عقیدہ اور فوج۔۔۔ ڈھیر لگ جائیں گے بستی میں گریبانوں کے


\"nasir-salahuddin-1b\"قبلہ فرنود عالم اور ان کے استادِ گرامی پروفیسر مشتاق صاحب میں خیالات کا تبادلہ بہجت افزا رہا۔  تحریک ہوئی کہ اس بحث میں شریک ہوا جائے۔ پھر کچھ سوچ کرایک فریق بننے سے حذر کا فیصلہ کیا۔ نازک مزاج شاہاں، تاب سخن ندراد۔ عالم بالا کی سخن فہمی پر انگشت نمائی۔۔۔؟ یہ تاب یہ مجال یہ جرأت نہیں مجھے۔ ایک بندہ خاکی اور کاخ خواجگان کی رفعت۔۔۔ اللہ! اللہ! سو اب روئے سخن برادر عزیز فرنود عالم کی طرف ہے کہ سخن فہم ہیں، عاجز ہی کی طرح پیادے کے سپاہی ہیں، رسالے کا گولہ تو آنکھ سے اوجھل اجنبی زمینوں میں تباہی کی خبر دیتا ہے۔

میرے خیال میں مشتاق صاحب کی طرف سے قانونی تناظر میں پیش گئے کئے قضایا کے اولین مفروضے پاک فوج کے کسی سیر حاصل سماجی مطالعے (جو فی الحال موجود نہیں) سے آنے چاہئیں ورنہ اس ’مذہبی‘ منطق کو جس میں مذہب ایک سماجی مقولے کی بجائے خالص ایک علیحدہ کیٹیگری ہے، اگر منطقی استدلال کی درد تہ جام تک لے جائیں تو کافی مشکلات پیدا ہوں گی۔ مثال کے طور پر کل کو یہی آئینی و قانونی مزاج سے وضع ہوتی منطق ذرا ’’من پسند‘‘ ردوبدل کے ساتھ شیعہ آرمی چیف، اہل حدیث آرمی چیف اور بریلوی یا دیوبندی آرمی چیف کا ’’مدلل‘‘ مطالبہ بھی کر سکتی ہے۔ پھر کور کمانڈر، ملٹری آپریشنز، آئی ایس آئی، ڈویژن کمانڈر، اور نیچے تک تمام کلیدی عہدوں پر یہی بحث اٹھائی جا سکتی ہے۔ کوئی مذہبی اہل علم یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ کسی مسلمان بٹالین کا کمانڈر کیسے غیرمسلم ہو سکتا ہے جس نے اس کی کمان میں جنگ لڑنی ہو؟ ادارے کی بنیادی پالیسی کی بات علیحدہ ہے لیکن نیچے موجود اکائیوں میں کمانداری منصب بہت حد تک آزادانہ کام کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اسی طرح ان کی مذہبی و سماجی ترجیحات ویسا ہی تنوع لئے ہوتی ہیں جیسا باقی کسی بھی ادارے یا پورے سماج میں ہوتا ہے۔ لیکن فوج میں ’’کامریڈ شپ‘‘ یعنی اپنی مخصوص برادرانہ عصبیت کی بنیاد عمومی طور پر اسی مشترکہ قدر کے گرد گھومتی ہے کہ جسے آپ فوجی روایت یا خاکی وردی کا رشتہ کہہ سکتے ہیں۔ تاریخ کی مغربی (برطانوی) سامراجی روایت سے جنم لیتی دنیا کی تمام افواج میں ایسا ہی ہے۔ مذہبی رجحانات، ثقافتی رجحانات اور دوسرے رجحانات کی بنیاد پر انسیت ضرور موجود ہوتی ہے لیکن نفسیاتی تہوں میں بہت نیچے رہ جاتی ہے۔ یہ برطانوی روایت کی طرز پر فوجی تربیت کا خاصہ ہے اور اس کا تبدیل ہونا تقریباً اسی درجے میں ناممکن ہے جیسے کسی کو اپنی زبان یا ثقافت چھوڑنی پڑ جائے۔ ایسی تبدیلیوں کے لئے صدیاں بھی کم ہیں۔ اس ’لبرل‘ اور ’سیکولر‘ عصبیت پر تمام فوجی فخر کرتے ہیں اور ’مذہب‘ کے ذریعے اس رشتے پر اعتقادی انسیت کا روغن قاز چڑھانے سے باز رہتے ہیں۔

لہٰذا پاک فوج بہرحال برطانوی سامراجی تاریخ کی پیشہ ورانہ روایت میں گندھی ایک ایسی فوج ہے جو سماجی و تہذیبی طور پر اکثریتی مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کثیر الثقافتی روپ رکھتی ہے اور اسی حد تک ’مذہب‘ کی تحدید بھی کرتی ہے۔ تو آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہمارے سماج کے معروف معنوں میں ایک قسم کا سیکولر لبرل ادارہ ہے جہاں پیشہ ورانہ مسائل سے ہر صورت مذہبی مفروضوں کو علیحدہ رکھا جاتا ہے، ہاں تہذیبی لحاظ سے مذہب کو بطور ایک motivational tool کے طور پر استعمال کرنے میں کوئی قباحت ظاہر نہیں کی جاتی (کیوں کہ آخر لوگوں کو حتمی امکانی درجے میں جان دینے پر رضامند کرنا ایک مشکل کام ہے) لیکن اس طرح کی ایک مخصوص تجربیت پسندی سے کام لیا جاتا ہے جو برطانوی یعنی خالص مغربی فوجی روایت کا خاصہ ہے۔ آپ یہ تجربیت پسندی ہندوستانی فوج کی تاریخ میں مرہٹہ بٹالینز، سکھ بٹالینز اور آج تک فوجی یونٹوں میں مختلف علاقائی کوٹوں کے بارے میں معلومات حاصل کر کے لے سکتے ہیں۔ میری رائے میں اس سلسلے میں کسی قسم کے مذہبی مفروضے فوج کے سماجی مطالعے پبلک میں موجود بلکہ سرے سے نہ ہونے کا نتیجہ ہیں۔ یہ وہی فوج ہے جس میں پندرہ اگست سن سینتالیس میں صاحبزادہ یعقوب علی  خان کی یونٹ پاکستان آرمی میں تھی اوران کے بھائی کی یونٹ انڈین آرمی میں ہی رہی۔ اس تاریخ میں مذہبی وابستگیوں کا سوال ذاتی دائروں سے اداراتی دائروں تک نہیں پھیل سکا۔ خاکی وردی میں ملبوس مردانِ مومن و حق کے لئے مذہب پسندوں کے خوشنما خوابوں اور پیہم اتنظار پر کس کا زور چل سکا ہے سو ان کی بنیاد پر دلائل قائم کرنے سے بہت بہتر ہے کہ سماجی مطالعے کو ترجیح دی جائے۔ لیکن آخر الذکر ایک مشکل کام ہے کیوں کہ نتائج امنگوں کے برعکس بھی ہو سکتے ہیں۔

اس تناظر میں کسی بھی قسم کے قانونی استدلال کے ذریعے آرمی چیف کو آئینی طور پر اس بات پر کاربند ’ظاہر‘ کرنا کہ وہ پیشہ ورانہ مہارت اور اداراتی ترجیحات کے بجائے مذہبی اور اعتقادی تناظر میں کچھ نام انتخاب کے لئے وزیر اعظم کو پیش کرے، نہ صرف منطقی بلکہ عملی طور پر بھی ایک غیرمعقول بات ہے۔ ہاں گمانِ غالب ہے کہ تہذیبی و سماجی طور پر یقیناً ایسا ہی ہوتا ہے کیوں کہ بہرحال فیصلے کا اختیار جس بھی فرد کے ہاتھ میں ہو وہ اپنی موضوعی ترجیحات رکھتا ہے۔ اسی لئے کچھ مولانا حضرات کے بقول ان کو ’یقین دہانی‘ کرا دی گئی ہے جو بادیٔ النظر میں درست ہی محسوس ہوتا ہے۔جہاں تک ریاستی ڈھانچے کے آئینی و قانونی امکانات کا تعلق ہے تو منطقی طور پر تو یہ مفروضہ بھی قائم کیا جا سکتا ہے اگر کوئی مذہبی تنظیم اس ملک میں اگلے پچاس سال ایک سماجی و سیاسی مہم چلائے اور ملک کے آئین میں اہل تشیع اور اسماعیلی حضرات کو غیر مسلم قرار دے دیا جائے تو اب تو اسی دن سے پاک فوج میں کافی تعداد غیرمسلم قرار پا جائے گی اور کلیدی عہدوں سے انہیں ہٹانا لازم ہو جائے گا۔ اس لئے یہ ساری بحث ہی بہت مضحکہ خیز ہے۔ زیادہ معقول بات یہ محسوس ہوتی ہے کہ فوج کا ادارہ تو اپنے تناظر میں جو بھی منتخب نام وزیر اعظم کو بھیجتا ہے اسے کرنے دیا جائے اور وزیرِ اعظم کو اس بات کا حق ہے کہ وہ اپنے مینڈیٹ کے مطابق جیسے چاہے فیصلہ کرے۔ میری رائے میں تو فرنود عالم صاحب کے دلائل کی بنیاد کم و بیش یہی تھی اور بندہ خود کو اس سے متفق پاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments