جرمنی اور برطانیہ نے تحریک خلافت سے کیسے فائدہ اٹھایا؟


ہر شخص کو اس بات کی آزادی ہے کہ اپنے ضمیر کے مطابق عقیدہ رکھے۔ ہم ایک شخص کے نظریات یا عقائد سے اختلاف تو کر سکتے ہیں لیکن اسے اس حق سے محروم نہیں کر سکتے۔ لیکن قومی سطح کے معاملات کے معاملے میں یہ احتیاط ضرور کرنی چاہیے کہ کوئی بیرونی طاقت مذہبی جذبات کا سہارا لے کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے۔ بد قسمتی سے تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ بسا اوقات دنیا کے بڑی طاقتیں مختلف ممالک میں پائے جانے والے مذہبی جذبات کا فائدہ اُٹھا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ ایک ایسا ہی مرحلہ پہلی جنگ عظیم کا دور تھا۔ اس دور میں بڑی طاقتوں نے مذہبی جذبات سے فائدہ اُٹھا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی اور اس کے نتیجے میں جو بندر بانٹ کی گئی اس نے ایسے المیوں کو جنم دیا جن کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت بہت سے عرب ممالک ترکی کی سلطنت عثمانیہ کے تحت تھے۔ اور سلطنت عثمانیہ کے سلطان اپنے آپ کو خلیفۃ المسلمین کہلاتے تھے اور اس نسبت سے ہندوستان میں بھی بہت مسلمان ان سے گہری وابستگی رکھتے تھے۔ پہلی جنگ عظیم سے بھی کافی پہلے جرمنی کے اہل اقتدار اس بات کا منصوبہ بنائے بیٹھے تھے کہ ترکی کی اس پوزیشن کا فائدہ اُٹھایا جائے۔ چنانچہ جرمنی کے بادشاہ قیصر ویلہم ثانی نے دمشق کا دورہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ عالم اسلام کے محافظ ہیں۔ اور ان کا اتنا سحر پیدا ہو گیا کہ انہیں “حاجی ویلہم”کے نام سے پکارا جانے لگا۔ اور بہت عرب شہروں میں یہ خبر گردش کرنے لگ گئی کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے آغاز پر سلطنت عثمانیہ کا جرمنی کے اتحادی کے طور پر میدان میں آنا اسی سلسلہ کی کڑی تھی۔

جب 1914 میں پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو انہی” حاجی ویلہم” صاحب نے جرمنی کی ایجنٹوں کو یہ ہدایت جاری کی کہ وہ برطانیہ کے تحت مختلف مسلمان ممالک میں لوگوں کے جذبات اچھی طرح بھڑکائیں تاکہ وہ خلیفۃ المسلمین یعنی ترکی کے سلطان کا ساتھ دیں اور برطانیہ کی حکومت کے خلاف بغاوت کر دیں۔ اس وقت دنیا کے ستائیس کروڑ مسلمانوں میں سے دس کروڑ مسلمان برطانیہ کے محکوم ممالک میں آباد تھے۔ جرمنی کی عسکری قیادت نے ایک میمورنڈم بھی تیار کیا تھا کہ کس طرح برطانیہ اور روس کے تحت آباد مسلمانوں کو ان طاقتوں کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا جائے۔ اسی جرمن پروگرام کے تحت ترکی کے سلطان نے اعلان کیا کہ برطانیہ، روس اور فرانس اسلام کے دشمن ہیں۔ ان سے جہاد ضروری ہے۔

(What The British Did , by Peter Mangold, published by I.B.Tauris 2016, p 69)

جرمنی مذہب کا کارڈ استعمال کر رہا تھا تو برطانیہ اور اس کے اتحادی کس طرح پیچھے رہ جاتے؟ اس وقت حجاز کا علاقہ سلطنت عثمانیہ کے تحت تھا لیکن ہاشمی خاندان کے حسین ابن علی شریف مکہ کے طور پر وہاں کے مقامی حکمران تھے۔ جیسا کہ خاکسار نے گذشتہ کالم میں ذکر کیا تھا کہ انہوں نے مصر میں برطانیہ کے سفیر میکموہن سے خط و کتابت شروع کی۔ پہلے خط میں انہوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ دونوں کا سمجھوتا ہونے کی صورت میں برطانیہ مسلمانوں کی عرب خلافت کی حمایت کرے گا۔ اس وقت ترکی کے سلطان کو ہی عمومی طور پر خلیفۃ المسلمین کہا جاتا تھا۔ اور 30 اگست 1915 کو میکموہن نے اس خط کا جواب دیا اور اس میں انہوں نے یہ یقین دلایا کہ جب بھی عالم اسلام کے لئے عرب خلافت کا اعلان کیا گیا برطانیہ اس کی حمایت کرے گا۔ اور ہز میجسٹی کی حکومت عربوں کی خالص نسل میں خلافت کے دوبارہ اجرا کی حمایت کرے گی۔ اس کے جواب میں شریف مکہ نے 7 ستمبر کو جو خط میکموہن کو لکھا اس میں یہ جملہ بھی شامل تھا کہ خدا خلافت پر رحم کرے اور مسلمانوں کو اس کے ذریعہ آرام پہنچائے۔ اور یہ بھی لکھا کہ میرا ارادہ ہے کہ آپ کے اعلان کی تائید میں بیان دوں کہ آپ کی مخالفت صرف اس گروہ سے ہے جس نے خلافت کے حقوق پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے۔ اور اس میں مسلمانوں کے تمام حقوق شامل ہو جائیں گے۔

قیصر ولہم (ترکی لباس میں)

 ترکی کی سلطنت عثمانیہ کے خلیفہ کے ساتھ سب سے زیادہ ہمدردی ہندوستان کے مسلمانوں میں پائی جاتی تھی۔ اس کا کیا حل ڈھونڈا گیا؟ آل انڈیا مسلم لیگ کے 1918 کے اجلاس کے آغاز پر اپنے استقبالیہ خطاب میں مسٹر انصاری نے اس بات پر احتجاج کیا کہ حکومت مذہبی معاملات میں نامناسب مداخلت کر رہی ہے۔ کیونکہ کئی مساجد کے منتظمین پر دبائو ڈالا گیا ہے کہ وہ خطبہ جمعہ میں سلطنت عثمانیہ کے خلیفہ کا نام نہ لیں۔ اور کئی لوگ ایسا فتوے پر دستخط لینے کے لئے دوڑ دھوپ کر رہے ہیں کہ جس کی رو سے باغی شریف مکہ کو مسلمانوں کا خلیفہ بنانے کا اعلان کیا جائے۔ اور اس بات کو اب ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔

(Foundation Pakistan Vol 2, p 588)

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت ہندوستان کی برطانوی حکومت اس بات کے لئے کوششیں کر رہی تھی کہ ہندوستان کے مسلمان شریف مکہ کو بطور خلیفۃ المسلمین قبول کر لیں کیونکہ شریف مکہ ان کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ شریف مکہ نے جولائی 1915 کو میکموہن کو جو خط لکھا اس کے بعد برطانیہ کی حکومت کو یہ خیال آیا کہ انہیں مسند خلافت پر بیٹھا کر فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اپریل 1915 کو برطانیہ کےوزیر ہند کریو نے ایک رپورٹ لکھی اس کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

“میں نہیں سمجھتا کہ استنبول پر قبضہ ہو جانے کے بعد شریف مکہ حسین سے متعلق ہماری پالیسی کی وجہ سے ہمیں کوئی پریشانی ہو گی۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اسے ترکی کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے ہمارے بس میں جو کچھ ہے کریں۔ لیکن اس سلسلہ میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے اور کسی کو یہ پتہ نہ چلے کہ ہم اسے خلافت کے مقام پر بٹھانا چاہتے ہیں۔ ہندوستان میں آجکل پین اسلام ازم کی جو تحریک چلی ہوئی ہے اس کا منبع اور مرکز استنبول ہے۔ یہاں کے مسلم اس بات کو قطعا پسند نہیں کریں گے کہ خافت عثمانیوں کے ہاتھ سے نکل جائے۔ لیکن شریف مکہ یا کوئی اور عرب سنی لیڈر اپنے آپ کو عثمانیوں سے آزاد کر کے خلافت جیسے متبرک عنوان کو حاصل کر لے تو مسلمان رائے عامہ اس امر کو واقعی قبول کر لے گی اور ہندوستانی مسلمانوں کے لئے بھی ان کا ساتھ دینے کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں رہ جائے گا۔۔۔۔ لیکن اس کے باوجود میرا خیال یہ ہے کہ آئندہ مسئلہ خلافت کی بنا پر مسلمانوں میں پھوٹ پڑ سکتی ہے۔ در حقیقت اگر دیکھا جائے تو اس پھوٹ میں سراسر ہمارا فائدہ ہی ہے۔ “

[تحریک خلافت مصنفہ میم کمال اوکے، ناشر قائد اعظم اکیڈمی اگست 1991ص 54]

اس رپورٹ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے آغاز پر برطانوی حکومت نے ہندوستان کے مسلمانوں سے جو وعدہ کیا تھا کہ عثمانی خلافت کو نہیں چھیڑا جائے گا وہ محض دھوکہ ہی تھا۔ ورنہ شروع ہی سے نیت ہو چکی تھی کہ شریف مکہ کو عثمانی خلیفہ کے مقابل پر خلافت کا امیدوار بنا کر اپنےمقاصد حاصل کرنے ہیں۔ چونکہ اب بہت سے خفیہ کاغذات سامنے آ چکے ہیں اس لئے ہمارے لئے نتائج اخذ کرنا آسان ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ماضی قریب میں بھی بڑی طاقتیں مذہبی جذبات کی آڑ میں اپنا مطلب نکالتی رہی ہیں یا نہیں اور کیا یہ سلسلہ اب تک جاری ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).