فنِ موسیقی کے خود ساختہ دیوتا اور بے وزن دلیلیں!


\"muhammadفن موسیقی کے خود ساختہ دیوتا اور ان کے اندھے عقیدت مند صرف تعریف سننے کے عادی ہوتے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ ان کے ردی کام پر بھی سر دھنا جائے۔ اندر اندر تو پتہ ہوتا ہے انہیں اپنی ’قابلیت ‘ کا لیکن اگر کوئی ان کو اس بارے میں بتا دے تو برداشت نہیں کر پاتے۔ لیکن صاحب علم فنکار تنقید سنتے ہیں حوصلے سے اور اپنی کلا کو مزید بلند کر لیتے ہیں ۔ اس کے مقابلے میں خود ساختہ خدا اور ان کے حواری گالم گلوچ سے شروع ہونے کے بعد ایک گھسی پٹی بے وزن دلیل پراتر آتے ہیں کہ ہمارے فن پر تنقید کرنے سے پہلے ہم سے مقابلہ کرو۔ ہم سے بہتر گا بجا کر دکھا دو۔ کیا تان سین اتائیوں کو ہرا کر عہد ساز گویا بنا تھا ؟

ہم نے ایک مضمون میں یہ لکھا کہ طبلہ نواز تاری جیسا پوری دنیا میں کوئی نہیں مگر صرف غزل سنگت میں! یہ تعریف تھی مگراس پرایک جواب یہ تھا کہ تاری سے مقابلہ کر لو۔ دوسرا جواب یہ تھا کہ تاری طبلے کا خدا ہے۔ ارے بھائی یہ ’خدا‘ طافو صاحب کا چیلنج کیوں نہیں قبول کرتا؟ طافو صاحب کا نام سنتے ہی اس کی سٹی گم کیوں ہو جاتی ہے؟ یہ کیسا نا مکمل’خدا ‘ ہے جس نے آج تک کتھک سنگت نہیں کی۔ جس نے کرناٹکی موسیقی کے ساتھ نہیں بجایا۔ جس کا نا دھن دھن نا درت لے میں جا کر بھونڈا سا کہروا بن جاتا ہے۔۔دھن تڑک دھن دھن تڑک دھن!!  یہ ’خدا ‘ درت میں سیدھا تین تال۔ ۔ایک انگلی کا نا دھن دھن نا۔۔ کیوں نہیں بجا سکتا پنڈت انوکھے لال یا پنڈت آنندو چٹر جی کی طرح؟

ہم نے حالیہ مضمون میں یہ لکھا کہ پٹیالہ کے امانت اور فتح علی خان صاحب باگیشری کی ایک خاص بندش گاتے ہوئے وہ خاص تان نہیں لگاتے جو کہ اس راگ کا خاصہ \"thirakwa\" \"thirakhwa\"  ہے۔ گانا بجانا ہمارا پیشہ نہیں۔ ہم تو لکھاری ہیں۔ ریاض کا وقت بھی نہیں ملتا لیکن پھر بھی ہم باگیشری کو باگیشری ہی کی طرح گانے کی کوشش کرتے ہیں ریاضت کے دوران۔ اب یہ ایک سیدھا سادا نکتہ تھا ۔ زیادہ سے زیادہ اس کا جواب یہ ہو سکتا تھا کہ ہمارے گھرانے (پٹیالہ) میں ما پا دھا کی تان واپسی پر نہیں لگاتے اور ہم ایسے ہی باگیشری گاتے ہیں۔ اس پر کوئی مزید اعتراض نہیں کرے گا صرف اتنا ہی کہے گا کہ یہ کچھ بھی ہو سکتا ہے مگر باگیشری نہیں۔ مگر جواب علم اور ظرف کے مطابق ہی آتا ہے۔ جواب تھا کہ باگیشری میں شری تو ہوتا نہیں تو پھر اس کا نام باگیشری کیوں ہے! دوسرا جواب تھا کہ ایک تان تو لگا کر دکھا دو فتح علی جیسی۔ ارے بھئی ہم فتح علی کی تان سے کبھی بھی متاثر نہیں ہوئے لہذا ہم کیوں لگائیں گے؟ ہم توپیروی کریں گے امیر خان صاحب یا بڑے غلام علی خان صاحب کی ۔

\"zakirhussain\"اتائی تو دور کی بات، ایک کن رس بھی یہ جان سکتا ہے کہ کون سچا خدا ہے اور کون جھوٹا۔ اگران ’خداﺅں‘ کے \"zakir-hussain\"دلیل درست مان لی جائے تو یہ بھوکے مر جائیں گے کیونکہ ان کے مطابق صرف وہی سنویا ان کے بارے میں رائے زنی کر سکتا ہے جو خود بھی تان سین ثانی ہو۔ فنون لطیفہ کے دیگر شعبوں میں تنقید کے جواب میں ایسی بے وزن دلیلیں دیکھنے میں نہیں ملتیں۔ مثلاً سپر سٹارز کی بھی کئی فلمیں ناکام اور فلاپ ہو جاتی ہیں۔ منفی تبصرے لکھے جاتے ہیں۔ کیا وہ تبصرے کرنے والوں کو یہ کہتے ہیں کہ ہم سے بہتر ٹھمکے مار کے دکھاﺅ، پھر تنقید کرنا؟

 ہم لکھاریوں کا کام بھی تخلیق کے شعبے سے جڑا ہو ا ہے۔ ہمارے کام پر بھی تنقید ہوتی ہے۔ ہم اس کے جواب میں یہ نہیں کہتے کہ ہم سے مقابلہ کرلوں۔ ہم سے بہتر جملہ لکھ کر دکھا دو۔ بڑے لوگ کیسے جواب دیتے ہیں تنقید کا ذرا یہ بات ملاحظہ فرمائیں۔ استاد ذاکر حسین ایک محفل میں تھے۔ شراب کے نشے میں دھت کوئی صاحب جو احمد جان تھرکوا کے رشتے دار تھے ذاکر بھائی سے کچھ اس ’شائستہ ‘ لہجے میں مخاطب ہوئے: ’ذاکر تو تو چور ہے۔ ساری چیزیں تھرکوا صاحب کی بجا تا ہے!‘ ذاکر بھائی نے کہا یہی بات لکھ دیں۔ اس سے بڑھ کر کیا اعزاز ہو گا کہ میں تھرکوا صاحب جیسا بجاتا ہوں!

محمد شہزاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد شہزاد

شہزاد اسلام آباد میں مقیم لکھاری ہیں۔ ان سے facebook.com/writershehzad پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

muhammad-shahzad has 40 posts and counting.See all posts by muhammad-shahzad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments