خواجہ سراؤں کے خلاف امتیازی سعودی رویہ


\"edit\"سعودی حکومت نے خواجہ سراؤں کو عمرہ کا ویزا نہ دینے کے بارے میں جس پالیسی کا اعلان کیا ہے، اسے فوری طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ حکم مخصوص سعودی مزاج کے مطابق پراسرار طریقے سے جاری کیا گیا ہے اور اس وضاحت کی زحمت نہیں کی گئی کہ اچانک خواجہ سراؤں کو عمرے کے ویزے نہ دینے کی ہدایات کیوں سامنے آئی ہیں۔ اس کا اعلان دو روز قبل اسلام آباد میں سعودی سفارتخانے نے کیا ہے۔ سفارتخانے کی طرف سے پاکستانی ٹریول ایجنٹس سے کہا گیا ہے کہ وہ آئندہ خواجہ سراؤں کی عمرہ کے ویزا کی درخواستیں وصول نہ کریں۔ اس حوالے سے جو مبہم بیان جاری ہوا ہے، اس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ یہ پابندی خاص طور سے عمرہ کی ادائیگی کےلئے ویزا پر عائد کی گئی ہے۔ یعنی اگر کوئی خواجہ سرا تجارتی یا کسی دوسرے مقصد سے حرمین شریفین کے علاوہ سعودی عرب جانا چاہے تو وہ اصولی طور پر ویزا حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ عمرہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اسے ملک میں ہی داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ فی الحال اس حوالے سے خواجہ سراؤں کے حج کے ویزا کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی لیکن جس طرح عمرہ کے ویزا سے انکار کیا گیا ہے، اسی طرح حج سیزن شروع ہونے پر اس جنس سے تعلق رکھنے والوں کےلئے حج ویزا جاری کرنے سے بھی انکار کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان کی حکومت کی طرف سے سعودی عرب کے اس اچانک اور غیر معمولی اعلان پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ یہ پابندی صرف پاکستان سے سفر کرنے والے خواجہ سراؤں پر عائد کی گئی ہے یا دنیا بھر سے مذہبی مقاصد کےلئے حرمین شریفین آنے والے خواجہ سراؤں کو سعودی عرب آنے سے روکا جائے گا۔ اس حوالے سے البتہ یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنا ہوگی کہ دنیا کے مٹھی بھر ممالک ہی پاسپورٹ یا شناختی کاغذات میں مرد یا عورت کے علاوہ تیسری جنس کا اندراج کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر ایسے کسی ملک سے کوئی ملسمان خواجہ سرا عمرہ کے ویزا کی درخواست دیتا ہے اور اس نے اپنی جنسی شناخت مرد یا عورت کے طور پر ظاہر کی ہے تو سعودی حکومت اصولی طور پر اسے ویزا دینے سے انکار نہیں کرے گی۔ پاکستان میں 2009 سے سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ کے نتیجے میں خواجہ سراؤں کا اندراج علیحدہ جنس کے طور پر کیا جانے لگا ہے۔ آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ اور جاپان میں بھی اس حوالے سے اسی صدی کے دوران قوانین میں تبدیلی کی گئی ہے۔ جرمنی نے 2015 میں مرد یا عورت کے علاوہ کسی جنس کے اندراج کا طریقہ اختیار کیا تھا۔ تاہم یورپ کے کسی دوسرے ملک میں ابھی اس حوالے سے گنجائش پیدا نہیں کی گئی لیکن اس بارے میں مباحث کا آغاز ہو چکا ہے۔ اور اگر عورت یا مرد کی شناخت سے اتفاق نہ کرنے والے گروہوں نے دباؤ ڈالا تو ان ملکوں میں ایسی تبدیلی بہت بڑا مسئلہ نہیں ہوگی۔ تاہم پاکستان جیسے ملکوں میں خواجہ سراؤں کو خاص طور سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سماج میں انہیں ایک عام انسان کے حقوق دینے کی بجائے نفرت اور تمسخر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تاہم اس حوالے سے گزشتہ برسوں میں تحریک سامنے آئی ہے۔ خواجہ سراؤں نے خود کو منظم بھی کیا ہے اور سماجی تنظیموں ، سرکاری اداروں اور مذہبی رہنماؤں نے بھی خواجہ سراؤں کے حقوق کےلئے آواز اٹھائی ہے۔

سعودی عرب کی طرف سے خواجہ سراؤں پر عمرہ کی پابندی لگانے کا معاملہ پاکستانی سینیٹ میں اٹھایا گیا ہے اور اسے پسماندہ طبقات کےلئے سینیٹ کی کمیٹی کے حوالے بھی کیا گیا ہے۔ اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر حافظ حمد اللہ نے واضح کیا ہے کہ خواجہ سراؤں کو بھی اسلام میں وہی حقوق حاصل ہیں جو مردوں اور عورتوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ اسی طرح ان پر بھی دین کے شعائر پر عمل کرنے کی وہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جس کی توقع کسی دوسری جنس سے تعلق رکھنے والوں سے کی جاتی ہے۔ ان میں نماز روزے کی پابندی اور حج کی ادائیگی کا فرض شامل ہے۔ صدیوں سے خواجہ سرا حرمین شریفین جاتے رہے ہیں اور اپنا دینی فریضہ ادا کرتے رہے ہیں۔ کبھی ان کی حرمین شریفین میں داخلہ پر پابندی عائد کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ پھر اب سعودی عرب نے اچانک یہ انتہائی اقدام کرنا کیوں ضروری سمجھا ہے۔ سعودی نظام کو سمجھنے والے بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ خواجہ سراؤں کے درمیان محرم اور غیر محرم کی تفریق نہ ہونے کی وجہ سے یہ پابندی عائد کی گئی ہو۔ حرمین شریفین جانے کےلئے ویزا حاصل کرنے والے خواتین کو مرد محرم کے ساتھ ہونے کی صورت میں ہی ویزا دیا جاتا ہے۔ اس لئے خواجہ سراؤں کا تعلق مرد یا عورت کسی بھی جنس سے نہ ہونے کی صورت میں یہ فیصلہ نہیں ہو سکتا کہ وہ خود محرم ہے یا اسے کسی مرد محرم کی ضرورت ہے۔

تاہم اس بارے میں سعودی حکام کو وضاحت کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف اندازے قائم کر کے اس قسم کے امتیازی اور غیر انسانی فیصلہ کو سمجھا نہیں جا سکتا۔ تاہم یہ بات دوٹوک انداز میں کہی جا سکتی ہے کہ سعودی حکام اس بارے میں کوئی دلیل یا عذر پیش کریں، بنیادی دینی اور انسانی اصولوں کی روشنی میں اسے مسترد ہی کیا جائے گا۔ سعودی عرب کو تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ فیصلہ ناجائز ، غلط اور ناانصافی پر مبنی ہے اور اسے فوری طور پر تبدیل کیا جا رہا ہے۔ مذہبی فریضہ کی ادائیگی کے لئے کسی مسلمان کو سعودی عرب آنے سے منع کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ریاض کے حکمران اب یہ اختیار اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں کہ وہ طے کریں گے کہ کون مسلمان ہے اور کون مسلمان کہلوانے کا حقدار نہیں ہے۔ مسلمہ عالمی اصولوں کے تحت کسی بھی فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کوئی عقیدہ اختیار کرے اور اس کے تقاضے پورے کرے۔

اس بارے میں دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ سعودی حکمرانوں نے متعدد شعبوں میں آمرانہ اور غیر انسانی طرز عمل کو فروغ دیا ہے۔ سعودی عرب میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک اور مختلف ملکوں سے آنے والے کارکنوں کو ان کی قومی شناخت کے اعتبار سے علیحدہ حیثیت و مرتبہ دینے کا رویہ خاص طور سے اسی سعودی مزاج کی مثالیں ہیں۔ دنیا بھر سے اس طریقہ کار کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح حکمران سعودی خاندان کا سخت گیر مذہبی رویہ اور اپنے مسلک کو بزور نافذ کرنے اور اس کی تبلیغ کےلئے سرکاری وسائل صرف کرنے کا طریقہ بھی ناقابل قبول ہے اور اس کی وجہ سے متعدد مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں۔ امریکہ میں سعودی عرب کو 9/11 کے سانحہ میں ملوث ہونے کے الزامات کا سامنا ہے۔ امریکی کانگریس اس حوالے سے ایک قانون بھی منظور کر چکی ہے جس پر عملدرآمد کی صورت میں نائن الیون کے سانحہ میں ہلاک ہونے والوں کے متاثرین سعودی عرب کی حکومت پر امریکی عدالتوں میں مقدمات قائم کر سکیں گے۔ اس سخت گیر رویہ کے باوجود سعودی حکومت نے حرمین شریفین میں دینی فرائض کی ادائیگی کےلئے آنے والے لوگوں کو عام طور سے سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کی ہے اور ویزا کے اجرا میں کبھی امتیازی رویہ کی شکایات سامنے نہیں آئیں۔

البتہ اس سال کے شروع میں سعودی حکومت نے مقبول شیعہ عالم شیخ النمر باقر النمر کو پھانسی کی سزا دی تھی جس پر سعودی شیعہ آبادی کے علاوہ ایران نے بھی سخت ردعمل ظاہر کیا تھا۔ اسی تنازعہ پر دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات بھی منقطع ہو گئے تھے۔ تاہم سعودی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس تنازعہ کے باوجود ایران کے زائرین کو ویزے جاری کرے گی۔ البتہ اس سال حج کے موقع پر دونوں ملکوں کی حکومتیں ایرانی زائرین کے تحفظ کے انتظامات پر متفق نہ ہو سکیں جس کی وجہ سے ایران کا کوئی شخص سال رواں حج کا فریضہ ادا کرنے کےلئے سعودی عرب نہیں جا سکا۔ اگرچہ یہ معاملہ دو ملکوں کی حکومتوں کے درمیان اختلافات سے متعلق ہے لیکن اس میں وہ بے قصور زائرین متاثر ہوئے ہیں جو نہ جانے کتنے برسوں سے حجاز مقدس جانے کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ اس لئے اخلاقی لحاظ سے سعودی عرب کی حکومت کو اس معاملہ میں زیادہ ذمہ داری قبول کرنا پڑے گی۔

سعودی فرماں روا اگرچہ ملک کے مطلق العنان بادشاہ ہیں لیکن وہ خادم حرمین الشریفین کا نام اعزاز کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ اس ٹائٹل کا مقصد ہی یہ ہے کہ ان پر حرمین شریفین کی دیکھ بھال اور زائرین کی تہ دل سے خدمت کرنے کی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے اور وہ خود بھی اسے اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ شاہ سلمان اس حیثیت میں ان تمام مسلمانوں کو سہولت فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں جو عمرہ یا حج کےلئے سعودی عرب آنا چاہتے ہیں۔ اگر ان کے زیر نگرانی کام کرنے والی حکومت ویزا کے اختیار کو بعض ایسے لوگوں کے ملک میں داخلہ پر پابندی لگانے کے لئے استعمال کرے گی جو خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی زیارت کےلئے وہاں آنا چاہتے ہیں تو خادم حرمین شریفین کے طور پر ان کے کردار پر حرف زنی ہوگی۔ اسی پس منظر میں پاکستان میں خواجہ سراؤں کی تنظیم بلو وینس کے ترجمان قمر نسیم نے کہا ہے کہ: ’’کسی مسلمان کو اس کے جنسی رجحان اور صنفی شناخت کی بنیاد پر کسی عبادت سے روکنا بذات خود ایک گناہ کبیرہ ہے‘‘۔

شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو اس تناظر میں صورتحال کو پرکھنا ہوگا اور خواجہ سراؤں کے خلاف یک طرفہ امتیازی سلوک کو ختم کرنے کےلئے فوری احکامات جاری کرنا ہوں گے۔ اسی طرح پاکستان کی حکومت کو بھی اس سوال پر سعودی حکومت سے رابطہ کرکے فیصلہ تبدیل کرنے کےلئے دباؤ ڈالنا چاہئے۔ بصورت دیگر حج و عمرہ کے مقصد کےلئے خواجہ سراؤں کو مخصوص پاسپورٹ جاری کئے جائیں، جن میں ان کی جنس کو ان کے میلان کے مطابق عورت یا مرد کے طور پر ظاہر کیا جائے۔ اس طرح سعودی حکام خواجہ سراؤں پر پابندی کے فیصلہ کے باوجود پاکستانی خواجہ سراؤں کو حرمین شریفین کی زیارت سے محروم نہیں رکھ سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments