کراچی سسک رہا ہے


پرانے زمانے کا ذکر ہے کہ ایک سلطنت میں خلاف معمول بہت بارشیں ہوئیں، لوگوں کے گھر، مویشی سب بہہ گئے، فصلیں تباہ ہو گئیں اور رعایا فاقوں پر آ گئی تو بھوکی ننگی رعایا، روتے دھوتے، دوڑی دوڑی بادشاہ وقت کے پاس مدد کے لیے پہنچی اور ساری صورتحال سے بادشاہ کو آگاہ کیا۔ اپنی رعایا کا یہ حال جان کر بادشاہ بہت فکرمند ہو گیا اور اس نے اسی دن اپنے تمام قابل اور ذہین وزراء کو دربار میں طلب کیا اور اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے کا حکم دیا۔

اگلے ہی دن تمام وزراء اپنے اپنے مشوروں کے ساتھ حاضر ہو گئے۔ کسی نے کچھ مشورہ دیا تو کسی نے کچھ۔ بادشاہ نے سب کو بغور سنا اور پھر اس کو اپنے ایک وزیر کا مشورہ بے حد پسند آیا اور اس نے اس پر فوری عملدرآمد کے فرمان جاری کر دیے۔ دن رات ایک کر کے اس منصوبے پر کام شروع ہوا اور پھر کچھ ہی مہینوں کے اندر رعایا نے دیکھا کہ بادشاہ اپنے پورے خاندان کے ساتھ دن رات محنت سے تیار ہونے والے اونچے اور پرشکوہ محل میں قدم رنجہ فرما رہا تھا جس میں بارش کے سیلابی پانی کا داخلہ ناممکن تھا۔ بادشاہ نے عقلمندی سے اپنا محل، اپنا خاندان اپنا سرمایہ محفوظ کر لیا تھا۔

اس قصے کے بعد اصولاً مزید کچھ لکھنا باقی نہیں رہ جاتا کہ آپ سب ہی سمجھ سکتے ہیں کہ اشارہ کس جانب ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بارشیں رحمت ہوتی ہیں اور قدرتی سسٹم کا ایک حصہ ہوتی ہیں۔ ایکو سسٹم کو ہر طرح سے متوازن اور برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔ لیکن ان بارشوں کا نہ ہونا بھی مشکل اور زیادہ برسنا بھی مشکل، خصوصاً جب بات کراچی جیسے کاسمو پولیٹن شہر کی ہو جو بغیر کسی منصوبہ بندی کے ہر سال اپنی آبادی کے ساتھ بڑھتا ہی جا رہا ہے اور جس کا کوئی پرسان حال ہی نہیں۔

حالیہ بارشوں نے کراچی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ہمیشہ کی طرح یہ بارشیں غریب کے لیے تو مشکل ثابت ہوئیں ہی لیکن اس دفعہ امیر طبقے نے بھی بارشوں سے ہونے والی تباہی کو بھگتا ہے۔ شہر کے پوش علاقوں کے مکین اپنے گھروں میں داخل گھٹنوں گھٹنوں پانی میں محصور ہو کر رہ گئے۔ گھروں کا قیمتی سامان، الیکٹرانک اشیاء اور فرنیچر پانی سے خراب ہو گئے، گلیوں میں کھڑی ہوئی قیمتی گاڑیوں تک کو بہتا ہوا دیکھا گیا اور افسوس اس بات کا ہے کہ ان بارشوں میں مالی املاک کے ساتھ ساتھ قیمتی جانوں کا بھی ان اداروں کی غفلت اور لاپرواہی کے باعث نقصان ہوا۔ ہر بارش میں کتنے ہی لوگ کرنٹ لگنے سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

شہر کراچی تو ویسے بھی اللہ توکل پر چل رہا ہے۔ سیاستدانوں کی طرف سے اس شہر کی تعمیر و ترقی کے ہمیشہ دعوے ہی کیے گئے ہیں، لیکن کبھی عملی اقدامات ہوتے ہوئے نظر نہیں آئے۔ کراچی الیکٹرک کی کارکردگی ہر بارش میں نئے سوالات کھڑے کر دیتی ہے۔ بارش کی پہلی بوند پر غائب ہونے والی بجلی دو دو دن تک غائب ہو جاتی ہے۔ عوام گرمی، حبس اور بارش میں بالکل بے یارو مددگار نظر آتے ہیں۔ پچھلی بارشوں میں کرنٹ لگنے سے ہونے والی ہلاکتوں کا غم آج تک تازہ ہے۔ اور اس سے بڑا غم پوری دنیا میں ہونے والی وہ جگ ہنسائی تھی جس میں بجلی جیسی سہولت کو ادارے کی غفلت اور لاپرواہی کے سبب اتنے بڑے پیمانے پر انسانی جان لیتے ہوئے دیکھا گیا۔

کراچی میں اس دفعہ معمول سے زیادہ بارشوں کی بہت پہلے ہی پیشن گوئی کردی گئی تھی اور ساتھ ہی ساتھ حکومت کی جانب سے بھی وارننگ جاری کر دی گئی تھی۔ لیکن شاید یہ وارننگ بس عوام کو خبردار کرنے کے لیے ہی تھی اعلیٰ حکام خود الرٹ ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیے۔ خلاف معمول زیادہ بارشوں سے نمٹنے کی نہ ہی کوئی حکمت عملی تیار نہیں کی گئی اور نہ ہی کہیں کوئی عوامی نمائندہ عوام کے لیے پریشان ہوتا ہوا نظر آیا۔

ایک عام فہم و فراست رکھنے والا آدمی بھی جانتا ہے کہ شہر میں پانی تبھی بھرتا ہے جب اس پانی کو شہر سے باہر نکلنے کا راستہ نہ ملے۔ کچھ دیر تک پانی رکنا نارمل بات ہے لیکن پورا شہر چند گھنٹوں کی بارش سے ڈوب جانا بہت بڑی بات ہے کیونکہ پھر یہ ذمہ داروں کی پول پٹی کھول دیتی ہے اور یہیں سے بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں کہ بارش کے پانی کو باہر نکلنے کے راستے کیوں نہ ملے؟ کیوں پانی گھروں کے اندر داخل ہوا؟ کیوں آدھے گھنٹے کی بارش میں سڑکیں دریاؤں کا منظر پیش کرنے لگیں؟ کیوں آبادیاں جھیلوں کی تصویر پیش کرنے لگیں؟

آخر کیا وجہ ہے کہ جس بارش کے برسنے کی شہری خوشی خوشی دعائیں کرتے رہتے تھے اب اس کے تھم جانے کے لیے فکرمند نظر آتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر عالم سرشاری میں جہاں برساتی پکوان اور گیتوں کی پوسٹس لگائی جاتی تھیں آج وہاں پریشانی، فکرمندی اور دعاؤں کے ساتھ شہر کے جھیل میں بدل جانے کی تصاویر اور وڈیوز لگائی جا رہی ہیں۔

کراچی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کراچی کو ٹکڑے کر کر کے ریوڑیوں کی شکل میں اداروں کو بانٹا گیا ہے۔ کچھ حصہ کنٹونمنٹ کی ذمہ داری تو کچھ حصہ بلدیاتی اداروں اور وفاق کی نگرانی میں دیا گیا ہے۔

احتجاج کراچی کو بندر بانٹ کرنے پر نہیں ہے بلکہ ان اداروں سے وابستہ حکام کی اس سوچ پر ہے جو اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے سے پہلے اور عملی شکل دینے سے پہلے دوسرے اداروں کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہ ادارہ فعال ہوگا تو ہم کام کریں گے ورنہ کیا ضرورت ہے اتنی محنت کرنے کی۔ دراصل اسی بے حسی، خود غرضی اور مصلحت پسندانہ سوچ نے کراچی کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔

ایسا کیوں ہوتا ہے کہ پانی جب پلوں کے نیچے سے بہہ جاتا ہے تبھی ارباب اقتدار کو ہوش آتا ہے۔ رین ایمرجنسی نافذ کر دینا مسئلے کا حل نہیں مسئلے کو ابتدا سے ہی منصوبہ بندی سے لے کر چلنا اصل کام ہے۔ گزشتہ دو تین سالوں سے جب یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ پوری دنیا کی آب و ہوا تبدیل ہوتی جا رہی ہے اور بارشوں میں بھی قدرتی اضافہ ہوتا جا رہا ہے تو ان سب انٹرنیشنل ریسرچ رپورٹس کو کیوں پڑھ کر اور آنکھیں بند کر کے ایک طرف ڈال دیا جا رہا ہے؟ کیوں طویل المیعاد منصوبوں کے ذریعے اس قدرتی ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو تیار نہیں کیا جا رہا؟ کیا ہر بار ہم تباہی اور بربادی ہونے کے بعد نافذ کی جانے والی ایمرجینسی صورتحال پر ہی متحرک ہوں گے یا متحد ہوں گے؟

کراچی پاکستان کا وہ شہر ہے جو پورے ملک کی تعمیر و ترقی میں ہمیشہ معاون رہا، کیوں کہ کراچی شہر اتنا ریونیو دیتا ہے جو پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن نظرانداز کر کر کے اگر اسی کی اپنی کمر توڑ دی جائے تو یہ کہاں کا انصاف ہے؟

یہاں کراچی کی تباہی کا سارا کا سارا ملبہ حکومت اور اداروں پر ہی ڈالنا مقصود نہیں ہے بلکہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس حالیہ تباہی کے بڑے حد تک ذمہ دار عوام بھی ہیں۔

صفائی نصف ایمان ہے کا سبق اور علم لینے والی قوم اس حدیث کی اصل روح اور تلقین سے کوسوں دور ہے۔ ہم اپنا گھر صاف کرنے تک کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں لیکن اس صفائی کے بعد اس کچرے کو ٹھکانے لگانے کے معاملے میں سنگین غفلت کا شکار نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کچرا ڈسٹ بن میں ڈالنے کی بجائے ڈسٹ بن کے باہر پھینک کر، یا چلتی گاڑی سے روڈ پر پھینک کر لاپرواہی سے آگے بڑھ جاتے ہیں، پیچھے دیکھے بغیر کہ ایک چھوٹا سا عمل بحیثیت مجموعی ایک قوم کے ہماری اجتماعی سوچ کا اظہار کر رہا ہے۔

یہی لاپرواہی کی نذر ہونے والا کچرا چھوٹے پیمانے سے گٹروں اور چھوٹے اور بڑے گندے نالوں میں پھنس کر اور مستقل جمع ہو کر نکاسی آب کو روکنا شروع کر دیتا ہے۔ عام حالات میں ہی ان نالوں اور گٹروں کا پانی اکثر ابل ابل کر سڑکوں اور گلیوں میں بہتا ہوا نظر آتا ہے لیکن یہ صورتحال اس وقت خوفناک ہو گئی جب ان رکاوٹوں کی وجہ سے بارش کے پانی کو بہنے کی جگہ نہیں ملی تو ظاہر ہے وہ انہی علاقوں میں بھرتا جائے گا، نکلے گا کیسے۔ تو دیکھا جائے تو کراچی کی اس بربادی میں عوام بھی اتنے ہی شامل ہیں جتنا کہ حکومت یا ذمہ داران۔

مرے پر سو درے یہ کہ وقت کے ساتھ ساتھ آبادی میں بے تحاشا پھیلاؤ نے رہائشی مسائل کو جنم دیا اور ندی نالوں پر غیر قانونی گھروں کی تعمیر کے ساتھ ان کی گنجائش میں رکاوٹ پیدا کر دی گئی۔ اس میں بھی ذمہ داری عوام اور حکومت کی بنتی ہے کہ عوام نے غیر قانونی گھر بنائے کیوں اور ذمہ دار اداروں نے ان غیر قانونی گھروں کو مسمار کر کے ایسی آبادیوں کی حوصلہ شکنی کیوں نہیں کی۔ یہ حقیقت ہے کہ مسئلہ ایک دو مہینوں یا سالوں کا نہیں ہے۔

عوامی سطح سے نکلا جائے تو صاحب اقتدار اور با اختیار اپنے پاس اختیارات اور فنڈز میں کمی کا رونا روتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہر صاحب اختیار کے پاس کراچی کے لیے کچھ نہ کر سکنے کی وجہ موجود ہے اور جب کچھ سمجھ نہیں آتا تو سارا ملبہ پچھلی حکومتوں پر ڈال دیا جاتا ہے جو خود کئی کئی برسوں اقتدار میں رہیں اور اقتدار میں رہ کر بھی کچھ نہ کر سکیں۔

متواتر چلنے والی ان بارشوں سے ہونے والی تباہی پر کراچی کے عوام حالت افسوس اور شدید غم و غصے میں ہیں۔ عوام یتیم اور لاوارث بنی رل رہی ہے اور حسب روایت کراچی سسک رہا ہے۔ کراچی کی تباہی کی منصوبہ بندی بہت اہتمام کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے اور اس تباہی میں ہر ایک نے اپنا حصہ ڈالا ہے چاہے وہ عوام ہوں کہ حکومت۔ غفلت ہر سطح پر برتی گئی ہے۔ اس کڑے وقت میں واحد ایک ادارہ ایسا ہے جو بغیر کسی مصلحت کے عوام کی مدد کرنے کے لیے برسر پیکار نظر آ رہا ہے اور وہ ادارہ ہے فوج۔ دن ہو یا رات، بارش میں پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالنا ہو یا اپنی چھتوں پر محصور لوگوں میں خوراک کی ترسیل ہو، فوجی جوان پاکستانی عوام کی مدد کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں۔

کراچی کی بدقسمتی کہہ لیں کہ جن کا کام تھا وہ خود آج دہائیاں دیتے نظر آتے ہیں۔ حکومت سندھ اور شہری حکومت کی آپس کی چپقلش نے آج یہ دن دکھایا ہے کہ کوئی بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ ایک طرف شہری حکومت وسائل کی کمی کا رونا روتی نظر آتی ہے تو دوسری جانب حکومت سندھ کی نا اہلی کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے وہ وفاق سے کراچی کے لیے الگ سے فنڈز مانگتی نظر آتی ہے جبکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد کراچی کی دیکھ بھال کرنا حکومت سندھ کی ذمہ داری بنتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے بے تحاشا کرپشن میں لتھڑی حکومت کی کارکردگی کسی سے بھی چھپی نہیں رہ سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ اب کراچی کے سنجیدہ کاروباری طبقوں سے لے کر عام شہری تک کراچی کو الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

کراچی کے عوام کے ایک نمایاں حصے نے تبدیلی کے نعرے سن سن کر کسی نئی تبدیلی کی آس میں تحریک انصاف کو کراچی الیکشن میں واضح برتری دلوائی تھی۔ اب اسی وجہ سے کراچی کے بہت سے رہائشی عمران خان صاحب سے پرزور مطالبہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ کراچی کے ساتھ مستقل بنیادوں پر ہونے والی زیادتیوں کا نوٹس لیا جائے اور انتظامی بنیادوں پر کراچی کو وفاق کے ماتحت لے کر کراچی کے حالات کو بہتر بنایا جائے۔ کیونکہ یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ کراچی میں امن و امان کے ساتھ ساتھ اگر انتظامی معاملات بہتر ہوں گے تو یہ نہ صرف کراچی کے سرمایہ کاروں کے لیے بلکہ بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے بھی ایک مثبت پیغام ثابت ہو گا۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ماہ اگست کے شروع میں عمران خان صاحب نے غیر معمولی بارشوں کے باعث شہر کراچی کے نالوں کی صفائی کے لیے فوج سے مدد طلب کی۔ تاریخ میں شاید ایسا پہلی دفعہ دیکھا گیا کہ فوج نے ماتھے پر شکن لائے بغیر لبیک کہتے ہوئے قوم کے لیے اس کام کے لیے بھی حامی بھری اور کراچی کے نالوں کی صفائی ہنگامی بنیادوں پر کی گئی۔ اس صفائی مہم میں ہزاروں ٹن کا کچرا ان نالوں سے نکالا گیا جو اگر بروقت نہ نکالا جاتا تو شاید اس وقت صورتحال اور خوفناک ہوتی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ شہری حکومت کی غفلت کے باعث ان نالوں سے باہر نکالا گیا کچرا بروقت نہ اٹھائے جا سکنے کے باعث وہ پانی کے بہاؤ کے ساتھ واپس انہی نالوں میں پہنچ گیا یا بارش کے پانی میں شامل ہو کر قریبی علاقوں میں۔

بہرحال ان نالوں کی صفائی وغیرہ تو وقتی اقدامات ہیں اور ہر گزشتہ حکومت نے اوپری اوپری کام کر کے عوام کی آنکھ میں دھول جھونکی ہے۔ کراچی کو اس وقت ایک میگا اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ اس پر عملی طور پر جلد از جلد کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے لیے، وفاق، صوبائی حکومت، بلدیاتی اداروں اور عوام کا ایک پلیٹ فارم پر آنا ناگزیر ہے۔ کیوں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہر ایک انفرادی سطح سے اجتماعی سطح پر اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے، چاہے وہ عوام ہوں کہ حکومت۔

جس کا جو کام ہے اگر وہ اپنے حصے کا کام پورے خلوص اور دیانت داری سے کرے تبھی کراچی کو مزید تباہی سے بچایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ بارش تو قدرتی عمل ہے۔ بارش ہوگی تو پانی اپنے راستے پر ہی بہے گا لیکن جب اس کو راستہ نہیں ملے گا تو وہ گھروں میں داخل ہوگا۔ اور پورے شہر کو ایک مصنوعی جھیل میں تبدیل کر دے گا۔ بارش تو ہوگی کہ بارش رحمت ہے، اس کو زحمت خود ہمارے اپنے اعمال بناتے ہیں۔

لبنیٰ مقبول
Latest posts by لبنیٰ مقبول (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).