قندیل کی قبر سے لگے کان اور سنگ لحد سے تراشے دماغ


\"ahmad-saleem\"آج کل قندیل بلوچ کی قبر سے آوازیں آنے کا بہت چرچا ہے۔ سلام ہے مردان حق کی قوت سماعت کو یعنی جیتے جی آوازوں کا گلا گھونٹ کر قبروں پر کان دھرے بیٹھے ہیں۔ دلچسپ قوت سماعت کے مالک یہ مردان حُرزندہ آوازوں سے خائف اورمُردوں کی آوازوں کے شائق ہیں۔ خصوصاً فنکاروں اور گلوکاروں کی آوازیں ان کے گوش ہوش سے تب ٹکراتی ہیں جب یہ قبروں سے آ رہی ہوں۔ نصرت فتح علی خان کی قبر سے بھی انہوں نے بے شمار آوازیں سنیں لیکن جب وہ حیات تھے تب ان کے سُر سنگیت سے نا آشنا رہے۔ شاہ نورانی کے مزار پر گھنگھروؤں کی آوازیں تو ان کے کانوں تک پہنچی لیکن پرامن اور بے گناہ لوگوں کا ماتم اتنا بلند نہیں تھا کہ ان کی سماعت تک پہنچتا۔

قوتِ سماعت کے ساتھ ساتھ اس گروہ کی قوت شامہ میں لائق داد و تحسین ہے براہ راست عرش سے فیض پانے والے یہ حضرات خود کش بمباروں کی قبروں سے جنت کی خوشبوئیں سونگھتے ہیں لیکن خود کش دھماکوں میں مرنے والوں کا خون بے بو ثابت ہوتا ہے۔ خود کش بمباروں اور انسانیت کے دشمنوں کی سوچ و کردار کا تعفن مجال ہے کہ ان کی ناک کے قریب سے بھی گزرے۔

حق شناسوں کی بصیرت میں دیکھ لیجئے۔ انہیں ٹی وی اخبار یا بازار میں عریانی و فحاشی ٹپکتی دکھائی دیتی ہے عقابی نگاہ نواسی یا پوتی کی عمر کی لڑکی کو بھی اگر ایک سیکنڈ کے کمرشل میں دیکھیں تو اعضا کی تفصیل یوں بیان کر دے کہ بندہ اپنی کم نگاہی کو کوسنے پر مجبور ہو جائے۔ ادھر عورت نظر آئی اُدھر عریانی کشید کر لی۔ اصل مٰں \”نگاہ مقام آشنا\” ناف کے گردو نواح میں اٹک کر رہ گئی ہے۔ اور ہر طرح کے لباس کے آرپار ہو رہی ہے یہ وہی زاویہ نگاہ ہے جسے عمران خان کا ٹراﺅزر پر گیند رگڑنا حیا سوز عمل لگتا تھا۔

کاش قندیل بلوچ کی قبر سے آوازیں سننے والے گجرات کی ماریہ کی آواز سنتے جو حاملہ تھی اور جنسی فاقہ کشوں کے تشدد کی نذر ہوئی اور جس نے بعد میں تیل سے\"qandeel\" غسل کیا اور خود سوزی کر لی۔ کاش بم دھماکوں میں مرنے والوں کی آہ و فغان بھی ان کے کانوں سے ٹکرائے۔ یہ مردہ ضمیر ہمیشہ مردوں کی آوازیں ہی کیوں سنتے ہیں۔ آج جو امجد صابری کی قبر پر کان جمائے بیٹھے ہیں انہیں ان کی زندگی میں \”جب وقت نزاع آئے دیدار عطا کرنا\” سننے کی توفیق کیوں نہیں ہوئی۔ ان بیمار سماعتوں کو علاج کی اشد ضرورت ہے۔ آواز علم طبعیات سے تعلق رکھتی ہے جب تک مابعدطبعیات والے اس پر طبع آزمائی کرتے رہیں گے تو زندہ آوازیں ان کے بہرے کانوں تک نہیں پہنچیں گی۔

سماعت کے ساتھ ساتھ نظر کا معائنہ بھی کروا لیں تو شائد ان شکاریوں کو دریا میں مچھلی کے علاوہ بھی کچھ نظر آئے۔ زاویہ نگاہ بدلنا ہو گا کیوں کہ ناف کا مقام نہیں بدلاجا سکتا۔ سماعتوں کو قبروں سے ہٹا کر زندہ انسانوں کے زمینی مسائل کی طرف لگانے کی ضرورت ہے۔ اور عقل و فراست کی قندیلیں روشن کرنے کا وقت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments