سید محمد جون پوری اور مہدوی تحریک


اس سے پہلے مضامین میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ کیسے پروٹسٹنٹ ازم یورپ میں اور بھگتی تحریک برصغیر یں پروان چڑھیں۔ اب اس مضمون میں ہم مختصراً اس بات کا جائزہ لیں گے پندرہویں اور سولہویں صدی میں ہندوستان کن مسلم تحریکیوں سے متاثر ہورہا تھا۔

ہندوستان میں کبیر اور یورپ میں ایراس مس کے ایک ہم عصر سید محمد جون پوری تھے سن چودہ سو پینتالیس سے پندرہ سو پانچ تک تقریباً ساٹھ سال زندہ رہے۔ اگر کبیر برہمن اور ملا کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے اور ایراس مس کلیسائے روم میں اصلاحات کے خواہش مند تھے تو سید محمد جون پوری دونوں کا سنگم تھے۔

پندرہویں صدی عیسویں کے وسط میں جون پور شرقی خاندان کے زیر اثر تھا جس نے چودھویں صدی کے اواخر میں تغلق حکومت سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ شرق خاندان پندرہویں صدی کے اواخر تک کوئی سوسال قائم رہا جب لودھی خاندان نے ایک بار پھر جون پور کو دہلی سلطنت کا حصہ بنالیا۔

یہ وہ دور تھا جب 1398 میں تیمور کے حملے نے ہندوستان میں دہلی سلطنت کو مفلوج کرکے چھوڑا تھا جس سے برصغیر کے ہندو اور مسلم دونوں شدید مایوسی کا شکار تھے۔ ان حالات میں مذہب بھی ایک میدان جنگ بن گیا۔

ہندومت میں بھگتی تحریک نے مختلف طریقوں سے مذہب کو زندہ کرنے کی کوشش کی جس میں ایک راستہ کبیر اور نانک کا تھا جنہوں نے مذہبی بالادستوں کے استحصال کا للکارا۔

دوسرا راستہ چینتیا، ولبھ اچاریا، سورداس، میرا بائی اور تلسی داس وغیرہ کا تھا جنہوں نے اپنے اپنے دیوتاؤں سے قربت کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیں اور لوگوں کو بھی خاص طور پر کشن مہاراج کے قریب لانے کی کوشش کی۔

دھارمک ناچ گانے اس تحریک کا خاصہ تھے جن کے ذریعے عوام کو لوریاں سناکر سلانے کی کوشش کی گئی البتہ مسلم آبادی میں مذہب ایک مختلف موڑ سے گزر رہا تھا۔

اس دور کے مذہبی سکوت کو ہلانے والی غالباً پہلی شخصیت سید محمد جون پوری کی تھی جن کی مہدوی تحریک اب تک قائم ہے اور ذکری مہدوی کے نام سے ایرانی خراسان، پاکستانی بلوچستان اور سندھ کے علاوہ افغانستان کے فرہ صوبے میں موجود ہے۔ گوکہ سید محمد جون پوری کی ابتدائی تعلیمات صوفیوں کے چشتی سلسلے سے تھیں لیکن انہوں نے جلد ہی خود کو مہدی موعود مشہور کر دیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں خدائی پیغام کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ وہ ہی مہدی موعود ہیں۔ اس دور کے دیگر صوفیوں کی طرح سید محمد جون پوری کے حالات زندگی بھی کچھ مبالغہ آمیز معلوم ہوتے ہیں۔

سید سبط حسن اپنی کتاب ”پاکستان میں تہذیب کا ارتقا“ کے چھٹے باب میں بھگتی اور مہدوی تحریکوں کے بارے میں بھی مختصراً روشنی ڈالتے ہیں۔ لکھتے ہیں :

” جب بہلول لودھی نے سلطان حسین شرقی کو شکست دے کر جون پور کو سلطنت دہلی میں شامل کیا تو جون پور کی ساری شان و شوکت خاک میں مل گئی۔ سید محمد جون پوری کو بڑا صدمہ ہوا۔ انہوں نے جون پور کے زوال کو اسلام کے زوال سے تعبیرکیا اور عہد نبوی کی اسلامی قدروں کی احیا کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ عین ممکن ہے کہ ان کے عزائم میں مسلمانوں کو بھگتی تحریک کے اثر سے محفوظ رکھنے کا جذبہ بھی شامل ہو۔ انہوں نے مہدی آخر الزماں ہونے کا اعلان کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ خدا نے مجھے مسلمان کو فسق و فجور سے نجات دلوانے پر مامور کیا ہے۔ (صفحہ 227 )

جون پور میں سید محمد کے بڑے عقیدت مند جمع ہوگئے اور خود سلطان حسین شرقی علم و روحانی رتبے سے بڑا متاثر ہوا تھا۔ شرقی خاندان کے خاتمے کے بعد سید محمد جون پوری چالیس کی عمر میں جون پور سے چلے گئے اور 1480 کے عشرے میں گجرات پہنچے جہاں ان کے پھر ہزاروں معتقد جمع ہوگئے۔ اس وقت گجرات پر سلطان محمد بیگڑا کو حکومت کی جو مظفری خاندان کا حکم ران تھا۔ اس خاندان نے چودہویں صدی کے اواخر سے سولہویں صدی کے اواخر تک تقریباً دو سو سال گجرات پر حکومت کی۔

گجرات کے مذہبی رہ نماؤں نے سید محمد جون پوری کی شدید مخالفت کی اور انہیں روانہ ہونا پڑا۔ کبیر اور نانک کی طرح ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے طویل سفر کیے اور افغانستان اور ایران کے علاوہ عرب ممالک بھی گئے۔ کہا جاتا ہے کہ سید محمد جون پوری نے حج کے بعد اپنے مہدی ہونے کا اعلان کیا مگر کسی نے ان پر یقین نہیں کیا۔ کچھ سال بعد وہ گجرات واپس آئے اور یہاں بھی مہدی ہونے کا اعلان کیا اور مہدوی تحریک شروع کی۔ پھر مقامی مذہبی رہ نما ان کے خلاف ہوگئے اور انہیں بھاگنا پڑا۔

یورپ کے پروٹسٹنٹ رہ نماؤں کی طرح کسی حد تک بھگتی تحریک کی مانند سید محمد جون پوری پرانے مذہبی مسلکوں سے دور ہوتے گئے اور مذہب کے بنیادی ماخذ صرف آسمانی صحفیوں کو سمجھتے تھے۔ لیکن پروٹسٹنٹ رہ نماؤں کے برعکس جون پوری ترک دنیا اور لوگوں سے دور رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اسی طرح کے رویے ہمیں مہدوی یا کچھ ذکری لوگوں میں نظر آتے ہیں جو شادی کر کے اہل و عیال سے فارغ البال ہونے کے بعد بڑھاپے میں ترک دنیا کرتے ہیں۔

Tomb of Syed Muhammad Jaunpuri

سید محمد جون پوری کی تعلیمات میں خدا کے دیدار کی تلاش اور ذکر یعنی مسلسل مراقبہ اور اسمائے مبارک کی تکرار بڑی اہم کی حامل ہے اور یہ تکرار خاموشی سے اور باآواز دونوں طرح کی جاتی ہے اس طرح اس میں بھگتی تحریک سے کچھ مماثلت بھی ہے جو خود اپنے دیوتاؤں کے درشن کے لیے بھجن گاتے رہے تھے جو ایک طرح کا ذکر ہی ہے۔

پروٹسٹنٹ ازم کی طرح سید محمد جون پوری نے بھی یہی کہا کہ ان کا بنیادی مقصد مذہب کو اس کی اصلی حالات میں بحال کرنا تھا۔ جون پوری نے شریعت اور فقہہ کی بحالی کی بات کی۔ گوکہ مہدوی یا ذکری پیروکار تمام مسلکوں کے احترام کا دعویٰ کرتے ہیں ان کی مماثلت حنفی مسلک سے نسبتاً زیادہ ہے۔ یہ لوگ فجر کے بعد اور مغرب سے پہلے ذکر کرتے ہیں۔ مہدوی تبلیغ کے لیے انہوں نے مختلف علاقوں میں تبلیغی مراکز بھی قائم کیے۔

مہدوی تحریک کے لیے سب سے تباہ کن بات سید محمد جون پوری کا یہ دعوا تھا کہ جو بھی ان کو مہدی تسلیم نہیں کرتا وہ کافر ہے۔ ممتاز مورخ شیخ محمد اکرام نے اپنی کتاب ”رود کوثر“ میں چھ صفحات میں مہدوی تحریک کا ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں۔

”احمد آباد میں جب سید محمد جون پوری نے کہا کہ اس دنیا میں مادی آنکھوں سے خدا دکھا سکتا ہوں تو اس پر علما نے مخالفت کی اور آپ کے اخراج کا حکم ہوا۔ وہاں سے پٹن پہنچے جہاں بہت سے معتقدوں کے باوجود یہی صورت پیش آئی۔ پٹن سے آپ بری گئے جہاں آپ نے مہدی موعود ہونے کا پھر اعلان کیا اور مختلف حکم رانوں کو تبلیغی خطوط بھیجے، پھر جانور، ناگور، جیسل میر ہوتے ہوئے ٹھٹہ پہنچے جو سندھ کا پایہ تخت تھا۔ یہاں جام نظام الدین والی ٹھٹہ کی مخالفت کے باوجود کئی اکابر اور قاضی سندھ آپ کے معتقد ہوگئے۔ ٹھٹہ میں ایک سال قیام کے بعد آپ خراسان کی طرف روانہ ہوگئے۔ پہلے قندھار آئے اور وہاں سے فرہ پہنچے جہاں پندرہ سو چار میں بعارضہ تپ دق آپ وفات پاگئے۔ مزار فرہ کے قریب ہے۔“ (رود کوثر صفحہ 26۔ 27 )

مہدوی جماعت سید محمد جون پوری کے دعوؤں پر یقین کے علاوہ یہ بھی عقیدہ رکھتی ہے کہ فرائض و واجبات قرآنی دو قسم کے ہیں اول تو نبوت اور شریعت کے احکام اور دوسرے وہ جن کا تعلق خاص ولایت محمدی سے ہیں جن کی تبلیغ کے لیے حضرت سید محمد مہدی موعود معبوث ہوئے جو دافع ہلاکت امت محمدی ہیں اور ناصر شریعت ہیں۔

مقام ولایت میں جو امور فرض اور ارکان دین کا درجہ رکھتے ہیں حسب ذیل ہیں پہلے تو ترک دنیا، دوسرے صحبت صادقین، تیسرے عذلت از خلق، چوتھے توکل، پانچویں طلب دیدار خدا، چھٹے عشر، ساتویں ذکر کثیر اور آٹھویں اور آخری درجے پر ہجرت بھی فرض ہے۔

سید محمد جون پوری کی وفات کے بعد ان کی تحریک پر تشدد ہوا اور گجرات کے سلطان مظفر شاہ دوم جو پندرہ سو دس سے پندرہ سو پچیس تک برسراقتدر رہا اس نے مہدوی تحریک کو گجرات میں کچل دیا۔ ہوا یہ تھا کہ دوسری مہدوی خلیفہ بندگی میاں خند میر اور ان کے پیروکار ذکر خدا کے لیے ترک دنیا کرچکے تھے مگر پندرہ سو تئیس میں بندگی میاں کو ان کے مریدوں سمیت چمپا نیر گجرات میں قتل کر دیا گیا جہاں اب بھی ان کا مقبرہ ہے۔

شیخ محمد اکرام رود کوثر میں لکھتے ہیں۔

”شروع شروع میں یہ تحریک گجرات، خاندیش اور احمد نگر میں زوروں پر تھی اور بڑے قابل اور مخلص لوگ اس میں شامل تھے۔ لیکن شیخ علی متقی کی علمی مخالفت اور مخدوم الملک کی سیاسی کوششوں نے اسے شمالی ہند میں پھلنے پھولنے نہ دیا۔ گجرات سے یہ تحریک دکن منتقل ہوگئی۔ احمد نگر میں جہاں جمال خان مہدوی، نظام شاہی افواج کا ایک با اثر سپہ سالار تھا۔ اس فرقے کو ایک زمانے میں خاص اہمیت حاصل ہوگئی۔ جمال خان نے اپنے ہم مشرب مہدویوں کو ذکر وفکر کے اشغال سے ہٹاکر سیاست اور عسکری زندگی کی طرف مائل کیا۔ اس کے زیر اثر شاہی خاندان کے چھٹے بادشاہ اسماعیل بن برہان نے مہدوی عقیدہ اختیار کر لیا۔“ (صفحہ 28 )

جب شاہ اسماعیل بن برہان نظام شاہی ثانی تخت نشینی کے دو ہی سال بعد پندرہ سو نوے میں مارا گیا تو احمد نگر میں پھر اثنا عشری شیعہ اثرات غالب آگئے۔ پھر بھی جنوبی ہند میں مہدوی لوگ باقی رہے اور کہا جاتا ہے کہ سلطان ٹیپو کے پاس بہت سے مہدوی افغان ملازم تھے جنہیں ایک بار حکم عدولی کے بعد مارا اور نکال دیا گیا۔

شیخ محمد اکرام حافظ محمود خان شیرانی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ”راجا چندولال کے دور میں حیدرآباد مہدوی گروہ کا مرکز بن گیا اور وہ دس بارہ ہزار کی تعداد میں ملازم بھی رکھ لیے گئے تھے اور بے باکانہ مذہبی بحثیں کرتے تھے بلآخر نواب سکندرجاہ نے انگریزی فوج کی مدد سے ان کو نکالا“ (صفحہ نمبر 29 )

شاید بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہو کہ نواب بہادر یار جنگ بھی مبینہ طور پر مہدوی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا اور وہ جذباتی خطابت کے بادشاہ تھے اسی لیے انہیں نہ صرف مہدویوں میں بلکہ عام مسلمانوں میں خاص اثر حاصل تھا۔

اس وقت یعنی اکیسویں صدی میں بھی کچھ مہدوی جنوبی ہند میں آباد ہیں اور بنگلور میں جماعت مہدویہ چلاتے ہیں ان کا ایک کتابچہ عقیدہ شریعہ ویب سائٹ پر موجو ہے جس میں بندگی میاں کی سوانح حیات شامل ہے جس کا انگریزی ترجمہ سید ضیاءاللہ نے کیاہے۔

بلوچستان میں تربت کے قریب ذکری لوگ آباد ہیں جو کوہ مراد پر زیارت کے لیے جاتے ہیں جہاں سید محمد جون پوری کچھ عرصہ رہے تھے۔ اس وقت پاکستان میں ان کی آبادی مکران، لسبیلہ، کوئٹہ اور کراچی میں ہے۔ بھارت میں یہ لوگ حیدرآباد، تلنگانا، میسور اور کرناٹک میں رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).