سیلف ایکچوالائزیشن کا فلمی منجن


میں ’سیلف ایکچوالائزیشن‘ کی فلمیں دیکھ دیکھ کر تنگ آ گیا ہوں۔ مگر یہ کون سی فلمیں ہوتی ہیں؟ ان کی خاص بات کیا ہے؟

سب سے پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ یہ سیلف ایکچوالائزیشن ہے کیا بلا؟ یہ بلا علم نفسیات کے دو چورن بیچنے والوں سے منسوب سے۔ ایک کا نام تھا ابراہم ماسلو اور دوسرے کا کارل راجرز۔ یہ دونوں امریکی تھے اور انہوں نے ایک سراب میں جدید نفسیات کو الجھا دیا۔ یہ اچھی اچھی باتیں کرنے والے سرمایہ داری کے ربی، پنڈت، پادری، نیم سرمایہ دار، ’اسٹیٹس کو‘ کے ہرکارے تھے اور فرائیڈ کے نفسیاتی نظام کے خلاف ایک نام نہاد اچھائی کی دیوار کھڑی کر رہے تھے۔ انہوں نے نظریہ پیش کیا کہ ’انسان اچھا ہے‘ ، حالانکہ یہ طے ہی نہ کرسکے کہ ’اچھا‘ ہوتا کیا ہے۔ دعویٰ کیا کہ ’انسان تو بڑھوتری اور ترقی چاہتا ہے۔ بس دنیا اس میں فساد ٹھونس دیتی ہے۔ اسے وہ بنا دیتی ہے جو وہ نہیں ہے۔‘ مگر جو وہ ہے وہ وہ ہے۔ یعنی جو وہ نہیں ہے وہ وہ نہیں ہے۔ ۔ ۔ الجھ گئے آپ؟

سمجھ لیں کہ آپ ایک بکری ہیں۔ مگر دنیا آپ کو مرغی بنا دیتی ہے۔ کیونکہ دنیا کو مرغی پسند ہے۔ اب وہ کہتی ہے کہ مرغی بنے رہو تو توجہ ملے گی، مرغی بنے رہو گے تو عزت ملے گی۔ خرابی دنیا میں ہے آپ میں نہیں۔ آپ تو بہت اچھے ہے۔ یہ راجرز صاحب بہادر کا منجن ہے۔ ماسلو بھائی صاحب کے پاس تو سیلف ایکچوالائزیشن کی سیڑھی ہے۔ پہلے فلاں خواہشات و ضروریات پوری ہوں گی، پھر فلاں پھر فلاں اور آخر میں انسان بالکل ’جب وی میٹ‘ کا (بعد والا) شاہد کپور بن جائے گا، یا پھر انکل مجبور بن جائے گا (یا پھر رابعہ؟ )

یہ ماسک اتارنے والے نظریات دینے والے، انسان کو کوئی پیاز سمجھ لیتے ہیں۔ سردی میں انسان بہت سے کپڑے ایک کے اوپر ایک پہنتا ہے۔ اس نفسیاتی نظریے سے یہ سب کپڑے ماسک کی مثال ہیں۔ ان کے اندر حقیقت چھپی ہے۔ مگر سردی میں کوئی ننگا ہو، تو چاہے دنیا کو دیکھنے میں بہت مزا آئے (یا کراہیت محسوس ہو) مگر انسان کو سردی تو لگے گی ہی ناں؟ یہ کپڑے بے وجہ تو نہیں، یہ ماسک اور پردے بے وجہ تو نہیں۔ مگر یہ بات ماسلو اور راجرز صاحب کو کون سمجھائے؟

خیر یہ اچھائی پر مبنی نفسیاتی نظریات مجھے تو پسند نہیں لیکن یہ غالباً ’ایم بی اے‘ کرنے والوں اور اتھلی نفسیات پڑھنے والوں کو انسان کی روح کا ’ایکس رے‘ معلوم ہوتے ہیں۔ جہاں سے دیکھو یہی گٹر ابل رہا ہے۔ لگتا ہے ’ایم بی اے‘ کرنے والے ہی فلم ساز بن گئے ہیں۔ ’انسان اچھا ہے اور بڑھوتری چاہتا ہے، انسان اچھا ہے اور ترقی چاہتا ہے، انسان اچھا ہے اور خود کو سمجھنا چاہتا ہے‘ یہ منتر، یہ ہی پروگرامنگ اکثر نئی فلموں میں کہیں پوشیدہ ہے۔

پھر یوں لگتا ہے کہ دنیا نہیں ہے بلکہ ’این ٹی ایس‘ کے امتحان کا ’ایم سی کیو‘ ہے۔ ہر سوال میں، ہر صورتحال میں تین جواب غلط ہیں ایک صحیح ہے۔ ایک سچ ہے تین جھوٹ ہیں۔ صحیح کو پہچاننا ہے چاہے خود میں یا باہر، یہی فلمی ’سیلف ایکچوالائزیشن‘ ہے۔ امتیاز علی صاحب کی ’ہیری میٹ سیجل‘ میں سیجل صاحبہ کے ایک منگیتر ہیں، وہ ان کو پسند بھی ہیں۔ اتنے پسند ہیں کہ ان کی دی ہوئی انگوٹھی ڈھونڈنے کے لئے وہ سارے یورپ کا چکر دوبارہ لگانے کے لئے تیار ہیں۔

مگر ان پر اس سفر میں کھلتا ہے کہ اس ’ایم سی کیو‘ میں ان کے منگیتر تو غلط جواب ہیں، صحیح جواب تو شاہ رخ خان صاحب ہیں۔ اور خان صاحب پر بھی یہ بات القاء ہوتی ہے کہ آوارہ بھنورے کی آزاد زندگی تو غلط جواب ہے۔ صحیح جواب تو انشکا شرما یعنی سیجل صاحبہ ہیں۔ کردار اپنی پسند ناپسند کی پہیلی ہی بوجھنے میں لگے رہتے ہیں۔ ”تمہارا ایک احسان رہے کا مجھ پر۔ ۔ ۔ صرف ایک۔ ۔ ۔ کہ تم ارجمنت کو واپس لے آئے نہیں تو میں کبھی سمجھ نہیں پاتی کہ میں کیا چاہتی ہوں۔ اب میں اپنے دل کی بات سننے والی ہوں آدتیہ پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ۔ ۔ (ہیروئن ہیرو کا دس سیکنڈ کا بوسہ لیتی ہے۔ )“ سین کٹ ہوتا ہے اور گانا شروع ہوتا ہوتا ہے،

موجاں ہی موجاں ’سیلف ایکچوالائزیشن
موجاں ہی موجاں ’سیلف ایکچوالائزیشن

مطلب ’خود کو سمجھو، خود کو پہچانو‘ ۔ چلو اچھی بات ہے مگر ’خود‘ کہیں چھپا ہوا ہے، کہیں سکڑا سمٹا بیٹھا ہے؟ یہ کیا بات ہے؟ ’خود‘ کوئی خزانہ ہے، ٹھیک ہے، مگر ’خود‘ کوئی ’پوشیدہ‘ خزانہ ہے اس کی کیا دلیل ہے؟ زندگی کے ہر لمحے میں دس جوابات موجود ہیں، درست، مگر ان میں سے کوئی ایک ہی صحیح جواب ہے اس کی کیا دلیل ہے؟ میں ماسک اتار دوں گا تو اندر حقیقت ہی برامد ہوگی اس کی کیا دلیل ہے اور اس کی کیا دلیل ہے کہ میں نے ماسک اتارا ہو، یہ بھی تو ممکن ہے کہ نیا ماسک ہی پہن لیا ہو؟ میری اپنی خواہشات ہیں یا کوئی سراب کہ جن کے جاننے کے لئے مجھے کسی غیر کی ضرورت ہے؟

راجرز صاحب فرماتے ہیں کہ ’جیسے ہو ویسا خود کو تسلیم کرو، خود کو ہر حال میں عزت دو۔‘ بہت خوب، بالکل صحیح مگر اس سے میں اپنی حقیقت کو پالوں گا یہ کیسی بات ہے؟ میں خود کو اسمارٹ دیکھنا چاہتا ہوں اور اس لیے خود سے نالاں ہوں کہ میرا جسم موٹا ہے۔ راجرز صاحب کہتے ہیں خود کو تسلیم کرو دکھ ختم۔ بالکل ٹھیک۔ اب میری خود سے ناراضگی تو ختم ہو گئی میں نے خود کو جو ہے جیسا ہے کی بنیاد پر تسلیم کر لیا لیکن اگر میں اپنی خواہش کو پا لیتا یعنی ورزشی جسم بنا لیتا تو میری وہ خوشی کیسی ہوتی جس سے مجھے راجرز صاحب نے محروم کر دیا؟

میں تو خود کو ہر حال میں عزت دے لوں گا اور دنیا کی دی ہوئی عزت و بے عزتی کو جوتے کی نوک پر رکھنا بھی سیکھ لوں گا مگر اس سے میں خود تک پہنچ جاؤں گا اس کی کیا دلیل ہے؟ تصور یہ ہے کہ میں ایک حقیقت تھا اور اپنی حقیقت پر قانع تھا کہ سماج نے آ کر مجھ پر اپنی پسند و ناپسند تھوپ دی۔ اچھا جی، مگر اب تو تھوپ دی۔ اب میں اگر سماج دشمن بنوں تو یہ ردعمل کی نفسیات ہے اور اگر سماج کی ہر بات کو قبول کروں تو اپنا وجود کہیں کھو جاتا ہے۔

مگر بات اتنی سی ہے کہ یہ لازم نہیں کہ سماج نے مجھ پر جو تھوپا ہے وہ لازمی طور پر میری حقیقت سے متضاد ہی کچھ ہو۔ پھر ایک بات یہ بھی تو ہے کہ جس نے کبھی حساب کا سوال نہیں کیا وہ جانتا ہی نہیں کہ وہ حساب میں کیسا ہوگا۔ مگر حساب میں اچھا ہونے سے یہ کیونکر ثابت ہوا کہ آپ اردو کے مضمون میں اچھے نہیں ہوسکتے مطلب یہ کہ آدتیہ سے محبت ہے تو مطلب ارجمنت سے محبت نہیں؟

ان ایکچوالائزیشن بھری فلموں میں لوگ اپنی محبت کو پاتے ہیں اور خود کو پا جاتے ہیں، لوگ ’سیکرٹ سپر اسٹار‘ بنتے ہیں اور خود کو پا جاتے ہیں، ’فنے خان‘ اپنی بیٹی کو اسٹیج پر گانا گوا دیتے ہیں اور خود کو پا جاتے ہیں۔ کہیں ماسلو کی خواہشات کی سیڑھی پر رش لگا ہے کہیں راجرز صاحب شخصیتوں اور رشتوں کا فیشل کر کے ’ڈیڈ اسکن‘ کہ تہہ اتار رہے ہیں۔ سیلف ایکچوالائزیشن ہے یا ’فائزہ بیوٹی کریم 223190‘ کہ جس سے ماسک کیا کھال ہی اتری جاتی ہے۔

انسان کی ذات ایک راز ہے اور شخصیت ایک اضافہ ہے۔ مگر ان فلموں میں شخصیت سے شخصیت، خواہش سے خواہش تک کا ہی سفر ہوتا ہے اور ذات کوپا لینے کے ڈھول بجائے جاتے ہیں۔ اپنی ہی خواہشات کو نہ پہچاننے والے کند ذہن کردار اچانک ایک خواہش کو آدتیہ اور دوسری کو ارجمنت قرار دے کر ایک کو گلے لگا لیتے ہیں ور دوسرے کو لات مار دیتے ہیں۔ ماسک کے اندر ایک اور ماسک ہے۔ خواہش سے خواہش کا سفر ہوتا ہے اور ذات تک رسائی کے نعرے لگتے ہیں۔

اس جھوٹ کے ’طومار‘ کو، سرمایہ داری نظام کے ’اسٹیٹس کو‘ کی ’افیم‘ کہا جائے تو بہتر ہے۔ ’خود‘ تک رسائی ’خواہش‘ سے نہیں، ’ترک‘ سے آتی ہے۔ ذات تک رسائی ماسک اتارنے کا ڈرامہ کرنے سے نہیں اپنے من میں ڈوبنے سے آتی ہے۔ یہ سبق ’مدینہ‘ کا بھی ہے، ’بودھ گیا‘ کا بھی، ’یروشلم‘ کا بھی، ’بغداد‘ کا بھی اور ’اجمیر‘ کا بھی۔ ’نیشا پور‘ کا سبق بھی یہی ہے۔ میر نے کہا تھا،

پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تئیں
معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا

خود تک رسائی ’خدا‘ کے بغیر ممکن نہیں۔ بے خدا تصورات میں شخصیت پر شخصیت کا ماسک چڑھانے اور اتارنے والے، خواہش پر خواہش، ہوس پر ہوس چڑھانے والے کیا جانے کہ ذات یا ’سیلف‘ کیا ہے؟ ’ایکچوالائزیشن‘ تو بہت دو رہی یہاں تو تصور بھی مٹ گیا۔ مجاز کے اوپر بھی مجاز ہے اور نیچے بھی مجاز ہے۔ حقیقت کا سفر اب قصوں، کہانیوں، اور فلموں میں بھی نہیں ہوتا۔ یہ دروازہ اب بند ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).