عبیداللہ سندھی کا آزادی ہند کا چارٹر



اس واسطے گلچیں کو ہوئی مجھ سے عداوت
تزئین گلستاں میں مرا ہاتھ بہت ہے

انیس سو چوبیس آتے تک اگر چہ تقسیم بنگال کے خلاف تحریک، غدر اور باغی تحریکوں، تحریک ریشمی رومال، خلافت ہجرت، ترک موالات، مسلم لیگ اور کانگریس کے سیاسی اتحاد نے ہندوستان میں سلطنت برطانیہ کی گرفت کو زک پہنچایا تھا لیکن ابھی غیر ملکی سامراج سے آزادی کی منزل نہ صرف دور تھی بلکہ اس آزادی کی عملی صورت اور اس خد و خال بھی عوام تو کیا ملکی قیادت کے ذہن سے بھی بھی کوسوں دور تھے۔

نہرو کی آزادی کامل کی قرار داد، علامہ اقبال کا خطبہ الہ آباد اور اس قبیل کی تمام تجاویز سے کئی سال پہلے، لیلائے وطن کی آزادی کی خاطر جلاوطن ہو کر افغانستان اور روس سے ہوتے ہوئے مصطفی کمال کے کے ترکی میں قیام پذیر عبیداللہ سندھی نے غیر معمولی ذہنی اپج اور گوناں گوں سیاسی تجربات جن میں کامیابیوں سے زیادہ ناکامیاں اٹھانی پڑیں تھی، سے کشید کردہ بصیرت کی مدد سے برطانوی ہند کی آزادی کے لیے ایک منشور (چارٹر ) جاری کیا تھا جسے سرو راجیہ منشور کا نام دیا تھا۔

عبیداللہ سندھی 1939 میں چوبیس سال کی جلاوطنی کے بعد ہندوستان واپسی پر کراچی کے ساحل پر اترتے ہوئے

بظاہر یہ ایک سیاسی جماعت کا منشور تھا مگر اس میں برطانوی ہند کی آزادی کے لائحہ عمل کے ساتھ خطے کے ارضی، معروضی حقائق، تاریخ، قومی، لسانی اور مذہبی تنوع، صنعتی انقلاب سے پیدا ہونے والی سیاست کی روشنی میں مذہبی بنیادوں پر تقسیم اور اکھنڈ بھارت، دونوں کے برخلاف ہندوستان کو ایک اکائی کی بجائے مختلف قومیتوں پر مشتمل بر اعظم قرار دیتے ہوئے مختلف ٹکڑوں کی شکل میں آزادی کو اس کا مستقبل قرار دینا تھا اور ان آزاد اکائیوں کو ایک ایشیاٹک فیڈریشن یا کنفیڈریشن کی شکل میں جوڑنا تھا

تقریباً سو سال بعد، آج جب برطانوی ہند، بنگلہ دیش، پاکستان اور ہندوستان کی شکل میں آزاد ریاستوں میں بٹا ہوا، اگر چہ علاقائی قومیتوں جنھیں عبیداللہ سندھی مستقل قوم سمجھتے ہوئے حق مختاری کا حقدار سمجھتے تھے پاکستان میں اٹھارہویں ترمیم کی شکل میں کچھ حد پورا ہوا ہے جبکہ ایشیاٹک فیڈریشن کا مرحلہ ابھی شرمندہ تعبیر ہونے سے دور ہے، عبید اللہ سندھی کے سرو راجیہ منشور کی دور بینی کو کورنیل یونیوسٹی کے رشاد چوہدری نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے (نو آبادیاتی دور میں برطانوی ہند سے حج کا سفر ) میں ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے

Sufi activists like the Deoband scholar originally from Sialkot, Maulana Ubaidullah Sindhi ( 1872. 1944 ) . Together with students like Zafar Hasan Aybek, Sindhi published tracts during his stay at the Horhor Hindi lodge that outlined, with astonishing precocity, visions of a future ‘federated republic’ in a decolonized South Asia.

Rishad Choudhry: States of Pilgrimage: The Hajj from India in an Age of Imperial Transitions (2015)

”استنبول کی ہندوستانی خانقاہ (ہرہر لاج) وہ جگہ ہے جہاں بیٹھ کر ہندوستانی صوفی، سیاستدان اور عالم دین عبیداللہ سندھی نے اپنے شاگرد ظفر حسن ایبک کی مدد سے وہ مقالہ (سرو راجیہ منشور) شائع کیا جس میں بعد نو آبادیات کے جنوبی ایشیا کا نقشہ یا صورتحال کو حیران کن دور بینی سے پیش کیا گیا تھا“

ہندوستانی خانقاہ (منزل) استنبول کا وہ کمرہ جہاں عبیداللہ سندھی کا قیام رہا تھا

عبیداللہ سندھی کے اس تاریخی دستاویز کے سرورق پر علامہ اقبال کا مشہور شعر
کھول کر آنکھیں مرے آئینہ گفتار میں
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ
درج دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسا مصنف کو خود بھی اپنی تصنیف کی دوربینی اور اہمیت کا کماحقہ ادراک ہو.

استنبول شہر کے مغربی حصے میں عثمانی خلفا کے محلات، آیا صوفیا اور نیلی مسجد سے قریباً دو میل کی دوری پر محلہ آق سرائے میں واقع اس خانقاہ کو جسے ترک ہرہر تکیہ یا ہرہر لاج کہتے ہیں عبیداللہ سندھی ”ہندوستانی منزل“ کہتے تھے۔ اس خانقاہ کے احاطے میں سلطان ٹیپو کے ایلچی سردار امام کی قبر بھی موجود ہے جسے ٹیپو نے عثمانی خلیفہ سے انگریزوں کے خلاف مدد حاصل کرنے کے لیے بھیجا تھا، ایلچی استنبول کے قیام کے دوران بیمار ہو کر فوت ہوا، خلیفہ نے ٹیپو کو انگریزوں کے خلاف مدد دینے کی بجائے دوستی کرنے کا مشورہ دیا، یہ تقریباً 1786۔ 87 کے آس پاس کا واقعہ ہے، ٹیپو عشرہ بھر بعد 1799 میں انگریزوں کے ساتھ لڑتا ہوا مارا گیا لیکن غیر ملکی قبضے کے خلاف مزاحمت کی تاریخ میں زندہ کردار کی حیثیت کا کردار بن گیا، وقت کا بے رحم پہیا گھومتا ہوا لگ بھگ ایک سو پینتیس سال پھر چرخرایا، البتہ مشکل وقت میں ٹیپو کو مدد کرنے کی بجائے صلح کا مشورہ دینے والے ترک سلطان کی اولاد گھومتے پہیے کے نیچے تھی۔

نومبر 1922 میں ایک طرف سلطان عبدالحمید معزول ہو کر ترکی سے جلا وطن کیے جاتے ہیں جبکہ انھیں دنوں عبیداللہ سندھی کو افغانستان کی آزادی استقلال میں کلیدی کردار ادا کرنے کے بعد افغان حکومت کی طرف سے ملک چھوڑنے پر مجبور کرنے پر سوویت رشیا سے ہوتے ہوئے مطفی کمال کے جدید ترکی میں پہنچتے ہیں جہاں سے اس تاریخی عمارت میں بیٹھ کر وہ جدید قومی ریاست کے تصور پر مبنی سیاسی منشور اور لائحہ عمل تجویز کرتے ہیں اور یوں 1786 میں ٹیپو سلطان کے ایلچی سے شروع ہونے والا سفر سلطان ٹیپو ہی کے قافلے کے ایک سپاہی پر مکمل ہوتا ہے۔

1924 میں استنبول کی ہندوستانی منزل سے عبیداللہ سندھی کی طرف سے جاری کیے جانے والے منشور کا سر ورق – تصویر کریڈٹ: عدیل عزیز

 

ہندوستانی خانقاہ (منزل) کے احاطے میں ٹیپو سلطان کے ایلچی کی قبر
تصویر کشی سلمان یونس
ہندوستانی خانقاہ (منزل) کے احاطے میں ٹیپو سلطان کے ایلچی کی قبر

ہندوستانی منزل ، احاطے کا اندرونی منظر
ہندوستانی خانقاہ (منزل ) استنبول ۔ عمارت کا صدر دروازہ ، بیرونی منظر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).