دو سالہ کارکردگی کا شور اور غریبوں کی سسکیاں


گزشتہ پانچ سال (2013-2018) کے دوران پی ٹی آئی کے دھرنوں، جلسوں میں پی ٹی آئی کا ترانہ ”جب آئے گا عمران سب کی شان بنے گا نیا پاکستان“ سن سن کر ہم یہ امید لگا بیٹھے تھے کہ شاید عمران خان کے برسراقتدار آنے سے ملک کی قسمت بدل جائے گی۔ پھر یوں ہوا کہ اگست 2018ء میں خان صاحب نے بطور وزیراعظم پاکستان حلف اٹھا لیا۔ شروع شروع میں موصوف سابقہ حکومتوں پر ملبہ ڈالتے رہے لیکن حکمرانی کا ایک سال گزرنے کے بعد حالات یہ تھے کہ امریکی ڈالر 123 روپے سے بڑھ کر 160 تک پہنچ گیا، پیٹرول 95 روپے لیٹر سے 117 روپے لیٹر ہوگیا، روٹی کی قیمت سات، آٹھ روپے سے بڑھ کر 10 روپے ہوگئی تھی۔

مگر حکمرانوں کے دیوانے اس بات کا کریڈٹ لے کر نعرے لگاتے رہے کہ پی ٹی آئی نے برسراقتدار آنے کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، سابق صدر آصف علی زرداری، فریال تالپور، مریم نواز، حمزہ شہباز، خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی خواجہ سلمان رفیق، رانا ثنا اللہ، مفتاع اسماعیل وغیرہ وغیر ہ سب کو جیل بھیج دیا۔ بعض لوگ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ ستر سالوں کی ناکامیوں کو ایک سال میں کامیابیوں میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

خیر مزید ایک سال برداشت کرنے کے بعد حالات کچھ یوں ہیں کہ حمز ہ شہباز کے علاوہ باقی تمام افراد اگست 2020ء میں آزاد ہیں، اور اشیائے خور و نوش عام آدمی کی پہنچ سے مزید دور ہو گئی ہیں۔ آٹا، چینی، دالیں، روٹی اور پیٹرول کی قیمتیں مزید بڑھا دی گئی ہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ حکومت کی سالانہ رپورٹ برائے سال 21 ۔ 2020ء کے مطابق ملک میں بیروز گارافراد کی تعداد 4 ملین سے بڑھ 6 ملین سے زائد ہوچکی ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے مجموعی طور پر دو سالوں کے دوران 26 ارب اور 20 کروڑ ڈالر مالیت کے بیرونی قرضے حاصل کیے ہیں جو ملکی تاریخ میں حاصل کردہ قرضوں کا دوسرا بڑا حجم ہے۔ حکومت کی جانب سے یہ موقف اختیار کیا گیا کہ حکومت کے پاس بیرونی قرضے حاصل کرنے اور آئی ایم ایف کا سہارا لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اگست 2020ء میں حکومت کی جانب سے دوسالہ کارکردگی سے متعلق شور شرابا برپا سن کر مجھے ایک شعر یاد آ گیا۔

ہنسو آج اتنا کہ اس شور میں
صدا سسکیوں کی سنائی نہ دے

محترم، وزیر اعظم صاحب، ملک کی اکثریتی آبادی دیہاتی اور سادہ لوگ ہیں، حکومت کی دوسالہ کارکردگی کے سلسلے میں وزراء کی جانب سے پیش کردہ اعداد و شمار سے متعلق اتنی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے۔ آپ نے جو اتنے ورق کالے کیے ہیں یا وزراء نے پریس کانفرنسز کر کے صرف قوم کا پیسہ برباد کیا ہے۔ بس یہ بتادیجئے کہ کیا آٹا، چینی، خوردنی تیل، دالیں یا دیگر اشیاء خوردنوش عام آدمی کی دسترس میں ہیں؟ کیا روزگار کے مواقع موجود ہیں۔

عام آدمی کے لئے حکومت نے جو تنخواہ مقرر کی ہے، اس میں دو بچوں کی تعلیم، گھر کا کرایہ اور کچن کے اخراجات وغیرہ پورے ہو سکتے ہیں۔ (حالانکہ اکثر غریبوں کے بچوں کے دو سے زیادہ ہوتے ہیں)۔ پاکستان کی اکثریتی آبادی کو غیر ملکی قرضوں اور جی ڈی پی کے اشاریوں سے کوئی واقفیت نہیں، اسے صرف دو وقت کی ”عزت کی روٹی“ سے غرض ہے۔ حضور، آپ نے گزشتہ پانچ سال کے دوران ملک میں گڈ گورننس، اقربا پروری کا خاتمہ، روزگار کے مواقع، بے گھر افراد کے لیے گھر بنانے، معیشت کی مضبوطی اور ملکی دولت کو واپس لانے کے وعدے کیے تھے۔ دو سال  کے دوران قومی خزانے میں کتنی دولت واپس آئی یا احتساب کے نام پر نیب یا دیگر تحقیقاتی اداروں نے الٹا کروڑوں روپے برباد کیے۔

تجریہ نگاروں کے مطابق دو سال گزرنے کے بعد سابقہ حکومتوں پر الزامات محض ناقص کارکردگی چھپانے کی بات ہے۔ کیونکہ دو سال کی مدت حکومت کے لئے کافی عرصہ تصور کیا جاتا ہے۔ اور پھر حالات و واقعات میں کہیں آئندہ بھی بہتری نظر نہیں آتی۔ حضور والا۔ جن لوگوں کو کرپشن کے الزامات لگا کر جیلوں میں بھیجا گیا ان سے کتنی رقم حاصل کرکے قومی خزانے میں جمع کی گئی؟ اگر کچھ برآمدگی نہیں ہوئی تو کیا کہا جائے کہ یہ محض ڈھونگ اور سیاسی انتقام تھا جس کی خاطر آپ نے قوم کے کروڑوں روپے اور وقت برباد کیا۔

کپتان صاحب، سوشل میڈیا پر نقادوں کو گالیاں دینے کے لیے فوج ظفر موج بھرتی کرنے کی بجائے ذرا اپنی انا اور ذاتیات کے خول سے باہر نکل کر عام آدمی کی زندگی پر دھیان دیں۔ ذرا ان جھونپڑوں پر نظر کریں جو بارش کے دوران کل جمع پونجی بچانے کے لئے کونے کھدرے ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ سڑکوں کے کنارے پڑے ان مزدوروں پر نظر کریں جو ہر آنے جانے والی گاڑی کو ترسی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں کہ شاید گزرنے والا شخص دس، بیس روپے یا ایک وقت کا کھانے کے لئے دے گا۔ اس قوم کے ساتھ آپ نے کوئی مشروط وعدے نہیں کیے تھے۔ جناب والا! آپ نے تو غریب کے ہاتھ سے نوالہ بھی چھین لیا ہے۔ کیا بنی گالہ کی پہاڑی پر آپ کو غریبوں کی سسکیاں سنائی نہیں دیتی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).