کراچی والوں کا آئٹم سونگ


قانونی ڈیڑھ کروڑ، غیر تسلیم شدہ ساڑھے تین کروڑ اور متوقع 4 سے 5 کروڑ آبادی کا کماؤ پوت کراچی یتیم ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ملک کی کل آمدنی کا 65 سے 70 فیصد کنٹری بیوٹ کرنے والا قائد اعظم کا دارالحکومت صد فیصد لاوارث ہے۔ شاید اہل کراچی کو منی پاکستان میں حب وطنیت کی سزا کے طور پر بغض عصبیت کا تاوان تا عمر چکانا ہوگا۔

سوچنا یہ ہے کہ قافلہ کیونکر لٹا؟ کیا راجہ صاحب محمود آباد جیسے جہاندیدہ و دوراندیش، عقل سے عاری و کم ہمتی انسان تھے کہ جد و جہد آزادی کی دیوی کے چرنوں میں میں اپنی پوری کی پوری راجدھانی کی بھینٹ چڑھا کر ہجرت کا کشٹ اٹھایا مگر تقسیم کے ابتدائی سالوں میں ہی لندن کوچ کر جانے کا اذیت ناک فیصلہ کرنے پر مجبور ہوئے۔ کتابیں اوڑھنا بچھونا تھیں سو تادم مرگ ایک لائبریری سے وابستہ رہے، وہیں دفن ہونا پسند کیا۔ اس کے برعکس وہ رہبران و سرفروشان ملت پرامید نے جنہوں نے کشتیاں جلا کر رخصت ہوتی بیٹی کی طرح باپ کی نصیحت، ”تمہارا دکھ سکھ خوشی غمی سب سسرال سے وابستہ ہے۔ اب یہی تمہارا گھر ہے، مر کر ہی نکلنا، سدا سہاگن رہو۔ ۔ ۔“ کو پلو سے لگا کر رکھا، کہیں کے نہیں رہے۔

ہوا کچھ یوں کہ آزادی کے متوالوں نے آزاد منش درویش کی پیش بینی کو دیوانے کی بڑ سمجھ کر دیوار پر مارا اور انصاف و مساوات کے سہانے سپنے آنکھوں میں بسائے نئے دیس سدھارے۔ وارفتگی شوق نے ولولہ انگیز سپردگی کے ساتھ، ڈائرکٹر کی کہی ان کہی ہدایات کو الوہی فرامین کی طرح دل سے لگا کر رکھا۔ حکم حاکم بجا لانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی ترنگ میں ہر پتلی تماشے کے مصنوعی کرداروں میں ایسی جان ڈالی کہ چار دانگ ان کا ڈنکا بجنے لگا۔ مگر تب بھی ان کی اصل وجہ شہرت پانی میں آگ لگا دینے والے پھڑکتے اور بھڑکتے آئٹم سانگ ہی رہے۔ اسی شور و غوغا میں جوش جنوں ایسا سر چڑھ کر بولا کہ یہ دو ٹکے کے آئٹم سانگ کرنے والے خود کو پکچر کا ہیرو سمجھنے کی شدید خوش فہمی میں بھی مبتلا ہو چلے۔

یہاں ذکر کرتے ہیں مشہور زمانہ دنگل، رائل رمبل ریسلنگ کا جو پہلوانی کا مشہور و معروف فارمیٹ ہے۔ اس کشتی میں اکھاڑے میں موجود طاقتور مل کر کمزور حریف کو اکھاڑے سے باہر اٹھا پھینکتے ہیں۔ جو اخیر میں بچ جاتا وہی کنگ آف دی رنگ ہوتا ہے۔ اس گتھم گتھی میں وہ گھمسان کا رن پڑتا ہے کہ کان پڑے آواز سنائی نہیں دیتی۔ اکھاڑے سے باہر انہیں دیکھنے والے جو تماشائی ہوتے، اچھل اچھل کر تالیاں بجانے والے، گلا پھاڑ پھاڑ کر چلانے والے، کبھی کوئی پہلوان دل پشوری کی غرض سے اپنی کوئی اترن ان کی جانب اچھال دیتا ہے تو یہ تماشائی دیوانہ وار اس پر لپک پڑتے ہیں۔

جس کہ ہاتھ یہ نعمت غیر مترقبہ لگتی وہ نادان خود کو اس اکھاڑے کا پہلوان سمجھنے لگتا ہے۔ خون گرماتی تماش بینی کی لت کچھ ایسی پڑتی کہ جب جب بھی میدان سجتا ہے یہ ساری جمع پونجی داؤ پر لگا کر، قطار میں لگ کر خود کو ٹکٹ خریدنے سے باز نہیں رکھ پاتے۔ اسی طرح نجانے کتنی صدیوں سے مخبوط الحواس تماش بینوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ٹکٹکی باندھ کر بار بار دہرائے جانے والا تماشا دیکھنے کو امڈ آتا ہے۔

اس ساری تمثیل کو ذرا اور قریب سے دیکھنا ہو تو ہمارے عظیم محنت کش پٹھان بھائی کے چائے کے ہوٹل پر موجود ”باہر والے“ کو دیکھیں۔ اس کا نام جو بھی ہو یہ کہلاتا ”باہر والا“ ہی ہے۔ یہ ہوٹل سے ہٹ کر بازاروں وغیرہ میں چائے سپلائی کرتا ہے۔ سارے دکاندار منہ کے ذائقے کے لئے اس کے محتاج ہوتے ہیں اور یہ بھی چائے کا تھال اٹھائے خود کو ہفت اقلیم کا بادشاہ اور نجانے کیا الا بلا سمجھنے لگتا ہے۔ چائے کا اصل منافع مالک کی جیب میں جاتا ہے جبکہ یہ باہر والا مرتے دم تک دیہاڑی دار ہی رہتا ہے۔ آسان بھاشا میں یوں سمجھیں کہ بارہواں کھلاڑی جو ٹیم کے ساتھ ہوتا ضرور ہے مگر فقط جوتے، پانی اور تولیہ اٹھانے کے واسطے۔

بابا نے صدیوں سے قائم خطہ زمین میں قومیت کی بنیاد پر موجود جغرافیائی حدوں کو ایک نئی ریاست کی صورت عطا کی۔ نعرہ مذہب کا تھا۔ اس پکار پر لبیک کہتے ہوئے زمین برد پرکھوں کو جھٹ سے ٹاٹا کیا اور پٹ سے دوڑ پڑے اور پھر یہاں پہنچ کر جو ہوا تاریخ کے پنوں پر جلی حروف سے رقم ہے۔ عہد شکنی کی قیمت چکانا کب آسان ہوا ہے۔

پھر چشم فلک نے یہ دلگیر منظر بھی دیکھا جب 71 میں اس جغرافیائی اکائی کے طویل رقبے پر محیط وہ قوم چھوٹی چھاتی جس کی پہچان تھی، واک آؤٹ کر گئی۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے سپر پاور نے انڈن کو ڈن کر ڈالا۔ بقول شخصے خس کم جہاں پاک۔ بالآخر غدار دفعان ہوئے اور محب وطن سرخرو۔ بندر بانٹ کا فارمولا وہی پرانا تھا، تقسیم کرو اور حکومت کرو، یعنی جس کی لاٹھی اس کی صرف کٹے سمیت بھینس ہی نہیں بلکہ سارے باڑے کا وہی مالک۔ کاش کہ ہم نے تاریخ سے کچھ سبق لیا ہوتا۔ یہ جانا ہوتا کہ جہاں ریاست کا معیار طاقت اور جبر ہوتا ہو، وہاں رائل رمبل ہی ہوا کرتی ہے۔ عددی اکثریت، میرٹ اور انصاف خام خیالی۔

مراکز اختیارات کی سمت مراجعت کرتے ہوئے اقبال سے ازحد معذرت کے ساتھ،

کھول آنکھ، فلک دیکھ، زمیں دیکھ، پانی دیکھ، دیکھ کہ ملی نغموں کی گھن گرج کی گرما گرم گونج میں اس جغرافیائی اکائی کے ہر ہر حصے میں شمال تا جنوب، کیسے کیسے صالحین و مومنین مردان حق کا دور دورہ ہے۔ دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں۔ ہن ہی ہن برستا ہے، راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔

سیانے کہتے ہیں بہترین غلام بدترین آقا ہوا کرتا ہے۔ لہذا اذن عام ہے! ابے اوئے سن! بالا بالا ہے، فیکا فیکا ہے، ماجھا ماجھا ہے اور شیدا شیدا۔ ۔ ۔ کچھ کرے۔ ۔ ۔ نہ کرے۔ لیکن تو! اوقات میں رہ۔ ۔ ۔ ورنہ۔ ۔ ۔ خبردار! جو تھپکی شدہ بڑبڑیوں کے کاندھوں سے اچکنے کی جرات کی۔ گندے نالوں کا بدبو دار پانی، غلاظت کے ڈھیرم ڈھیر، کھنڈر سڑکیں، ٹوٹی پھوٹی بسیں، لوڈشیڈنگ، اوور بلنگ، غنڈہ راج، نا انصافی، نوکریوں کا کال، صحت کی مخدوش صورت حال اور وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ۔ اب یہی سب تمہارا مقدر ہیں۔ تم چیخو، چلاؤ، تالیاں بجاؤ، ڈوب مرو، غرق ہو جاؤ غرض کہ بھاڑ میں جاؤ۔ باتیں تو اور بھی ہیں مگر جاتے جاتے تمہیں اک راز کی بات بتاؤں؟ تمہارے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).