز کو ری شیپ کرنے کے ذمہ دار ہیں اس لئے ہمیں سبس ٹانشل ایوی ڈینسز پر بہت کم یقین رکھنا چاہیئے ، کسی کے بارے میں رائے قائم کرنا ہمارے لئے بہت مشکل کام ہو، پہلے اس سے دریافت تو کر لیا جائے یا کم از جانچ پھٹک تو کر لی جائے ۔ کسی کے بارے میں لاگ لپیٹ، کسی کے بارے میں کتر بیونت اور کسی کے بارے میں  تُکّا فضیحت کرکے اپنا کیس مضبوط کرنا ہمارے کریڈینشلز کی بنیادیں ہیں۔ اپنے بیانیے کی اشاعت کیجیے (لیکن ایک صحافی کو یہ زیب نہیں) عالی جاہ! مگر حقائق مت چھپائیے کیوں کہ؛

 “The earth is round” is true if and only if the earth is round.

 مولانا صاحب کے ساتھ وہ ہوا ہے جو \”لکھے مُو سا پڑھ خود آ \” کے ساتھ ہوا ۔ مُو کا معنیٰ بال ہے مطلب بال جیسا باریک لکھا ہے توجناب خود آکر اسے پڑھ لیجیے، ہمارا یہ حال ہے کہ اس جملے کا حشر یہ کیا کہ اسے( نعوذ باللہ ) \” لکھے مُوسیٰ پڑھے خدا\”بنا دیا ۔ ہر معاشرے میں ضرب المثل ،تشبیہات اور محاورے استعمال ہوتے ہیں لیکن ان کا لفظی مطلب کوئی معنیٰ نہیں رکھتا اور نہ کوئی حقیقت ۔مثلاً جھوٹ کا سفید ہونا .. کیا جھوٹ کا رنگ سفید ہوتا ہے؟گنجی نہائے گی کیا؟ نچوڑے گی کیا ؟ .. کیا گنجی کا نہانا نچوڑنا کسی کے مشاہدے میں آیا ہے؟..دل کا خون کے آنسو رونا .. کیا دل سے کسی نے خون کے آنسو ٹپکتے دیکھیں ہیں؟ ٹانگ اڑانا یا انگلش میں Don’t poke your nose in my personal matters. کیا واقعی ٹانگ اڑ اکر پھسا لی جاتی ہے اور پھر اسے نکالنے کی کوئی ترکیب کی جاتی ہے؟ کیا واقعی ناک کسی کے ذاتی معاملے میں گھسیڑی جا سکتی ہے؟ نہیں ہرگز نہیں ،اگر ایسا ہوتا تو جناب کتنوں کی ٹانگیں کٹی ہوتیں اور نہ جانے کتنے نک کٹے ہوتے۔ راہوں میں پلکیں بچھانا .. سبحان اللہ کیا ایسا بظاہر ممکنات میں سے ہے؟ جس کی لاٹھی اس کی بھینس – لاٹھی خرید کر بھینس کا چنگے میں مل جانے کا حقیقت سے کوئی رشتہ نہیں۔ اسی طرح دودھ کا دودھ پانی کا پانی ، نو نقد نہ تیرہ ادھار ،یہ سب ہمارے ایکسپریشنز ہیں اور معمول کی بول چال کا حصہ ۔ اگلی بات یہ ہے کہ

A food for one nation is a poison for another.

میرا ایک دفعہ ملتان کے دیہی علاقے میں جانا ہوا میں نے دیکھا کہ ایک شخص نے اپنے پنجے (ہتھیلی) کا رخ ( ذرا کلائی گھماتے ہوئے ) ایک صاحب کی جانب کرنا تھا کہ (اس کے ایکسپریشن سے لگا) گویا جیسے اس کو بہت بڑی گالی دی گئی ہو ۔ اگر آپ ایسا لاہور کےکسی دیہات میں کریں تو کوئی برا نہیں منائے گا۔ عین اسی طرح مولانا نے پشتو کے ایک محاورے کو اس محفل میں بول دیا جہاں پختون کوئی نہیں تھا ۔عام طور پر یہ اس طرح سے بھی بولا جاتا ہے \” فلانکے خو دومره کوز سترگے کو چی سم پرتوگ یی تینا اوباسو \” یعنی کہ فلاں کو اپنی نظروں میں اتنا گرا دیا کہ اس کی شلوار اتار دی ہو یا بعض دفعہ \”سم پہ سر غاڑہ یی تے اوباسو\” یعنی شلوار سر کی طرف سے اتار دی۔ اب موقع کی مناسبت سے عین درست محاورہ ایک تنازعہ بن گیا۔ میں نے بذات خود کئی دفعہ اس پروگرام کی ویڈیو دیکھی ہے اس میں جس طرح محترمہ فریحہ ادریس اپنی گفت گو کا آغاز کرتی ہیں اس پر مولانا شکوہ کرنے میں حق بجانب ہیں۔ اس گفت گو کے اہم حصے کا خاکہ یہ

مولانا : بات کرنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے..یہ آپ کا طریقہ ٹھیک نہیں ..پہلے ابتدا سے جو آپ نے بات شروع کی آپ نے تذلیل کی اور آپ کی تذلیل کرنا بھی آسان ہے ہمارے لئے ۔

فریحہ: سر میں نے آپ سے سوال پوچھا ہے ۔

مولانا :ایسا نہیں ہے کہ لوگوں کی تو آپ پگڑیاں اچھالیں کیوں کہ آپ خاتون ہیں .. خاتون کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ آپ لوگوں سے شلوار نکالیں.. لوگوں کی پگڑیاں اچھالیں ۔

فریحہ: سر میں نے آپ سے سوال پوچھا ہے۔

مولانا : نہیں ..آپ نے سوال نہیں پوچھا ہے آپ نے تذلیل کی ہے۔

فریحہ:آپ غلط لفظ استعمال کر رہے ہیں .. اب آپ کو معذرت کرنی پڑے گی جو لفظ آپ نے استعمال کیا ہے ۔

مولانا :آپ نے تذلیل کی ہے ۔

فریحہ :آپ نے کی ہے ..آپ نے ابھی جو لفظ استعمال کیا ہے

مولانا : کیا استعمال کیا ہے؟

فریحہ: Don’t talk like that نیشنل ٹی وی پہ جارہا ہے سب کچھ ۔

مولانا : کیا استعمال کیا ہے؟ کیا استعمال کیا ہے ؟ میں نے اپنے بارے میں استعمال کیا ہے۔

فریحہ: میرے بارے میں میرے سامنے ایسی زبان استعمال کی ہے۔

مولانا بھول گئے ہیں کہ مفتی محمود تو کنائے میں حریف کو پچھاڑ دیا کرتے تھے۔ مانا کہ آپ کایہاں آنا اپنے بیانیہ کی سالمیت کے لئے ہے ورنہ یہ مجالس آپ کا ذوق تو نہیں لیکن اگر آپ ایک کاز کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں تو اپنے مشن پر نظر رکھیے چھوڑئیے کہنے والے کیا کہتے ہیں ، دل بڑا رکھیے ،ان انگلیوں سے صرف ِ نظر کیجئے ، گدھے نے آپ کو دولَتّی ماری ہے تو مولانا کیا آپ بھی اسے لات مارو گے ؟ مولانا مودودی کا یہ کہنا کہ میں لوگوں میں الجھوں یا اپنی منزل کی طرف بڑھوں اور خود مولانا فضل الرحمان اینکر پرسن سے کہتے ہیں ہمارے پاس اتنا ٹائم نہیں ہے کہ ہم سطحی نوعیت کے بے بنیاد الزامات میں الجھ کر رہ جائیں ابھی بہت کام کرنا باقی ہیں ۔ یہ ہوتی ہیں صاحب عزیمت اور مرد مومن کی باتیں، آپ نے لوہے کو سونے کے برابر تلنے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔

کیا وجہ تھی کہ مولانا ایسا بول گئے ؟

   ایک پیور اردو سپیکر یہ محاورہ ہرگز استعمال نہ کرتا کیوں کہ اردو زبان میں اس کا استعمال ہی نہیں چوں کہ مولانا پختون ہیں اور یہ ایک خالصتاً پشتو محاورہ ہے اور ان کی زبان میں اس موقع پر صادق آتا ہے لہٰذا انہوں نے بول دیا ہے تو معاملہ کلیئر ہے ۔ لیکن محترمہ فریحہ نے پہلے مولانا کو باور کرایا کہ وہ غلط لفظ استعمال کر رہے ہیں اور پھر یہ کہ ان کو معذرت کرنی پڑے گی ، یہاں تک تو کسی حد تک ٹھیک لگتا ہے کیوں کہ بظاہر\” شلوار نکالنا \” جیسے الفاظ کا استعمال مذکورہ مجلس کے آداب کے بالکل خلاف ہے اور پھر خواتین سے نششت میں تو کوئی گنجائش باقی نہیں اور ایک عالم دین کی زبان سے تو قطعاً بھی نہیں۔ مولانا صاحب فریحہ ادریس سے تذلیل کا شکوہ کرتے ہیں ،پگڑی اچھالنے کی بات کرتے ہیں اور مذکورہ بالا گفت گو میں تذلیل کا لفظ بار با ر بولا جا رہا ہے ،آپ نے تذلیل کی ، آپ نے سوال نہیں پوچھا آپ نے تذلیل کی ہے، ایسا نہیں ہے کہ لوگوں کی تو آپ پگڑیاں اچھالیں کیوں کہ آپ خاتون ہیں .. خاتون کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ آپ لوگوں سے شلوار نکالیں.. لوگوں کی پگڑیاں اچھالیں ۔مولانا نے شلوار نکالنے کی بات یقیناً کی ہے،آپ کا فرمان سر آنکھوں پہ ، لیکن آپ یہ بھول گئے ہیں کہ مولانا قبائلی پختون ہیں وہ ایک پختون محاورے کو موقع محل کے تناظرمیں بول گئے ہیں اور بالکل ٹھیک ٹھیک بول گئے ہیں۔ \”آپ لوگوں سے شلوار نکالیں\” مولانا نے محترمہ سے مخاطب ہو کر لوگوں سے شلوار نکالیں کہا ہے .. یہ بھی نہیں کہا کہ \”لوگوں کی شلوار نکالیں \” غور کیجیے !سے شلوار نکالنا جو( اس متنازعہ جملے پر) محاورہ ہونے کی دلالت کرتاہے اور اس میں شک کی گنجائش بھی نہیں رہتی کیوں کہ حقیقت میں یہ ایک محاورہ ہے جس کا معنی و مفہوم کسی کی تذلیل کرنا ہے۔ \”لوگوں کی پگڑی اچھالنا \” اور \”لوگوں سےشلوار نکالنا\” دونوں ایسے ہی ہیں جیسے دل کا خون کے آنسو رونا ، جیسے (پنجابی میں) متھے تے انکھاں رکھ لینا وغیرہ وغیرہ۔ بقول ارسطو :

“To say of what is that it is not, or of what is not that it is, is false; while to say of what is that it is, and of what is not that it is not, is true.”

لہٰذا کوریس پانڈینس تھیوری کے تحت یہ سچ ہے کہ ہے \” فلانکے خو دومره کوز سترگے کو چی سم پرتوگ یی تینا اوباسو \” – \”لوگوں سے شلوار نکالنا \” ایک محاورہ ہے کیوں کہ یہ حقیقت میں ایک محاورہ ہے ۔ ایسے ہی جیسے سچ ہے کہ دودھ سفید ہے کیوں کہ دودھ حقیقت میں سفید ہے ۔ اور مولانا جس سیاق و سباق میں اور جس تناظر میں بات کر رہے ہیں یقیناً اس سے یہ محاورہ متصل و مربوط ہے لہٰذا کوہیرینس تھیوری کےتحت \”لوگوں سےشلوا رنکالنا\”یقیناً ایک محاورہ ہےاور اس کا مو قع محل کی مناسبت سے ایک قبائلی پختون کی زبان سے بولا جانا متصل و مربوط بھی ثابت ہو چکا ۔ اورپریگمیٹ تھیوری کے تحت تذلل و تبرا پر شکوہ و شکایت کے موقع محل پر \”لوگوں کی پگڑی اچھالنا \” یا \” لوگوں سے شلوار نکالنا \” ایک ایسا محاورہ ہے جو یقیناً ورک کرتا ہے ۔ لہٰذا تذلل کا یہ موقع محل مولانا سے ان جملوں کی ادائیگی کا متقاضی بھی ہے۔ ویڈیو آن دی ریکارڈ (یوٹیوب پر ) موجود بھی ہے یعنی مذکورہ بالا گفت گو یقین کی حد تک قابل تصدیق بھی ہے۔ جی یہاں تک ،یعنی یہ اعتراض کہ مولانا نے غلط لفظ استعمال کئے ہیں، کا قضیہ تو حل ہو چکا۔

 لیکن عالی جاہ! محترمہ مصر ہیں کہ مولانا نے تذلیل کی ہے پھر مولانا کو یہ بھی باور کرا رہی ہیں کہ جناب Don’t talk like that. نیشنل ٹی وی پہ جا رہا ہے سب کچھ گویا وہ ایک بہت بڑے فسق و فجور کے مرتکب ہو چکے ہیں ۔ چلو اوپرکی گئی بحث کے بعد بھی اگر کسی نہ کسی درجے میں فریحہ اور بعد میں کی یا لکھی گئی باتیں درست ہو سکتی ہے تو ہمیں کچھ زیادہ اعتراض بھی نہ ہو گا ۔ لیکن فریحہ صاحبہ کا یہ استفسار، کہ مولانہ نے ان کی تذلیل کی ہے اور ان کے سامنے ان کے بارے میں یہ زبان استعمال کی ہے،ایک سفید جھوٹ ہے(یہ بھی ایک محاورہ ہے )، جی ہاں ! جوقابل احترام فریحہ کے اس بیان پر مذکورہ بالا تمام حقائق کی روشنی میں مکمل صادق آتاہے۔ وثوق سے کہتا ہوکہ آن ریکارڈ ہے کہ مولانا نے ان سے تو یہ نہیں کہا بلکہ مولانا صراحتاً کہتے ہیں کہ یہ (جملہ) تو انہوں نے اپنے بارے میں استعمال کیا ہے ۔ لہٰذا ہم اس کو دجل سے تعبیر کرتے ہیں اور اگریہ کوئی سوچی سمجھی چال بھی ہو تو کچھ بعید نہیں ۔ اور آفٹر شوکس میں میڈیا انفارمیشن کے دنگل سجا کرعوام کوآپ کیا تاثر دینا چاہتے ہیں ؟ سٹڈی کیسز کے طور پر

\”اس کے لب و لہجہ اور ایک خاتون کے ساتھ فحش کلامی کے بعد اگر کچھ لوگ یہ کہیں کہ اس سے ان مدرسوں کے ماحول اور تربیت کا پتہ چلتا ہے جہاں یہ ملا تعلیم پاتے ہیں تو اس رائے کو کیسے مسترد کیا جائے گا۔ یہ لوگ قرآن اور سنت کا نام لے کر جس رویہ کا مظاہرہ کرتے ہیں ، وہ ان کی گھٹیا ذہنیت، کج فہمی، کم تر سماجی شعور اور بداخلاقی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ یہ سب لوگ اسلام جیسے دین کے نام پر کلنک بنے ہوئے ہیں۔لیکن کسی گندے جوہڑ کے مینڈک کی طرح محدود سمجھ اور شعور کے حامل یہ کم علم اور بے شعور لوگ مسلسل اپنی تخریب کاری میں مصروف ہیں \”

\”بدقسمتی سے مذہب کے علمبرداروں اور بالخصوص اسلامی نظریاتی کونسل والوں نے قسم کھارکھی ہے کہ وہ عورتوں کے خلاف قانون سازی کی تجاویز دینے کے علاوہ کوئی دوسرا ڈھنگ کا کام نہیں کریں گے۔ چنانچہ مولانا شیرانی کی سربراہی میں قائم اسلامی نظریاتی کونسل ایک مذاق بن چکی ہے\”

 یہ ہے بات کا بتنگڑ بنانا کہ دِلّی کا کلکتہ بنا دیا اسی انفارمیشن وار اور سائیواوکس تھراپی ہی کے اثرات ہیں کہ معاشرہ میں بہت سے افراد منتشر اور غیر متوازن افکار کا شکار ہیں ۔ کسی کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا اب بہت آسان ہے ۔ بلا تحقیق نتائج اخذ کرنا ، دجل سے حقائق کو مسخ کر کے پیش کرنا ، مدلل عالمانہ و فاضلانہ بحث کی بجائے الزام تراشیاں کرنا اور من پسند ٹھپے لگانا معمول بن چکا ہے ۔ اندازے پر تیر چلانا چھوڑیے جناب بلکہ آئیے! صحت مندانہ گفت گو کیجیے ۔ یہ الفاظ جو میں کہنے جا رہا ہوں اپنے اندر بہت وزن رکھتے ہیں اور موضوع سے گہری مناسبت بھی کیوں کہ عقل مندوں کے لئے صرف اشارہ ہی کافی ہے ۔ حضور! اپنا اصلی نظریہ چھپا کر کن راستوں سے ؟ اور کہاں جانا چاہتے ہو؟ کس نقاب سے کون سا چہرہ چھپانا چاہتے ہو ؟ کسی جاگتی آنکھ سے اوجھل نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments