جنگ کے منڈلاتے سائے


\"irshad

کنٹرول لائن پر لگ بھگ جنگ کی سی کیفیت برپا ہے۔ عالم یہ ہے کہ ایک مسافر بس پر بھی فائرنگ کی گئی۔ زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے کی خاطر جب ایمبولینس پہنچی تو اسے بھی نشانہ بنایا گیا۔ شہری سراسیمہ ہوچکے ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں۔ مال مویشی اور اجڑے گھروں کو مال و اسباب سمیت اللہ کے حوالے کر کے لوگ پناہ کی تلاش میں بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں۔ اس وقت تک پنتالیس کے لگ بھگ شہری شہید اور ڈیڑھ سو کے قریب زخمی ہوچکے ہیں جب کہ درجنوں دیہات خالی ہوچکے ہیں۔

کنٹرول لائن عام سرحدوں سے بہت مختلف ہے۔ یہ کوئی باقاعدہ سرحد نہیں بلکہ جنوری 1949 کو جہاں بھارت یاپاکستان کی افواج کھڑی تھیں وہاں دیوار برلن کے طرز پر مصنوعی سرحد کھڑی کردی گئی۔ ایک بھائی پاکستانی کنٹرول کشمیر میں پایا جاتا ہے تو دوسرا مقبوضہ میں۔ ستم یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں لیکن گلے مل نہیں سکتے کہ سنگینوں کے سائے میں چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔ جنگ بندی ہوئی تولوگوں نے خطرات کے باوجود گھر بار چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں منتقل ہونے سے انکار کردیا۔ بعد میں پاکستانی فوج نے بھی مقامی لوگوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں آباد رہیں اور فوج کا ساتھ دیں۔ یہ آبادیاں فوج کی حلیف ہیں اورملک کے دفاع میں فوجی جوانوں کے شانہ بشانہ کھڑی رہی ہیں لیکن اب معاملہ یہ ہے کہ بھارت کی گولہ باری ماضی کی تمام حدیں پار کرچکی ہے۔ چھوٹے ہتھیار ہی استعمال نہیں ہورہے بلکہ توپ خانہ بھی میدان میں اتارا جا چکا ہے۔ کنٹرول لائن کے نواح میں ہی نہیں بلکہ دور دارز کے علاقوں تک ہتھیاروں کی گڑگڑاہٹ سے مکانات کے در و دیوار لرز رہے ہیں۔

برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد کشمیر ایک غیر معمولی احتجاج کی گرفت میں آگیا۔ پانچ ماہ سے مسلسل لوگ سرپا احتجاج ہیں۔ دنیا میں بھی یہ احتجاج کچھ نہ کچھ پذیرائی حاصل کررہا ہے لیکن اوڑی جیسے واقعات نے اور اب کنڑول پر طبل جنگ بجا کر بھارت نے کامیابی سے دنیا کی توجہ دیگرمسائل کی طرف مبذول کرا دی ہے۔ خطرناک بات یہ ہے کہ بھارت کی سیاسی اور عسکری قیادت اپنے فیلڈ کمانڈروں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ گولہ باری میں جس حد تک بھی جاسکتے ہیں جائیں۔ ایک بھارتی سابق فوجی افسر نے لکھا کہ ماضی میں ہمیں ایک ایک فائر کرنے کے لیے بھی دہلی کی اجازت درکار ہوتی تھی اور اب عالم یہ ہے کہ ایک کے بدلے دس فائر نہ کریں تو جواب طلبی کی جاتی ہے کہ کس حکم نے تمہارے ہاتھ باندھے تھے جو اس قدر کمزور جواب دیا؟

وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کسی بھی قیمت پر پاکستان کے سامنے کوئی کمزوری نہیں دکھانا چاہتی ہے۔ وہ بھارت کے اندر ریاستی الیکشن میں داخل ہوا ہی چاہتی ہے۔ اترپردیش کا الیکشن تو سر پر کھڑا ہے جہاں حزب اختلاف کی جماعتیں اور بہوجن سماج وادی پارٹی کا کافی زور ہے۔ علاوہ ازیں اسے دنیا کی شہ بھی حاصل ہے۔ حال ہی میں چین اور روس کے صدور ممبئی میں ایک کانفرنس میں شریک ہوئے۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین جو انسانی حقوق کے علمبردار ہیں اور شہری آزادیوں کا ڈھنڈورا پوری دنیا میں پیٹتے ہیں، مودی سرکار کے سامنے بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔ انسانی حقوق کی علمبردار عالمی تنظیموں نے بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی۔ محض اس لیے کہ بھارت کی مارکیٹ وسیع ہے اور وہ مہنگے داموں ہتھیار خریدنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ جارحیت کا کیا جواب دیا جائے؟ توپ کے گولے کا فطری جواب توپ کا گولہ ہی ہوتاہے اور ہمارے عوام بھی ایسا ہی جواب دینا پسند کرتے ہیں لیکن جنگ کی تمنا کرنا اور اسے دعوت دینا ایک خطرناک کھیل ہی نہیں بلکہ ذہنی مریض ہونے کی دلیل ہے۔

کشمیریوں کا مفاد بھی اسی میں ہے کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی پرامن حل نکل آئے اور اس کے لیے دنیا کی مدد حاصل کرنا بھی ناگزیر ہے۔ بھارت بھی ایک کھلی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ خود اس کی اقتصادیات کے لیے ایک خود کش حملے سے کم نہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی حکومت اور فوج اپنے دفاع کے لیے چوکس ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔ یہ جوہری ہتھیاراب بہت چھوٹی چھوٹی شکل میں بھی بنا لیے گئے ہیں تاکہ اگر ضرورت پڑے تو بھارت کے ٹینکوں کی یلغار کا مقابلہ کیا جا سکے۔ بہت سارے مبصرین کا خیال ہے کہ ان چھوٹے ہتھیاروں کی کمانڈ اور کنٹرول کا سسٹم اتنا موثر نہیں ہوسکے گا جتنا کہ بڑے ایٹمی ہتھیاروں کا ہے۔ اس صورت میں محدود یا روایتی جنگ نیوکلیائی جنگ کی شکل بھی اختیار کرسکتی ہے جس کا تصور بھی بھیانک ہے۔

پاکستان اور بھارت کے سیاستدانوں اور سفارت کاروں کی یہ اجتماعی ناکامی ہے کہ وہ تنازعات کا کوئی پرامن حل تلاش نہیں کرسکے اور آج خطے پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ اگلے ماہ بھارت کے شہر امرتسر میں ہارٹ آف ایشیا کے نام سے ایک کانفرنس ہورہی ہے۔ جس میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی شرکت کااعلان کیا جاچکا ہے لیکن بہت سارے عقاب صفت عبقری مشورہ دے رہے ہیں کہ بات چیت کا ہر دروازہ بند کردیا جائے۔ کشیدگی کم کرنے کے لیے یہ ایک اہم موقع ہے جس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

سرحدوں پر جاری کشیدگی پاکستان کی اپنی معاشی ترقی اور بالخصوص پاک چین اقتصادی راہ داری کے مستقبل کے لیے بھی سود مند نہیں۔ چین کی سرمایہ کاری کے بعد دنیا کے بہت سارے اور ملک بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کی طرف راغب ہوریے ہیں لیکن اگر یہ خطہ تناؤ یا کشیدگی کا شکار ہوتاہے تو پھر کوئی بھی سرمایہ دار پاکستان کا رخ نہیں کرے گا۔

داخلی طور پر بھی پاکستان غیر مستحکم ہوسکتاہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر پر کوئی مفاہمت یا سودے بازی کیے بغیر بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کی کوشش جاری رکھے۔ اس سلسلے میں مغربی ممالک کی معاونت بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت کے پاس ایک موقع ہوگا کہ وہ خارجہ امور پر اپنے سیاسی نقطہ نظر کو منوائے، اہم پالیسی معاملات پر اپنی گرفت مضبوط بنائے اور زیادہ تیزی اور آزادی کے ساتھ پہل قدمی کرے۔

علاوہ ازیں پاکستان کو اقوام متحدہ کے خطے میں تعینات فوجی مبصرین کو بھی متحرک کرنا چاہیے تاکہ یہ عالمی ادارہ بھی کوئی کردار ادا کرسکے۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی نے کافی سرگرمی دکھائی ہے جسے مزید مربوط بنایا جانا چاہیے۔ انہوں نے اس عالمی فورم کو جھنجھوڑنے کی کافی حد تک کامیاب کوشش کی ہے۔

آخری بات یہ ہے کہ آزادکشمیر کی حکومت کے پاس مالی وسائل ہیں اور نہ استطاعت کہ وہ کنڑول لائن پر جاری جنگ کے نیتجے میں ہونے والے نقصانات یا نقل مکانی سے نبردآزما ہوسکے۔ چنانچہ وفاقی حکومت کو اس سلسلے میں کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس وقت تک وفاقی حکومت معمول کے مالی وسائل بھی واگزار نہیں کررہی جس کے سبب وزیراعظم راجہ فاروق حیدر کی حکومت سخت مالی مسائل سے دوچار ہے۔ وقت آگیا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس میں نقل مکانی کا شکار لوگوں کی مشکلات دور کرنے کے لیے باقاعدہ ایک سیل قائم کیا جائے جو میڈیا کو بھی معلومات فراہم کرے اور حکومت کو بھی مسلسل حالات سے آگاہ کرے۔

کالم پر تبصرے کے لیے لکھیں: ershad.mahmud@gmail.com

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments