ہاں میں کراچی ہوں


فیض احمد فیضؔ نے کراچی شہر کی مصروف اور بھرپور زندگی کو دیکھتے ہوئے اسے روشنیوں کا شہر قرار دیا تھا۔ کراچی پاکستان کاپہلا دار الحکومت اس لئے قرار پایا تھا کہ اس شہر میں 1947ء ہی سے ایسے سلسلہ ہائے روزگار اور دیگر معاشی خصوصیات موجود تھیں، جس کی ایک دار الحکومت کو ضرورت ہوتی ہے۔ کراچی کا پاکستان کا معاشی ہب اور معیشت کی شہ رگ کہا جاتا ہے، کیونکہ کراچی ایک ایسا شہر ہے جو ملک پاکستان کو اربوں روپوں کے محصولات اور ٹیکس ادا کرتا ہے، جو کسی بھی ترقی پذیر ملک کے لئے قابل قدر ہو۔

پھر یو ں ہوا کہ اس شہر انارا کو حاسدین کی نظر لگ گئی، نتیجہ یہ نکلا کہ اسی شہر میں جہاں لوگ رات کے اندھیروں میں خود کو محفوظ خیال کرتے تھے، دن کے اجالوں میں عوام کی زندگیاں اجیرن کر دی گئیں۔ بارود کے دھویں کی بدبو نے ہر ذی روح کے متعفن کر دیا۔ عصمت دری، بوری بند لاشیں، دن دیہاڑے قتل، دہشت گردی، سٹریٹ کرائم اور گولیوں کی دن کے اجالے میں گھن گرج نے لوگوں کی جانوں کا سودا کرنا شروع کر دیا۔ ایسی سماجی مسائل اور برائیوں کو روکنا ہر آنے والی حکومت کے لئے چیلنج کے ساتھ ساتھ درد سر بھی بنا رہا کہ کسی طرح کراچی کا امن واپس لوٹ آئے۔

کسی طرح اس شہر بے مثال کی روشنیاں پھر سے جل اٹھیں۔ قدرت کاملہ کو اس شہر کے مکینوں پر ترس آیا تو سیاسی و عسکری قوتوں نے مل کر اس شہر کے سکون کو بحال کرنا شروع کر دیا۔ اگرچہ اس مقصد کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں سے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کی ایک کثیر تعداد ہے، لیکن سلام ہے رینجرز اور افواج پاکستان کے جوانوں کو جو راہ حق میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے شہید کہلائے۔ نذرانہ عقیدت اور تحسین ہے ان ماوں کو جنہوں نے ایسے لعل پید اکئے جن کے خون نے اس دھرتی کو سرخ خون دے کر سرخ ہونے سے بچا لیا۔

شاید قدرت کو ابھی ایسا منظور نہیں تھا۔ کیونکہ جب قدرت کاملہ کسی قوم سے ناراض ہوتی ہے تو اس پر قدرتی آفات کو نازل کر دیتی ہے۔ گزشتہ ایک ماہ سے طوفانی بارشوں کا سلسلہ اس بات کا شاہد ہے کہ قدرت نے کراچی کو اپنے عتاب میں لے رکھا ہے۔ جب انسان اللہ کی نہیں مانتے تو پھر وہ تو خدا ہے اپنی ذات و صفات کو منوانے کے اس کے پاس کئی طریقے ہیں۔ جس میں سے ایک طریقہ کا کراچی شکار ہوا ہے۔ قادر مطلق کو حق ہے کہ وہ جیسا چاہے کرے کیونکہ وہ تو ان اللہ علی کل شی قدیر ذات ہے۔ مگر ہمارے حکومتی کارندوں اور سیاسی فرعونوں کو کون سمجھائے. ان کا تو سلوگن ہی ایک ہے کہ رام رام جپنا، پرایا مال اپنا۔ اور مال کی ہوس تو قبروں تک لے جاتی ہے مگر ہوس زر کے پجاری من مزید کا راگ الاپنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔

کراچی کے ساتھ بھی انہوں نے ایسا ہی کیا۔ خاص کر موجودہ حکومت جس کا حکومتی دورانیہ سندھ میں حکومت کرنے کا سب سے زیادہ ہے۔ اور سندھ صوبہ کے اگر جغرافیہ اور اربن ایریاز کو دیکھا جائے تو محض چند شہر کے علاوہ تو ویرانہ ہی ملے گا۔ پورے سندھ میں سب سے زیادہ ریونیو فراہم کرنے والا کراچی سیاستدانوں کی ایسی بے رحمی کا شکار ہوا کہ اب جو بھی آتا ہے اسے کھانے کے لئے ہی آتا ہے۔ یقین جانیں اگر حاصل کردہ ریونیو کا آدھا بھی اس شہر بے مثال پر خرچ کر دیا جاتا تو آج بارشوں کے بعد سمندر اور دریاؤں کامنظر پیش کرنے والا کراچی پیرس نہیں تو کم از کم اپنی الگ حیثیت ضرور رکھتا۔

مگر حیف ہے ایسے لوگوں پر جو ابھی کراچی کے ساتھ اٹک پل والا سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔ مجھے یاد ہے زمانہ طالب علمی میں پشاور سے واپس آتے ہوئے اٹک قلعہ کی تاریخی عمارت دیکھنے کے لئے اٹک پل پر اتر گئے۔ قلعہ تو ان دنوں مارشل لا کے قبضہ میں تھا لیکن ڈیوٹی پر موجود پولیس افسران سے گپ شپ کرتے ہوئے یہ معلوم ہوا کہ جناب اس پل کی خستہ حالت کا ذمہ دار خود پل ہے۔ میں نے عرض کی کہ وہ کیسے تو وہ ازراہ تفنن کہنے لگا کہ اسے کس نے کہا تھا کہ ایسی جگہ بنے جس کا کوئی والی وارث ہی نہ ہو۔

مزید تفصیل سے اس نے ایسے سمجھایا کہ دیکھیں جی جب تو اس پل سے اکٹھا ہونے والے ریونیو کی بات ہوتی ہے تو دونوں صوبے یعنی پنجاب اور سرحد (اس وقت کے پی کے نہیں بنا تھا) اپنی اپنی ملکیت کا دعویٰ کر دیتے ہیں لیکن جب اس کی مرمت کا کام کروانا ہو تو دونوں صوبے حق ملکیت سے دستبرداری کا اعلان فرما دیتے ہیں۔ کچھ ایسا حال کراچی کے ساتھ بھی ہوا ہے کہ پیپلز پارٹی کب سے شور مچا رہی تھی کہ صوبوں کو ان کا حق نہیں ملتا جس سے صوبہ سندھ خاص کر ترقی میں باقی صوبوں سے پیچھے رہتا جا رہا۔

اب جبکہ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے سے صوبوں کو ان کے حقوق مل چکے ہیں تو انہیں ترقی کرنے سے کون سی طاقت ممانعت کر رہی ہے۔ ایک لحاظ سے تو اس ترمیم نے صوبوں کے ترقیاتی کاموں کو ننگا کر دیا۔ خاص کر کراچی کی موجودہ صورت حال نے۔ ناکارہ سیوریج سسٹم، نالوں کی صفائی نہ ہونا مگر اربوں کا فنڈ کھا جانا، ان دو باتوں نے پیپلز پارٹی کا پول کھول کر پورے پاکستان کے سامنے رکھ دیا ہے۔

حکومت سندھ کے ساتھ اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو اس سارے عمل میں عوام الناس کا بھی قصور ہے کہ جو شاپنگ بیگز کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے اسے نالوں، کچرے کے ڈھیروں اور گلیوں بازاروں میں پھینکنے سے ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ اپنے گھر کا گند دوسروں کے گھر کے سامنے پھینک کر وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنے گھر کو صاف کر لیا ہے۔ اس کا نتیجہ ان بارشوں میں سب کے سامنے ہے کہ سب سے زیادہ مسائل ان شاپنگ بیگ کی وجہ سے ہی پیدا ہو رہے ہیں۔

چار چار ارب روپیہ صفائی کی مد میں لگانے والی حکومت تو ان نالوں کی صفائی کروانے سے بھی قاصر ہے۔ اگر پورا سال ان نالوں کی صفائی ماہانہ بنیاد پر ہی کروائی جائے تو آج کراچی چیخ چیخ کر اپنا حال دنیا کے سامنے بیان کرتے ہوئے پاکستان کو شرمندہ نہ کر رہا ہوتا۔ آج کراچی کے گندے نالے پاکستان کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں کہ ہاں میں کراچی ہوں اور میرا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).