ایک نصاب، ایک کتاب، ایک جیسے روبوٹ – مکمل کالم


سنا ہے ملک میں یکساں نصاب تعلیم لاگو ہونے جا رہا ہے، سنا ہے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ کام ہوا ہے، سنا ہے کہ پورے ملک کے بچے آئندہ ایک ہی نصاب پڑھیں گے اور یہ بھی سنا ہے کہ اس کے بعد پوری قوم ایک سانچے میں ڈھل جائے گی۔ اللہ مبارک کرے!

ہمارے ملک میں شاید ہی کوئی نعرہ اتنا گمراہ کن ہو جتنا یکساں نصاب تعلیم کا نعرہ۔ میں نے آج تک جتنے لوگوں سے اس نعرے کا مطلب پوچھا ہے ان سب نے مختلف جواب دیے ہیں۔ فدوی کا سوال ہوتا ہے کہ کیا اس نعرے کا مطلب ایسا نصاب تیار کرنا ہے جو پورے ملک میں یکساں طور پر نافذ کیا جا سکے تو جواب ملتا ہے کہ ہاں۔ مگر یہ جواب حقیقت پر مبنی نہیں کیونکہ یکساں نصاب تو پہلے سے موجود ہے جسے قومی نصاب کہتے ہیں اور اس نصاب میں تمام درجوں کے مضامین کے لیے پوری تفصیل اور جزئیات کے ساتھ learning outcome بتائے گئے ہیں اور مثالوں سے واضح کیا گیا ہے کہ کسی مضمون کو پڑھنے کے بعد بچے میں کس معیار کی تعلیمی قابلیت پیدا ہو جانی چاہیے۔

مثلاً پانچویں جماعت کے انگریزی مضمون کے لیے یہ learning outcome ضروری ہے کہ بچہ چھوٹے چھوٹے سادہ جملے بنا سکے اور ان کا مطلب بھی سمجھ سکے۔ قابلیت کا یہ معیار پورے ملک کے بچوں کے لیے یکساں ہے۔ مگر یہ بات سب جانتے ہیں کہ سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچے انگریزی تو دور کی بات اردو میں ڈھنگ کا جملہ نہیں لکھ سکتے جبکہ گرامر اسکول میں پانچویں جماعت کا بچہ انگریزی میں تقریر کرتا پھرتا ہے۔

اس مرحلے پر یکساں نصاب والے نعرے میں ترمیم کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اصل میں غریبوں کے بچے سرکاری ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابیں پڑھتے ہیں اور امیروں کے بچے آکسفورڈ کیمبرج کی مہنگی کتابیں، اسی تفریق کی وجہ سے قومیں برباد ہو جاتی ہیں، لہذا ہر اسکول میں ایک جیسی کتابیں پڑھائی جانی چاہئیں تاکہ پوری قوم ایک سانچے میں ڈھل جائے، نہ کوئی بندہ رہے نہ کوئی بندہ نواز۔

یہ بات بظاہر جس قدر دلچسپ اور خوش کن لگتی ہے اتنی ہی گمراہ کن ہے۔ اس ملک کے آزاد شہریوں کوایک سانچے میں ڈھالنے کی خواہش ہماری بہت پرانی ہے لیکن بدقسمتی سے ایسا کوئی سانچہ نہیں مل رہا جس میں ہم ان بائیس کروڑ انسانوں کو ڈھال کر روبوٹ بنا سکیں، ایسے سانچے نل بنانے والے کارخانوں کے لیے ہوتے ہیں، سوچنے سمجھنے والے انسانوں کے لیے نہیں۔ جب بات یہاں تک پہنچتی ہے تو یکساں نصاب کے نعرے کو یکساں نظام تعلیم کے نعرے میں بدل دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اصل میں ہم ایسا نظام چاہتے ہیں جس میں امیر اور غریب کا بچہ ایک جیسی معیاری تعلیم حاصل کر سکے۔ بہت اچھی بات ہے۔ مگر پھر یہ سوال نظام تعلیم کا نہیں رہتا بلکہ یہ سوال طبقاتی تفریق کا بن جاتا ہے۔ سرکاری اسپتال، سرکاری اسکول اور سرکاری بسوں کے مقابلے میں کون نہیں چاہے گا کہ ضرورت پڑنے پر اس کے پاس فائیو سٹار اسپتال، گرامر اسکول اور ذاتی مرسڈیز کی سہولت موجود نہ ہو!

اصل میں یہ خلط مبحث ہے۔ جس نئے یکساں نصاب کا ہم ڈھنڈورا پیٹ کر کہہ رہے ہیں کہ یہ کام ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے وہ نصاب پہلے سے موجود ہے، فرق صرف یہ ہے کہ اس کے learning outcome کو بہتر بنایا جا رہا ہے جو کہ اچھی بات ہے۔ مگر آپ learning outcome جو بھی مقرر کر لیں جب تک سرکاری اسکول کا بچہ قابلیت کا مطلوبہ معیار حاصل نہیں کر پائے گا، کاغذوں میں لکھی ہوئی یہ باتیں بے معنی رہیں گی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مہنگے گرامر اسکولوں کے بچے اس معیار کو پھلانگ کر آگے نکل رہے ہیں تو کیا ہم چاہتے ہیں کہ وہ سرکاری اسکولوں کے برابر آ جائیں؟ یقیناً نہیں، بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ سرکاری اسکول کا بچہ ان کے برابر پہنچ جائے۔ اس کے لیے ان اسکولوں کو وسائل مہیا کر نے پڑیں گے اور قابل اساتذہ کا دلجمعی سے بچوں کو پڑھانا یقینی بنانا پڑے گا۔ مڈل کلاس والدین اپنے بچے کو محلے کے نجی اسکول میں بھیجنا پسند کرتے ہیں حالانکہ سرکاری اسکول کی فیس بھی نہیں ہوتی اور عمارت بھی پر شکوہ ہوتی ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ اپنے بچے کو صاف ستھرا یونیفارم پہنے اور بستے میں آکسفورڈ کی کتابیں ٹھونستے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں حالانکہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی تعلیمی قابلیت نجی اسکولوں کی عموماً مظلوم استانیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہے۔

یکساں نصاب کی یہ بحث اس لیے بھی گمراہ کن ہے کہ آپ جیسا بھی نصاب بنا لیں یا تمام اسکولوں میں ایک جیسی نصابی کتب لازمی کر دیں، والدین حسب استطاعت اپنے بچوں کو گرامر اسکول، او لیول یا پھر باہر پڑھنے کے لیے بھیجیں گے اور آپ کسی سے یہ حق نہیں یکساں نظام تعلیم کے نام پر نہیں چھین سکتے۔ مگر ان تمام باتوں کا یہ مطلب نہیں کہ ایک نصاب بنانے کی حالیہ مشق بالکل ہی لا حاصل ہے، اس کے کچھ مثبت پہلو بھی ہیں۔

مثلاً حکومت نے قومی نصاب کی روشنی میں کچی سے پانچویں جماعت تک ہر مضمون کے لیے ماڈل نصابی کتب تشکیل دی ہیں، اسکول چاہیں تو یہ کتب استعمال کر سکتے ہیں یا پھر اسی معیار کی کتب بچوں کو پڑھا سکتے ہیں۔ یہ تجویز بھی ہے کہ سرکاری کے ساتھ ساتھ گرامر اسکولوں کے بچوں کے لیے بھی مڈل کا امتحان پاس کرنا ضروری ہوگا، جبکہ مستقبل میں سرکاری امتحانات کیمبرج وغیرہ کی طرز پر لیے جائیں گے۔ ہنوز دلی دور است۔ تاہم سب سے خوش آئند بات مدرسوں کو اس تعلیمی دھارے میں شامل کرنا ہے، اب مدرسے کے بچوں کے لیے بھی سرکاری بورڈ کا امتحان پاس کرنا ضروری ہوگا۔ مگر مدرسوں نے یہ بات مفت میں نہیں مانی، اس کے عوض ان کے کئی مطالبات کو تسلیم کیا گیا ہے اور قومی نصاب کی تشکیل ان مطالبات کی روشنی میں کی گئی ہے۔

میرا تعلق اس نسل سے ہے جس نے اسکول میں پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابیں پڑھی تھیں، اس وقت مہنگے گرامر اسکولوں کا رواج عام نہیں ہوا تھا، بلکہ سرکاری اسکولوں کے بچے ہی بورڈ میں پوزیشن حاصل کرتے تھے۔ ان تمام بچوں نے ایک ہی نصاب اور ایک ہی قسم کی کتابیں پڑھی ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ ہماری نسل نے ایسا کون سا تیر مار لیا جو آج کے بچے نہیں مار پا رہے؟ یہ درست ہے کہ اس وقت کا میٹرک پاس آج کے میٹرک پاس کے مقابلے میں زیادہ لائق فائق ہے مگر اس کی وجہ یکساں نصاب نہیں تھی بلکہ اس کی وجہ سرکاری اسکولوں کا اعلی معیار تعلیم تھا۔ اور یہ مغالطہ بھی نہ جانے کیوں ہم نے پال لیا ہے کہ پوری قوم کے بچوں کو ایک جیسی کتابیں پڑھانی چاہئیں تاکہ ایک قومی سوچ پروان چڑھے، عظیم قوم بنانے کا یہ نسخہ کیمیا پتا نہیں کس حکیم لقمان نے ایجاد کیا تھا۔

ہم اپنے بچوں کو چاہے سرکاری نصابی کتب پڑھائیں یا آکسفورڈ کی مہنگی کتابیں، اس وقت تک کوئی فرق نہیں پڑے گا جب تک ہم دو کام نہیں کریں۔ ایک، اسکول میں بچوں کی کردار سازی، دوسرے، سوال کرنے اور تنقیدی شعور پروان چڑھانے کی آزادی۔ فی الحال یہ دونوں کام ہماری ترجیحات میں شامل نہیں۔ والدین بچے کے رزلٹ کارڈ میں صرف گریڈ دیکھتے ہیں، ویسے بھی کردار سازی کا کوئی پرچہ ہوتا ہے اور نہ کوئی اسکول اس بارے میں کوئی درجہ بندی کرتا ہے۔ رہی بات سوال اٹھانے کی، تو جو سلوک ہم سوال اٹھانے والوں کے ساتھ کرتے ہیں، اس کے بعد کوئی احمق ہی ہوگا جو اس ملک میں رہتے ہوئے سوال اٹھائے گا۔ اس کے بعد آپ جو بھی پڑھائیں گے اس کے نتیجے میں روبوٹ ہی پیدا ہوں گے، ان سے اگر قوم بنتی ہے تو ضرور بنا لیں۔ اللہ مبارک کرے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada