پی ایچ ڈی سکالر: ڈگری کے بوجھ تلے


انسان دنیا میں آتے ہی کسی طرح بوجھ تلے زندگی کی شروعات کرتا ہے۔ یہ بوجھ ذہنی، جسمانی، جذباتی اور معاشرتی پریشانیوں اور مصروفیات کے علاوہ ایسے غیر مرئی اجسام، واقعات، حالات اور تصورات کا بھی ہوتا ہے جس کا انسان لاشعوری اور غیر محسوس طریقے سے شکار ہو جاتا ہے اور کبھی کبھی انسان اپنا بوجھ بھی برداشت نہیں کر سکتا اور اس بوجھ تلے دب کر اسے اپنا خود بھی بوجھ لگنے لگتا ہے۔ یہاں ہم اسی طرح ایک بوجھ کا سہ رویہ جائزہ لیتے ہیں، جو کہ پی ایچ ڈی ڈگری کا بوجھ ہے اور جو کہ ایک طرف کاغذی سند اور دوسری طرف لیاقت، استعداد، قابلیت اور علم کی عکاس ہے۔

یوں تو ڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگری اتنی بڑی ڈگری ہے کہ اس کے حامل افراد میں سے اکثریت اس کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کاغذی سند اور تعلیمی لیاقت اور استعداد میں زمین آسمان کا فرق ہے اور ہمارے بعض پروفیسرز صاحبان تو صرف اس بات پر فور اور فائیو سٹار ہوٹلوں میں شامیں مناتے ہیں کہ انہوں نے پی ایچ ڈی ڈگریوں کی مشینیں نصب کی ہیں اور بڑی رعونت اور فخریہ انداز سے ببانگ دہل کہتے ہیں کہ انہوں نے سب سے زیادہ پی ایچ ڈی سپروائز کر کے پیدا کیے ہیں اور ناظرین سے زبردستی تالیاں بجواتے ہیں، اور ان کو اپنے اس احمقانہ اور مکروہ عمل پر شرم بھی نہیں آتی کیونکہ ان کی نظر میں ”سپروائزر صاحب کے نام ایک شام“ میں شریک خواتین و حضرات بڑے بے وقوف اور سادہ ہوتے ہیں۔

اگر چہ اس شام رنگین میں ایسے عالم و فاضل بھی شریک ہوتے ہیں جو کہ ان صاحبان کی بے وقوفی پر زیر لب ہنستے ہوئے از روئے احترام خاموش رہتے ہیں، لیکن یہ نام نہاد سپروائزرز، پی ایچ ڈی ڈگریوں کی مشینوں کے آپریٹرز اس خوش گمانی میں مبتلا یہ سوچتے ہیں کہ یہ سارے شرکاء چوپائے ہی تو ہیں۔ وائے جنت الحمقا میں رہنے والے نام نہاد سپروائزرز! لیکن:

”جو تو نے دیا ہے وہی لوٹائیں گے تجھ کو
ہم سے تو امانت میں خیانت نہیں ہوتی ”

پی ایچ ڈی کے بوجھ کا ذکر کرنے سے پہلے ان صاحبان علم سے میرا یہ سوال ہے کہ کیا آپ نے ان کو کاغذی اسناد تھما دیے ہیں یا ان میں واقعی اس سطح کی قابلیت، لیاقت، علم، بصیرت، استعداد، اہلیت، صلاحیت اور دیگر قابل ذکر خوبیاں بھی پیدا کی ہیں؟ اگر ان میں سے کسی ایک آدھ میں خال خال قابلیت ہے بھی تو بدقسمتی یہ ہے کہ ہر جگہ خوشامدی خواتین و حضرات نظر آتے ہیں اور ساتھ ساتھ ہمارے پی ایچ ڈی کے سپروائزرز صاحبان تحفے تحائف اور دیگر نا تراشیدہ جبلی آرزوؤں کے علاوہ خوشامد کے بھی بھوکے ہوتے ہیں، جس کا سکالرز پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔

اور جن سکالرز میں تھوڑی بہت عزت نفس اور خودی ہوتی ہے وہ ان صاحبان کے منظور نظر سکالرز کے مقابلے میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اگرچہ ان صاحبان میں ایسے قابل احترام انسانیت کے خصائل سے معمور سپروائزرز بھی ہیں جن کو شاگرد اپنے بیٹوں اور بیٹیوں سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں، لیکن ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

اس ابتدائیہ تعریف و تعریض کے بعد ہم یہ گوش گزار کرنا چاہتے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ ہمارے بیچارے پی ایچ ڈی حضرات اس ڈگری کے بوجھ تلے دب کے نہ کام کے، نہ دام کے رہ جاتے ہیں؟ اور یہ کہ ہمارے یہ ڈگری یافتہ افراد اس تعلیمی قابلیت سے عاری کیوں ہیں جو اس لیول کا مقصد اور ہدف ہے؟

کوالٹی کی تلاش کرتے ہوئے آپ کو مختلف فیلڈز میں، چاہے نیچرل سائنسز کا میدان ہو یا سوشل سائنسز کا، زبان و ادب کا میدان ہو یا فنون کا، ایسے بڑے بڑے پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈرز دستار بردار ملیں گے جو جانتے کچھ بھی نہیں اور مستزاد یہ کہ اپنی عیاری اور مکاری سے بڑے بڑے عہدے بھی اپنے نام کرواتے ہیں۔ ہمیں ان کے عہدوں سے کیا لینا دینا لیکن جس بات سے ہم کڑھتے ہیں وہ ان کی نالائقی ہے۔ اور غم یہ کہ آخر ان کو یہ ڈگری دی کس نے؟ میرے خیال میں ان کے سپروائزرز ناقابل معافی جرم کے مرتکب ہیں اور ایسے لوگوں کو سزا دینی چاہیے جو وطن کے مستقبل سے تعلیمی اداروں میں کھلواڑ کرکے کوالٹی ایجوکیشن کے تصور تک ہی کو برباد کرتے ہیں۔

ہمارے پی ایچ ڈی بیچاروں کا مقصد تو کسی نہ کسی طرح کاغذی سند کا حصول ہوتا ہے تاکہ تھیسس کا ڈیفنس ہوتے ہی اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا لفظ چسپاں کریں اور اس کے لئے وہ تمام حربے استعمال کرتے ہیں۔ تھیسس کے ڈیفنس کے دوران بھی ایک غیر معیاری جانچ کے سبب صرف گپ لگایا جا تا ہے جو کہ ہرزہ سرائی اور ہرزہ گوئی کا گرد آلود بے ہنگم دھواں ہوتا ہے، کیوں کہ اس دوران بھی سپروائزرز کے منظور نظر سکالرز کامیاب قرار پاتے ہیں اور باقیوں کو صرف دشنام آمیز طعنے ملتے ہیں۔

اس ظلم کی وجہ سے اکثر ایسی فیمیل سکالرز پی ایچ ڈی ادھوری چھوڑ کر یونیورسٹی سے رسٹیکیٹ ہو جاتی ہیں، جن کو اپنی اور اپنے خاندان کی عزت اور شرم کا پاس ہوتا ہے۔ سپروائزرز کے علاوہ یونیورسٹی ڈپارٹمنٹس کے منتظمین کا بھی کوالٹی ایجوکیشن کو فروغ دینے میں کوئی خاص قابل ذکر کردار نہیں ہے اور چونکہ یہ ایک خودمختار ادارہ ہوتا ہے اس لیے اپنے حقوق کے حصول کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے جو کہ غریب طلباء وطالبات کے بس کا کام نہیں ہوتا۔

اگر ہم غور کریں تو ایک طرف یہ ڈگری ہولڈرز تو اس ڈگری کے موافق قابلیت سے خالی ہوتے ہیں اور دوسری طرف ان کا ریسرچ ورک بھی تعلیمی میدان میں کوئی خاص قابل قدر اضافہ نہیں ہوتا جس کی کوئی پریکٹیکل اور فنکشنل اہمیت ہو۔ ان میں سے اکثر کا ریسرچ ورک یا تو پہلے سے موجودہ مقالات میں جملوں کے ہیر پھیر کے ساتھ ایک چربہ ہوتا ہے یا ایسے ہی غیر معیاری ناقابل عمل تھیسس کا پلندہ ہوتا ہے جو کہ لائبریری کے شلفس کی زینت بن جاتا ہے لیکن کوئی خاص امتیازی حیثیت نہیں رکھتا۔

نہ یونیورسٹی لیول کے ریسرچرز میں اور نہ ان کے سپروائزر میں وہ کائناتی اقدار اور صفات باقی ہیں جن کی وجہ سے تعلیمی مینار ہمیشہ روشن ہوا کرتے تھے۔ آج کے دور میں اس لیول کی تعلیم صرف فارملٹی بنی ہے اور ان سے منسلکہ اہلکاروں میں وہ خلوص اور جدوجہد باقی نہیں رہی جس سے تعلیمی انقلاب کا خواب پورا ہو سکے۔

ہمارے ہاں پی ایچ ڈی ڈگری والوں میں ایسے افراد بھی ہیں جن کے پاس کاغذی سند تو ہے اور اپنے ناموں کے ساتھ ”ڈاکٹر، ڈاکٹر“ لکھتے تھکتے نہیں مگر ان کے پاس اپنے ریسرچ فیلڈ میں نہ تو کسی قسم کی استعداد ہوتی ہے، نہ لیاقت، نہ قابلیت اور نہ صلاحیت۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان کے ریسرچ سے علم کے میدان میں انقلاب بر پا ہوگا۔ مجھے تو ایسے پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈرز اور ان کے سپروائزرز پر افسوس آتا ہے کہ ملک و قوم کو ان کے ریسرچز کا کیا فائدہ؟ صرف کاغذی ضخامت روز بروز بڑھتی جاتی ہے۔

اگر ہم اپنے اردگرد ترقی یافتہ ممالک کے یونیورسٹی لیول تعلیمی معیار پر نظر ڈالیں تو وہاں پر ریسرچ میں ایسے ایسے ماڈلز اور نئے نظریات تخلیق کیے جاتے ہیں جن کا پریکٹیکل لائف میں اور متعلقہ فیلڈز میں مختلف النوع مسائل کے حل میں ایک نمایاں رول ہوتا ہے۔

یہ تو تھی ہمارے مقامی انڈیجینس پی ایچ ڈی کی صورت حال، لیکن بیرونی ممالک سے پی ایچ ڈی کرنے والوں کی اکثریت کی حالت بھی مقامی سکالرز سے ملتی جلتی ہے اور میری نظر میں تو یہ فارن ریٹرنڈ بھی مقامی سکالرز سے زیادہ لائق نہیں ہیں، بلکہ استعداد اور صلاحیت میں ان سے کم تر ہیں۔ ویسے فارن ڈگری کا نام سن کر ہمارے بڑے بڑوں کے پاؤں کانپنے لگتے ہیں اگرچہ ان کے پاس بھی صرف کاغذی ڈگری کے علاوہ کوئی خاص امتیازی کچھ نہیں ہوتا۔ اگر ان سے کوئی پوچھے کہ آپ کے ریسرچ سے کیا تبدیلی آئی ہے یا آئے گی تو مجھے یقین ہے ان کے پاس جواب ”نہیں“ ہوگا۔ مجھے اکبر الہ آبادی نے کا یہ طنزیہ شعر یاد آ رہا کہ:

مرعوب ہو رہے ہیں ولایت سے شیخ جی
اب صرف منع کرتے ہیں دیسی شراب کو

پی ایچ ڈی سکالرز کی اس ناگفتہ بہ حالت کے ذمہ دار جتنے یونیورسٹی کے منتظمین ہیں اتنے ہی یہ طلباء وطالبات خود بھی ہیں۔ اس ظلم میں ان کے ساتھ ان کے سپروائزرز اور انٹرنل اور ایکسٹرنل ایگزامنرز بھی برابر کے شریک ہیں۔ پاکستان میں یونیورسٹی ریسرچ بری طرح سے فیل ہو چکی ہے کیونکہ یہ مطلوبہ رزلٹ دینے اور قومی تعلیمی مقاصد کے حصول میں بری طرح ناکام ہے۔ آپ کی ملاقات جب بھی کسی پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر سے ہو جائے تو آپ اس سے یہ سوال ضرور پوچھیں کہ آپ کی ریسرچ نے کون کون سے gaps کو bridge یا fill کیا ہے؟ مجھے یقین ہے آپ کو جواب نفی میں ہی ملے گا۔

یونیورسٹی ریسرچ کے ٹاپک سیلکشن، ریسرچ پروپوزل اور ان کے ابتدائی ڈیفنس اور منظوری میں برائے نام فارملٹیز سے سکالرز کو صرف پریشان کیا جاتا ہے اور فائدہ صفر ہوتا ہے۔ دوسری طرف اس حوالے سے گائنڈس کا بھی بہت برا حال ہے، اکثر سکالرز کا ناجائز استحصال بھی ہوتا ہے اور ان میں جو حساس افراد ہوتے ہیں وہ پی ایچ ڈی کو خیر باد کہہ کر ادھورا چھوڑ جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ یونیورسٹی اساتذہ کے آپس میں حسد، اختلافات اور رسہ کشی بھی تحقیق اور تھیسس کے معیار اور کوالٹی کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔

خلاصہ تحریر یہ کہ ہمارے پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈرز ڈاکٹران صاحبان میں سے اکثریت ان سپروائزرز کی طرح قابلیت کے حامل ہوتے ہیں جنہوں نے پی ایچ ڈیز پیدا کرنے کی مشینیں لگائی ہیں اور یہ آپریٹرز اپنی جیسی لیاقت و استعداد سکالر میں ٹرانسمٹ کرتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں اگرچہ ان نام نہاد سپروائزرز کو شرم سے چلو بھر پانی میں ڈوب کے مر نا چاہیے جن کی پیداوار اہلیت سے خالی برائے نام ڈاکٹرز ہیں۔ آ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).