چین کی اقتصادی اصلاحات


ہم بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو ساٹھ اور ستر کی دہائی میں مزدوروں اور کسانوں کو کارخانے اور زمین دلوانے کی بات کرتے تھے، انقلاب کے خواب دیکھتے تھے۔ اب یاد نہیں 1973 یا 1974 ء کا ذکر ہے، میں روزنامہ مساوات میں کام کر رہی تھی۔ اس زمانے میں ٹیلی پرنٹر پر خبریں آیا کرتی تھیں۔ چین کی کانگرس کا اجلاس ہوا اور چو این لائی نے اس میں تقریر کی۔ ٹیلی پرنٹر کے پیلے کاغذوں کے رول پر باریک ٹائپ شدہ لفظوں میں تقریر کا متن ہم تک پہنچنے لگا۔

احفاظ کا بحیثیت اسسٹنٹ ایڈیٹر خیال تھا کہ مساوات میں اس کا اردو ترجمہ شائع ہونا چاہیے چنانچہ ہم نے ترجمہ شروع کر دیا۔ ارے بھئی کسی ایسے ویسے کی تقریر تھوڑی تھی۔ اس نسل کو تو اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ ماؤ زے تنگ اور چو این لائی ہمارے لئے کیا اہمیت رکھتے تھے۔ خیر ہم نے ترجمہ شروع کیا۔ اب وہ کوئی مختصر سی تقریر تو تھی نہیں۔ دوپہر سے شام اور شام سے رات ہو گئی۔ یہاں تک کہ احفاظ بھی کہنے پر مجبور ہو گئے کہ رہنے دو باقی کل کر لینا لیکن صاحب معاملہ چو این لائی اور چین کا تھا، ہم رات کو دس بجے ترجمہ مکمل کر کے ہی دفتر سے اٹھے۔

ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں. تو وقت کے ساتھ بہت کچھ بدل گیا۔ سچی بات یہ ہے کہ 1985 کے اواخر میں جب ہم چین گئے تو ہمیں یہ تو پتا تھا کہ اب حالات وہ نہیں رہے لیکن تبدیلی کی نوعیت کا اندازہ نہیں تھا۔ یہاں تک کہ ایک دو سال بعد جو نئے سفیر آئے وہ بھی اس بات سے لاعلم تھے کہ اب ماؤ زے تنگ کے بارے میں چینیوں کے خیالات بدل چکے ہیں چنانچہ وہ ان کے سامنے ماؤ کی تعریفیں کرتے رہتے تھے اور چینی حضرات خاموش بیٹھے رہتے تھے۔

اس زمانے میں چین کی اقتصادی اصلاحات کے حوالے سے فری مارکیٹ کی بہت بات ہوتی تھی۔ اب اگر آپ پوچھیں کہ چینی عوام کی فری مارکیٹ سے کیا مراد تھی تو پاکستان میں ہم جو ٹھیلے اور کیبن دیکھتے رہتے ہیں، انہیں وہاں فری مارکیٹ کہا جاتا تھا۔ دراصل چند سال پہلے تک ساری دکانیں سرکاری ملکیت تھیں لیکن پھر تجرباتی طور پر کسانوں اور دوسرے لوگوں کو چھوٹے پیمانے پر نجی کاروبار کرنے کی آزادی دی گئی اور اس کے حوصلہ افزا نتائج برامد ہوئے۔ منافع کی ترغیب کا کسانوں کی پیداواری صلاحیت پر اچھا اثر پڑا اور بازاروں میں سبزیاں اور پھل زیادہ مقدار میں نظر آنے لگے اور سرکاری دکانوں کے کارکنوں میں بھی اپنی کارکردگی میں اضافے کا جذبہ پیدا ہوا۔

چین کے پالیسی سازوں کے مطابق ماضی میں عمومی رویہ تنگ نظری کا تھا۔ سرمایہ دار ممالک سے آنے والی ہر چیز کو برا سمجھا جاتا تھا۔ اگر کوئی غیر ملکی نقطہ ہائے نظر کی بات کرتا تھا تو کہا جاتا تھا کہ وہ سرمایہ داری کی راہ پر چل نکلا ہے۔ جب چین نے بیرونی دنیا پر اپنے دروازے کھول دیے تو اس ”سرمایہ داری فوبیا“ سے نمٹنا ضروری ہو گیا۔ پالیس سازوں کے مطابق سرمایہ دار ممالک میں استعمال ہونے والے کچھ طریقے سائنٹفک بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر فضول چیزوں کو مسترد کرتے ہوئے اچھی چیزوں کو اپنایا جائے تو اس سے چین کی اقتصادی تعمیر میں مدد ملے گی۔

اقتصادی اصلاحات کے نفاذ کے بعد سے چین کے دیہی علاقوں میں خوشگوار تبدیلیاں آئی تھیں لیکن کچھ علاقے غربت کا شکار بھی تھے۔ حکومت ان علاقوں کو غربت سے نکالنے کے طریقے ڈھونڈ رہی تھی۔ چینی سیاق و سباق میں غریب علاقے کی تعریف یہ تھی کہ وہاں کے لوگوں کی سالانہ فی کس آمدنی ایک سو پچاس یو آن (تقریباپچاس امریکی ڈالر) سے زیادہ نہ ہو۔ ایسے علاقے ظاہر ہے زرعی اور روایتی طور پر غریب ہونے کے علاوہ دور افتادہ یا موسموں کے شدائد کا شکار ہوتے ہیں۔

ان علاقوں میں عام طور پر اقلیتی قومیں رہتی تھیں جنہوں نے انقلابی مجاہدین کو پناہ دے کر اور ان کی صفوں میں شامل ہو کر عوامی جمہوریہ کے قیام میں خاطر خواہ کردار ادا کیا تھا۔ ان کی مدد کے لئے تیار کیے جانے والے پروگرام کی بنیاد اس اصول پر رکھی گئی تھی کہ ”غریب کی مدد محض غربت میں زندہ رہنے کے لئے نہ کی جائے بلکہ اسے خود غربت سے نکلنے کے قابل بنانے کے لئے کی جائے۔“

جب چینی عوام کو محدود پیمانے پر نجی کاروبار کرنے کی آزادی ملی تو اس کے ساتھ ہی جرائم اور طلاق کی شرح میں بھی اضافہ ہوا۔ ان کے جرائم میں سرکاری یا نجی املاک کی چوری، ٹیکس کی چوری، گاہکوں کو دھمکانا اور مسروقہ اشیا کی خرید و فروخت شامل تھی۔ ان لوگوں کے درمیان طلاق کی شرح میں اضافے کی وجہ یہ تھی کہ جب گھر میں زیادہ پیسا آنے لگا تو میاں بیوی کے درمیان اس کے بارے میں جھگڑا ہونے لگا۔ کاروبار کی بنا پر سماجی تعلقات وسیع ہوئے تو کچھ لوگ کسی تیسرے فریق کے ساتھ ملوث ہو گئے جس کا نتیجہ طلاق کی صورت میں نکلتا تھا۔

یہ تو سماجی مسائل تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی مسائل بھی تھے۔ چینی عوام بقول ان کے ”لیفٹ ازم“ کا جوا گلے سے اتارنے کی کوشش کر رہے تھا۔ اس ضمن میں جو اصلاحات کی گئی تھیں ان میں زیادہ توجہ مختلف کنٹرول اور پابندیوں کو نرم کرنے پر دی جاتی تھی جس کے نتائج اچھے نکلے لیکن کچھ لوگوں کے ذہنوں میں یہ تاثر پیدا ہو گیا کہ اصلاحات کا مطلب کسی قسم کا کنٹرول نہ ہونا ہے۔ لیکن حکومت کا کہنا تھا کہ اصلاحات کے ساتھ ساتھ مناسب کنٹرول کا ہونا ضروری ہے۔

1978 کے بعد سے چین میں سرکاری ملکیت کے واحد ڈھانچے میں کئی طرح کی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ماہرین کے مطابق کچھ شعبوں کو سرکاری ملکیت میں رہنا چاہیے اور حکومت کو براہ راست ان کا نظم و نسق سنبھالنا چاہیے۔ جب کہ کچھ شعبے سرکاری ملکیت میں رہنے کے باوجود اپنا انتظام خود سنبھالیں اور حکومت کا کنٹرول بالواسطہ ہو۔ باقی شعبے حکومت کے بالواسطہ یا بلا واسطہ کنٹرول میں رہتے ہوئے مینجریل سسٹم اپنائیں۔ گزشتہ تین عشروں میں چین میں جو اقتصادی تبدیلیاں آئی ہیں، ان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ چینی معیشت تین عشروں سے دنیا کی تیز ترین ترقی کرنے والی معیشتوں میں شامل رہی ہے۔ چین کی خارجہ پالیسی کا انحصار بھی اس کی اقتصادی ترقی کی حکمت عملی پر رہا ہے۔

چین کے اقتصادی مستقبل کے استحکام کا انحصار پیپلز بنک آف چائنا اور وزارت مالیات کی پرو ایکٹو اصلاحات کو جاری رکھنے کی اہلیت و صلاحیت پر ہے اور اس پر بھی کہ وہ کیسے نجی مارکیٹ کے ذریعے سرمائے کو متحرک کرتے ہیں۔ سرکاری شعبے کا انحصار بھی نجی مارکیٹ پر بڑھتا جا رہا ہے۔ گزشتہ چالیس سالوں میں چین میں ہونے والی اصلاحات، دنیا پر اپنے دروازے کھولنا اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ترقی میں تجربات کی ایک کہکشاں نظر آتی ہے۔

شروع میں پیداواری بریگیڈ والے نظام کو تبدیل کر کے خاندانوں کو ٹھیکے پر زمین دی گئی۔ پھر اسپیشل اکنامک زونز بنائے گئے۔ اس کے بعد 2001 میں چین عالمی تجارتی تنظیم میں شامل ہو گیا۔ انسانی تاریخ میں ہونے والی اس انتہائی نتیجہ خیز سماجی و اقتصادی تبدیلی کے ثمرات ایک اعشاریہ چار بلین عوام کو پہنچانے کا عمل جاری ہے۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ ہم ایک دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ سرمایہ داری استحصال اور امیر غریب کے فرق کو مٹانے کے لئے چین سوشلزم کی طرف گیا تھا لیکن اس کے تحت مطلوبہ خوشحالی نہ حاصل ہو پائی تو سرمایہ داری طریقوں کے ساتھ ”سوشلسٹ“ کا لاحقہ لگا کے نجی ملکیت اور آزاد منڈی کی معیشت کی طرف واپس آ گیا۔ ظاہر ہے اس کے نتیجے میں پھر امیر غریب کا فرق بڑھے گا اور لوگوں کو شکایتیں پیدا ہوں گی بلکہ ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ چین نے بے مثال اقتصادی ترقی کی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عوام کس حد تک مطمئن ہیں اور کب تک مطمئن رہیں گے؟

اس سیریز کے دیگر حصےچین میں شادیاں اور بڑھاپے میں طلاقیںچین کے دیہی نوجوان اور شادیاں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).