علما ایک ہی دفعہ بتادیں کتنی معافیاں ابھی خاکسترمیں ہیں


ٹینکرز مافیا سے آشنا اور پانی کی بوند بوند کو ترستا کراچی اب پانی پانی ہوچکا ہے۔ ویسے تو سارے صوبوں کا ایک سا حال ہے لیکن کراچی تو کسی گہری جھیل کا سا منظر پیش کر رہا ہے۔ حکومتوں کے لئے کووڈ کی وبا کے ساتھ ساتھ سیلاب اور نکاسی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔

یار لوگوں نے تو مذاق بنا لیا لیکن بلاول کی بات درست ہے کہ جب بارش ہوتی ہے تو پانی آتا ہے اور جب زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے۔ مسئلہ پھر پیدا ہوتا ہے جب زیادہ پانی آ جائے تو اس کی زیادہ نکاسی کا انتظام نہ ہو۔ جو وسائل دستیاب ہوتے ہیں وہ بھی پورے نہیں ہوتے۔ محکمہ موسمیات کو بھی جناب وزیراعظم کی طرح ٹی وی سے پتہ چلتا ہے کہ بارشیں شروع ہو چکی ہیں اور اب زیادہ پانی آ جائے گا۔ صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت سب سے پہلے ایک دوسرے سے لڑائی کا سامان کرتی ہیں کہ شاید بیان بازی کی گرمی سے ہی پانی سوکھ جائے۔

سوشل میڈیا پر جیالے، متوالے، کھلاڑی دوسرے شہروں بلکہ ملکوں کی تصویریں دکھا کر ایک دوسرے کو کوسنے دے رہے ہوتے ہیں۔ چیف آف آرمی سٹاف فوج کو تمام وسائل بروئے کار لانے کا حکم دیتے ہیں تو وزرائے اعلی بوٹ پہن کر یا ہیلی کاپٹر کو سلف مار کر شہر کے دورے کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اتنے میں پتہ چلتا ہے کہ مشینری عدم توجہ سے خراب اور زنگ آلود ہو چکی ہے۔ ڈوبتی اور گرتی دیواروں کے نیچے آتی پبلک کی مہربانیوں، لفافوں اور گند سے رہے سہے نالے، نالیاں بن چکے ہوتے ہیں، سیوریج سسٹم جس کا کام گندے پانی کی نکاسی ہے وہ اپنی صفائی کی دہائی دیتا نظر آتا ہے۔

یہ درست کہ جب طوفانی بارشیں ہوں یا آفت آ جائے تو ہر سطح پر حکومتیں متحرک ہوتی ہیں لیکن دیکھا جائے تو بہت سے اور کاموں کی طرح یہ کام ابتدائی شکل میں وفاقی یا صوبائی حکومتوں کا نہیں ہوتا۔ لوکل گورنمنٹ کی فعالیت بہت سے مسائل کو اوپر تک آنے سے بچاتی ہے۔ لیکن پورے ملک میں نہ کسی لوکل گورنمنٹ کا وجود ہے نہ مینڈیٹ۔ کراچی جیسے میٹروپولیٹن کا مئیر ہمیشہ آنسو بہاتا پایا گیا کہ میرے ہاتھ بس میں کچھ نہیں۔ سڑکوں اور نالیوں کے لئے ایم پی اور ایم این اے کو کوسنے والی پبلک ویسے ہی بے خبر ہے کہ کس کا کیا کام ہے۔ رہ گئے پالیسی ساز تو وہ آئینی نظام وضع کرنے پر توجہ دیں یا سڑکوں نالیوں کے فنڈز کے حصے پر اور ایک دوسرے جو نیچا دکھانے پر ؟ ایک وقت میں تو بس ایک ہی کام ہو سکتا ہے۔

گھٹیا سیاست سے اوپر اٹھ کر ملک کی بہتری کے لئے خصوصاً بلدیاتی ڈھانچے کی بہت ضرورت ہے۔ جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو میٹروپولیٹن کراچی اور لاہور کی خود مختار حکومتوں کے قیام کی سخت ضرورت ہے۔ باقی اداروں کی فعالیت کی بھی اشد ضرورت ہے کہ ایسی کسی مصیبت کی صورت میں جب ساری قوم کی توجہ ایک طرف ہو تو دوسرے ادارے بھی ہاتھ پہ ہاتھ دھر کے بیٹھ جاتے ہیں، وارداتیں ڈال دی جاتی ہیں۔ پچھلے کسی معاملے کی کوتاہیاں بھی کسی نئے واقعے کے سیلاب میں چھپ جاتی ہیں۔ کیا کسی کو پی آئی اے کا حادثہ اور رن وے کے انتہائی نزدیک ناجائز تعمیرات یاد ہیں؟

پبلک بھی ایسے موقعے پر حکمرانوں کو بددعائیں دیتی اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہوجاتی ہے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے گند کے ٹرک نالوں میں الٹائے جا رہے ہوتے ہیں (اب تو دریاؤں کے ساتھ بھی یہ سلوک شروع ہو چکا ہے ) یہ خود بھی سارا سال کوڑا کرکٹ انہی نالوں میں پھینک کر پانی کی رہی سہی گزرگاہیں بند کر رہے اور پھر بارشیں رکنے کی دعائیں کر رہے ہوتے ہیں۔ انڈا یا مرغی، پہلے حکومت نے پبلک کو وسائل فراہم کر کے تربیت دینی ہے یا پبلک نے اپنے حصے کا کام کر کے حکومتوں پر دباؤ ڈالنا ہے۔

پانی زیادہ ہو یا کم، زلزلہ ہو یا وبا کسی بھی مشکل کے وقت علما کا بس ایک ہی رٹا رٹایا بیان ہوتا ہے کہ پبلک اپنے گناہوں کی معافی مانگے۔ ان سے عرض یہ ہے کہ ایک ہی دفعہ بتا دیں کہ کتنی معافیاں مانگنی ابھی قوم کے مقدر میں باقی ہیں۔ بہت سے ممالک معافی کے بغیر ہی مسائل سے نبردآزما ہو جاتے ہیں اور کامیاب بھی رہتے ہیں۔ ثابت تو یہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالی بھی زبانی معافیوں کی بجائے عملی کاموں کو زیادہ پسندیدہ رکھتا ہے۔

اداروں کی فعالیت کا یہ عالم ہوگا کہ کوئی اور محکمہ اب لمبی تانے سو رہا اور کسی بحران کا انتظار کر رہا ہوگا۔ پھر خاکم بدہن کوئی گندم بحران، چینی بحران، گیس بحران، بجلی بحران، یہ سکینڈل وہ سکینڈل۔ تو پھر ایک اور دریا کا سامنا ہی رہے گا جتنے مرضی دریاؤں کے پار اتر کے دیکھ لیں اور پھر کوئی اگلی بارش، اگلا زلزلہ، اگلا سیلاب، اگلی دعائیں، اگلی بددعائیں، اگلے طعنے، اگلی پھرتیاں، اگلے فنڈز اور اگلے گھپلے۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).