چاندی کی انگوٹھی، گرہستی زندگی اور کیمیا


ہاتھوں میں انگوٹھی، چھلا یا اسی قبیل کی کوئی دوسری چیز پہننا مجھے کبھی پسند نہیں رہا۔ حالانکہ جس علاقے میں میرا بچپن اور نیم جوانی گزری وہاں لڑکے ان چیزوں کا کافی شوق رکھتے ہیں۔ قیمتی پتھروں کے نگینوں سے سجی انگوٹھیوں کا شوق میرے کچھ دوستوں، ایک بھائی اور والد صاحب کو بھی ہے۔

کچھ عرصہ قبل بیگم نے بڑے ارمانوں سے میرے لیے ایک چاندی کا چھلا بنوایا جسے میں بادل نخواستہ کچھ دنوں تک پہنتا رہا۔ اگلے کچھ دنوں تک یہ چھلا غسل خانے، دستر خوان، بستر کے ساتھ رکھی میز اور دوسری جگہوں سے دریافت ہو کر ہماری سرزنش کا باعث بنتا رہا۔ جب یہ سلسلہ اسی تواتر سے جاری رہا تو ایک دن میں نے انگوٹھی اتار کر الماری میں رکھ دی اور بھول بھال گیا۔

ایک عرصے بعد، آج حادثاتی طور پر الماری سے انگوٹھی دریافت ہوئی تو حیرت انگیز طور پر اس کا رنگ سیاہی مائل ہو چکا تھا۔ یہ مشاہدہ اس لیے عجیب تھا کہ چاندی ایک ایسی دھات ہے جس کو نہ تو زنگ لگتا ہے اور نہ ہی ہوا سے تعامل (ری ایکشن) کرتی ہے۔

انگوٹھی پر لگی مہر سے معلوم ہوا کہ یہ سٹرلنگ سلور سے بنی ہے جو سلور کا ایک بھرت (ایلوئے ) ہے جس مین چاندی کی مقدار 92.5 فیصد ہوتی ہے۔ باقی کا 7.5 فیصد ایک دوسری دھات (زیادہ تر تانبا) پر مشتمل ہوتی ہے۔ مہر کی تحریر 0 S 9251 میں S سٹرلنگ کو، 925 چاندی کی مقدارکو جبکہ 10 انگوٹھی کے حجم کو ظاہر کرتا ہے۔

خالص چاندی کی مضبوطی بڑھانے اور اس سے زیورات کی تیاری کے لیے اس میں دیگر دھاتوں کو شامل کیا جاتا ہے۔ سٹرلنگ سلورکو بھی خالص چاندی کی طرح زنگ نہیں لگتا اور نہ ہی ہوا میں موجود مستقل گیسوں کے ساتھ تعامل (ری ایکشن) کے نتیجے میں اس کا رنگ خراب ہوتا ہے۔ تاہم یہ سلفر اور اس کے مرکبات، خاص طور پر ہائیڈروجن سلفائیڈ کے ساتھ ری ایکشن کرکے سیاہی مائل مرکب سلور سلفائیڈ بناتا ہے۔ چاندی ہوا میں موجود اوزون کے ساتھ بھی تعامل کر سکتاہے۔

اب فکر یہ لاحق ہوئی کہ کچھ ہی ماہ میں ایسا کیا ہوا جو انگوٹھی کے کالے رنگ کی وجہ بنا۔ بہت سارے گھریلو اشیا جیسا کہ مایونیز، ابلے ہوئے انڈے، لہسن، پیاز اور ربڑ کے بینڈ میں بھی سلفر کے مرکبات پائے جاتے ہیں۔ ان اشیا کے ساتھ پڑے رہنے کی وجہ سے بھی چاندی کا رنگ اڑ سکتا ہے۔

ہوا میں ہائیڈروجن سلفائیڈ کا بڑا ذریعہ خام تیل کشید اور صاف کرنے کے کارخانے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ انسانی اور حیوانی فضلے کی بیکٹیرائی توڑ پھوڑ سے بھی پیدا ہوتی ہے۔ کاغذ کے کارخانے، گندے پانی کی نالیاں (سیوریج) اورگندگی سے بھرے نالے بھی ہائیڈروجن سلفائیڈ گیس کی پیداوار میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔

چاندی کی صفائی کے لیے رائج طریقہ میں سطح پر موجود کالی تہہ کو رگڑ سے علیحدہ کیا جاتا ہے۔ گھر پر یہ صفائی ٹوتھ پیسٹ اور برش کی مدد سے کی جا سکتی ہے۔ ٹوتھ پیسٹ میں موجود مانجھنے والے مرکبات جیسا کہ کیلشیم کاربونیٹ (چاک) اور الومینیم ہائیڈروآکسائیڈ، سلور سلفائیڈ کی تہہ کو کھرچ کر الگ کرتے ہیں۔ تاہم ایک ایسا طریقہ بھی ہے جس سے انگوٹھی بار بار کی صفائی کے باوجود گھستی نہیں۔

آدھا گلاس پانی کو ابال کر اس میں چائے کے چمچ کا ایک چوتھائی حصہ کھانے کا سوڈا ڈالیں۔ پھر انگوٹھی کو کچن میں بآسانی دستیاب ایلومینم فوئل سے لپیٹ کر پانی میں ڈال دیں۔ کچھ منٹ میں ہی انگوٹھی کا رنگ بحال ہو جائے گا۔ اس طریقہ کار کو چاندی کے دیگر زیورات کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

انگوٹھی واپس اپنی جگمگ کرتی حالت میں واپس آچکی ہے اور گرہستی زندگی، ایک متوقع زلزلے سے بال بال بچ گئی ہے۔ شکریہ کیمیا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).