چکی کے دو پاٹ


دن بھر کا تھکا ماندہ سورج مغربی پہاڑوں کی اوٹ میں افق پہ لال رنگ بکھیرتا دھیرے دھیرے اتر رہا تھا۔ شہر کے نواح میں ایک جھگی کے باہر بیٹھے بابا جی نے لال لال آنکھیں کھولیں اور منہ اور ناک سے ایک ساتھ دھوئیں کی ایک لہر ہوا کے چہرے پر بکھیر دی۔ سبزی منڈی کے باہر ایک نیم برہنہ بچے نے کچرے کے ڈھیر سے ایک گلا سڑا لال ٹماٹر اٹھایا ٹٹولا اور اپنے تھیلے میں ڈال دیا۔ سڑک کنارے بیٹھے پھٹے جوتے کو دونوں پاؤں میں دبائے اس نے ماتھے سے پسینہ پونچھا اور آخری ٹانکا لگانے سے پہلے اپنے پاؤں کی پھٹی ایڑیوں کو غور سے دیکھا۔ ( یہ ایڑیاں نہیں سل سکتی تھیں۔ )

لال اشارے پہ رکی کار کے شیشے پہ دو ننھے گندے ہاتھوں نے دستک دی۔ کار کے شفاف شیشے پر ہاتھوں کے پسینے میں ملی میل نے بدنما نشان بنا دیے۔ مرجھائے ہوئے سورج مکھی جیسے چہرے نے حسرت، حسد، یا للچائی ہوئی نظروں سے اسکول سے نکلتے بچوں کو دیکھا۔ صاف ستھرے یونیفارم پہنے، ہنستے، قہقہے لگاتے اس کے سامنے سے گزرتے چلے گئے۔ (آپ نے وہ تصویر تو دیکھی ہوگی جس میں ایک بچہ ایک کمرہ جماعت کے باہر کاندھے پہ تھیلا لٹکائے، پھٹے کپڑے پہنے، آنکھوں میں آنسو لئے حسرت بھری آنکھوں سے اندر جھانک رہا ہے۔ سنا ہے مصور کو فن کا یہ شاہکار بنانے پہ بہت سے ایوارڈز اور انعامات ملے۔ مگر کیا وہ بچہ دروازے سے داخل ہو کر کلاس میں بیٹھ چکا ہے۔ کسی کے پاس یہ خبر ہو تو ضرور مطلع فرمائیے گا۔ )

کھیتوں میں گوڈی کرتے اس نے جھکے جھکے ایک لمحے کو دور کچی سڑک پہ دھول اڑاتی گاڑیوں کے قافلے کو دیکھا۔ اس کے کانوں میں ایک آواز گونجی۔ ’لگتا ہے آج سائیں شکار کو نکلے ہیں۔ اپنی چھوٹی شیداں کو گھر سے نہ نکلنے دینا۔ فضلو بتا رہا تھا کہ کہ صبح حویلی پہ کچھ عربی شیخ بھی آئے ہوئے تھے۔ یہ شیخ جب جب آتے ہیں۔ ۔ ۔ تجھے پتا ہے ناں؟‘ ۔

جرگہ دونوں فریقوں کی ساری کتھا سن چکا تھا اور ملک صاحب فیصلہ سنا رہے تھے۔ ’سنگین خان اپنے جرم کا اقرار کر چکا ہے۔ مولوی صاحب نے فساد پھیلانے کو گناہ عظیم قرار دیا ہے۔ اب روایت اور مذہب دونوں کا یہی تقاضا ہے کہ فساد کو پھیلنے سے روکا جائے۔ سنگین خان کی کوئی بیٹی نہیں اس لئے یہ اپنی دس سالہ پوتی کا ہاتھ زمرد خان کے ہاتھ میں دے گا۔ چلو سب ہاتھ اٹھاؤ۔ مولوی صاحب دعا کرائیں‘ ۔ زمرد خان نے اپنے لرزیدہ ہاتھ دعا کے لئے اٹھا لئے۔ ہاتھوں کی اوٹ میں روئی کے گالوں جیسی سفید مونچھوں کے نیچے ہونٹوں کے دائیں کنارے کا بند توڑتی رال سفید داڑھی میں جذب ہو گئی۔

رات گہری ہو چکی تھی۔ شہر کی سب سے بڑی بیکری کے سامنے پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھے بیٹھے اس نے گردن جھکائی ہاتھ میں تھامی بندوق کا بٹ زمیں پہ جمایا ہتھیلی بندوق کی نالی پہ رکھی اور نیند سے بوجھل آنکھیں بند کرتے ہوئے پیشانی الٹی ہتھیلی پہ رکھ لی۔

گہرے سکوت میں چارپائی کی چرچراہٹ گونجی، اس نے ریزہ ریزہ اپنے غلیظ بدن کو سمیٹا، گردن پہ کاٹنے کے سرخ نشانوں کو دوپٹے میں لپیٹا، کانوں میں گونجتی غلیظ گالیوں کو جھٹکنے کی کوشش کرتے سو سو روپے کے پانچ لال لال نوٹ اپنے بلاؤز میں ٹھونسے اور دروازے سے باہر نکل گئی۔ کہیں پاس ہی ایک اور گھر میں شیشے کے سامنے کھڑے اس نے اپنے ادھڑے ادھڑے وجود کو اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے جوڑنے کی کوشش کی اور خالی ہاتھ اپنے مرد کے پہلو میں لیٹ گئی۔ وہ مفتوحہ زمیں تھی جو ہر رات فتح ہوتی تھی۔
زمانہ چکی کے دو پاٹوں کی مثال ہے۔ ہم دانے دنکے۔ اس نے آخری جملے لکھے اور قلم توڑ دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).