تاریخ کے بے گناہ قیدی اور سندھ اسمبلی کا قانون


\"husnain

’’آؤٹ آف دا پاسٹ اس دکان کا نام تھا اور اس میں صرف یادیں بکتی تھیں۔ کچھ چیزیں جو آج ایک نسل کے لیے بالکل فضول، بے کار اور عام سی ہوتی ہیں، محض چند برس گزر جانے کے بعد آنے والوں کے لیے ایک جادوئی اور دیومالائی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔ وہاں، اس دکان میں یہ سب چیزیں بکتی تھیں۔‘‘

وہ پیرس میں تھا۔ اس کی دوست اس کے ساتھ تھی۔ دونوں کی شادی میں کچھ ہی عرصہ رہتا تھا۔ تیاریاں زور و شور سے چل رہی تھیں۔ اسے بارش میں بھیگنا پسند تھا، دوست کو ناپسند تھا۔ وہ ایک ناول لکھ رہا تھا، دوست کے خیال میں وہ محض وقت ضائع کرتا تھا۔ وہ ہمیشہ کے لیے پیرس رہ جانا چاہتا تھا، دوست پیرس کو ایک عام سا شہر مانتی تھی۔ وہ پیرس کی سڑکوں پر پیدل گھومتے ہوئے وہاں کی تمام تر کیفیات اپنے اندر جذب کرنا چاہتا تھا، ان پر لکھنا چاہتا تھا، دوست کے خیال میں پیرس کے ریستوران اس مقصد کے لیے زیادہ بہتر تھے۔ وہ ماضی کا قیدی بن چکا تھا۔ وہ اس دور کو گولڈن ایج سمجھتا تھا جب پکاسو زندہ تھا اس کے ہم عصر زندہ تھے، دوست کے خیال میں یہ سب بے کار باتیں تھیں۔

ایک رات ہمیشہ کی طرح وہ اکیلا گھومنے نکلا اور گھومتے گھومتے تھک ہار کر ایک جگہ بیٹھ گیا۔ جیسے ہی گھڑیال نے ایک بجایا، اسی وقت ایک پرانی گاڑی وہاں آ کر رکی، اندر موجود لوگوں نے اسے بہت خلوص سے بلایا تو وہ انکار نہ کر سکا اور ان کے ساتھ روانہ ہو گیا۔ یہ گاڑی Peugeot کا ایک پرانا ماڈل تھا، سن انیس سو بیس کے آس پاس کا، جیسی بہت پرانی رولز رائس ہوتی ہیں، اس قسم کا تھا۔

اس گاڑی میں لوگ اسی زمانے کے کپڑے پہنے بیٹھے تھے۔ ان کے ساتھ وہ ایک دعوت میں پہنچا جہاں اس کی ملاقات ارنسٹ ہیمنگوے (مشہور امریکی لکھاری اور \"vintage_group_photo_of_indian_sindh_people\"صحافی) سے ہوئی۔ اس کے زمانے کے دوسرے بہت سے لوگوں سے ہوئی، اور اسے کچھ کچھ سمجھ آنے لگ گئی کہ وہ ماضی میں پہنچ چکا ہے۔ ہیمنگوے نے اسے ایک مشہور نقاد سے ملوایا، پکاسو بھی وہیں موجود تھے۔ وہاں اس نے اپنے ناول کے شروع کی دو تین لائینیں ان نقاد خاتون کو سنائیں۔ وہ لائنیں اس تحریر کے شروع میں موجود ہیں۔

ماضی کے اس سفر میں اسے بہت سے لوگوں کے علاوہ ایک لڑکی بھی ملتی ہے۔ وہ عین اسی کے مزاج کی ہوتی ہے اور وہ اپنے ماضی کی اسیر ہوتی ہے۔ رات کے دھندلکے میں وہ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے انیس سو بیس کے پیرس کی سڑکوں پر چہل قدمی کر رہے ہوتے ہیں تو ایک شاندار بگھی آ کر رکتی ہے، اندر موجود لوگوں کی دعوت پر جب وہ لوگ بیٹھتے ہیں تو وہ اٹھارویں صدی میں پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں وہ لڑکی بہت انجوائے کرتی ہے۔ وہ لڑکے کو اپنے ساتھ اپنے پسندیدہ ماضی میں روکنا چاہتی ہے مگر لڑکے پر اچانک اس وقت یہ راز کھلتا ہے کہ ہر انسان کسی نہ کسی طرح اپنے ماضی کا اسیر ہوتا ہے لیکن بہتر یہی ہو گا کہ جو موجود وقت ہے یعنی جو حال ہے، اس حال میں رہا جائے۔ تو یوں وہ واپس آ جاتا ہے اور پھر بالاخر اسے ایک دوست ایسی مل جاتی ہے جسے بارش میں بھیگتا پیرس پسند ہوتا ہے۔ امید ہے دونوں ہنسی خوشی رہنے لگے ہوں گے۔ مڈ نائٹ ان پیرس اس فلم کا نام تھا، فلم دیکھنے کے بعد یہ خیال آیا کہ ہم جہاں بھی ہیں، جس دور میں بھی ہیں، ذہنی طور پر ہم پسند کرتے ہیں کہ ہم صدیوں پیچھے رہیں۔\"tumblr_m1cn4ibdc21r59w4po1_1280\"

سندھ اسمبلی میں ایک بل پاس ہوا جس کے تحت مذہب کی جبری تبدیلی کے بعد شادی پر سات سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ سہولت کاروں پر بھی یہ قانون برابر لاگو ہو گا، مطلب نکاح پڑھانے والے مولانا صاحب یا دوسرے بھائی بند۔ اور جو بالغ شخص مذہب تبدیل کرے گا اسے اکیس دن تک حفاظتی تحویل میں رکھا جائے گا، وہاں اسے متعلقہ مذہب سے متعلق تمام معلومات فراہم کی جائیں گی تاکہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کر سکے۔ یہ فیصلہ تعریف کے قابل تھا اور اندرون سندھ ہندو برادری کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا ہے اس کے ردعمل میں تھا۔ یہ فیصلہ اقلیتوں کو اپنے برابر سمجھنے اور ان کی آل اولاد اور حقوق کے دفاع کا فیصلہ تھا۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق چار سے پانچ ہزار ہندو حالیہ برسوں کے دوران پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔ یہ غریب الوطن جہاں بھی جائیں گے تمام عمر سینے پر گھاؤ لیے  زندہ رہیں گے۔ ایک ایک شخص کو یاد ہو گا کہ اس نے کن حالات میں اپنا ملک چھوڑا تھا۔ وہ ملک جہاں اس کے پرکھے دفن تھے لیکن وہیں اس کے عقیدوں کو بھی دفن کیا جاتا، یہ اسے منظور نہیں تھا۔ تو یہ بل اپنے ان بھائیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے پاس ہوا جو عقائد کی جبری تبدیلی کا شکار تھے۔ ان کی بیٹیاں کسی دن اچانک اغوا ہو جاتیں اور دو چار روز بعد دوبارہ نمودار ہوتیں تو وہ شادی شدہ مسلمان ہوتی تھیں۔ عدالت میں پوچھا جاتا تو کئی قسم کے پریشر گروپ ٹوٹ پڑتے اور جج پر زور دیا جاتا کہ لڑکی نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کیا ہے۔ 2012 تک ایسے واقعات سو سے زیادہ ہو چکے تھے لیکن صرف ایک خاتون بخیر و عافیت اپنے خاندان واپس پہنچ پائی تھیں۔ پھر وہ بچیاں اکثر اٹھارہ برس سے بھی کم عمر ہوتی تھیں۔ اس بل کے تحت اٹھارہ برس کی عمر سے پہلے تبدیلی مذہب خلاف قانون ہو گا جو یقینی طور پر ایک احسن قدم ہے۔\"sindhi-woman\"

اب ہوا کیا، ایک اخبار خبر دیتا ہے، \”سندھ اسمبلی نے اسلام قبول کرنے پر شرائط لگا دیں\”، ایک اور موقر آن لائن اخبار اسے \”سندھ اسمبلی میں اسلام کے خلاف بل کی منظوری\” کا نام دیتا ہے۔ ایک غدر برپا ہے گویا یہ بل پاس ہوا ہے تو مذہب پر کوئی روک ٹوک عائد کر دی گئی ہے، ہر ذمی اپنا مذہب ترک کر کے اس انتظار میں بیٹھا ہے کہ کوئی آئے اور اسے بہتر راستے کی طرف لے جائے۔ یہ رویہ عین وہی رویہ ہے جس کی جڑ ماضی پرستی ہے۔ تمام عمر ہمیں پڑھایا جاتا کہ صرف ہمارے بزرگ عظمت کا روشن مینار تھے اور باقی دنیا اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی، جب ہم خود سے پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ لو بھئی، جہل میں گوڈے گوڈے ڈوبے ہوئے ہیں۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ مذہب امن کا نام ہے، محبت کا نام ہے، بھائی چارے کا نام ہے، پیار کا نام ہے، اس پر کوئی زبردستی نہیں، لیکن جب بل پاس ہوتا ہے تو ری ایکشن دیکھ کر ہمیں قرون اولی کے سپہ سالاروں کی یاد آتی ہے جن کے دور میں بل تو کیا پاس ہوتا محض بلبلانے پر سالم بندہ روسٹ ہو جاتا تھا۔ ہمارے شاعر ہمیں سکھاتے ہیں، \”مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا\” اور ہم اپنے علاوہ ہر ایک کا مذہب بیری کا وہ درخت سمجھتے ہیں جس پر پتھر اور اینٹیں مارنا سب جائز ہوتا ہے۔

یہ رویے چار پانچ صدی قبل شاید سوٹ کرتے ہوں۔ حالات کی ڈائنامکس یوں تھیں کہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں جو کچھ بھی ہوتا تھا طاقت کے زور پر ہوتا تھا۔ صرف ایک نہیں ہر مذہب کے پیروکار ایسا ہی کرتے تھے۔ مذہب کے نام پر بے شمار جنگیں لڑی گئیں، جو بھی جنگ جیت جاتا تاریخ دان بھی اسی کے حصے میں آتے، یوں عظمتوں کی ایک داستان رقم ہوتی رہی، ہوتی رہی، یہاں تک کہ پچھلی صدی آ گئی۔ اب کیا تھا کہ دنیا کی اکثر قومیں عظمتوں کے اس بوجھ سے باہر نکل آئیں اور فیصلے معیشت کی بنیاد پر ہونے لگے۔ جنگیں معیشت کے فیصلے کرنے لگیں۔ ہمارے یہاں اب بھی \”بیٹا جان خلافت پر دے دو\” قسم کی تحریکیں چل رہی تھیں۔ یہ روئیے ہماری بنیادوں میں ہمیشہ شامل رہے یہاں تک کہ پاکستان بن گیا، پھر اسے بنے ہوئے ساٹھ باسٹھ سال بھی ہو گئے لیکن ہم ذہنی طور پر ابھی وہیں پھنسے ہیں۔ ہم اپنے سو کالڈ عظیم ماضی کے اسیر ہیں۔\"hemingway-writing\"

ہم بخارا، سمرقند، فرغانہ، روم، شیراز اور نہ جانے کہاں کہاں کی کوڑیاں لے کر آتے ہیں اور دور جدید کے سودے انہی کے مول خریدنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ اگر کہانی کا ہیرو یہ فیصلہ کر لے کہ اسے ماضی میں ہی رہنا ہے تو کہانی مستقبل کی طرف کبھی بڑھ نہیں سکتی۔

آؤٹ آف دا پاسٹ سٹور سے آپ جو مرضی خریدتے رہیں، قیمت وہی ادا کریں گے جو رائج الوقت ہو گی۔

جون ایلیا نثر میں بھی شہ پارے کہتے تھے، ایک بار کہنے لگے \”ہم ایک ہزار برس سے تاریخ کے دستر خوان پر حرام خوری کے سوا کچھ نہیں کر رہے۔\” تمام دوستوں کو اتفاق ہو، ضروری نہیں، مگر ایک بار پیچھے مڑ کر دیکھنا فرض ہے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments