میں اداس تھا، میں خوش ہوں


ڈیپریشن کا اٹیک ہوا اور آدھی رات، جب تک اپنے آپ آنکھ نہ لگی، مستقبل کی فکر اور پلاننگ میں وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا۔ فون پر وقت دیکھا تو رات کے تین بج چکے تھے۔ تب دعا مانگ کر کروٹ لی، تو صبح گلی میں ہمسائے بچے کے گانے سے آنکھ کھلی۔

گزری رات کی فکر کا دماغ میں کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ میں نے سوچا ”میں تو اداس تھا!“ گویا اب کیوں وہ خیالات میرے دماغ میں ہلچل نہیں مچا رہے؟ اتنی سوچ آنی تھی کہ میں فون پکڑا اور گوگل اوپن کر لیا؛ ”ڈیپریشن کیا ہے؟ اور ڈیپریشن کیوں ہے؟“ کو سرچ کیا۔ سب سے اوپر جو نتیجہ مجھے دیا گیا وہ تھا ”اوور تھنکنگ“ مطلب ضرورت سے بڑھ کر سوچنا؛ مطلب کہ اپنی چادر سے بڑھ کر پاؤں پھیلانا۔

سب انسانوں کا یہی المیہ ہے کہ وہ اپنی ذات سے ضرورت سے زیادہ بلکہ کہنا چاہیے کہ ”غیر ضروری“ امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں۔ اور ایسا ضروری نہیں کہ روز ڈیپریشن کا دورہ پڑے بلکہ وقتاً فوقتاً ایسا ہو سکتا ہے۔

اس کے برعکس جو مذہب ہم نے اختیار کیا ہے وہ مذہب جو کہ پوری زندگی کا ”کوڈ“ ہے، ہمیں قناعت اور محدود ہونے کا درس دیتا ہے۔ اسلام ہمیں آخرت کے لیے ”اوور تھنکنگ“ کا کہتا ہے، جبکہ ہمارا ڈیپریشن ہی اس لافانی زندگی میں ”بڑا کچھ کرنے“ کی سوچوں سے ہوتا ہے۔

میری زندگی امتحان ہے۔ میری زندگی مشکل میں ہے۔ میری زندگی کا آگے کیا ہو گا۔ مجھے امیر ہونا ہے۔ مجھے مشہور ہونا ہے وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ دی گئی عمر بہت محدود ہوتی ہے۔ ہم آنکھ کھولتے ہیں تو ہمیں بولنے کی دیر ہوتی ہے، پہلا تعلیمی سیشن شروع ہو جاتا ہے اے، بی، سی کے بعد کیمیکل فارمولاز کو رٹا لگاتے ہیں، تو کالج ختم ہو جاتا ہے۔ اپنے ہاتھ جلاتے ہیں تو ایم ایس سی کیمسٹری کی ڈگری ملتے ہی ہم جاب کے انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ ہماری عمر 22 سال ہے 23 سال ہے 24 سال ہے۔

اپنی (غیر یقینی) اوسط عمر کا 1/3 ہم گزار چکے۔ اب تو مقابلہ سخت ہے صرف ماسٹر سے کچھ نہ ہو گا۔ ایم فل اور بعض پی، ایچ، ڈی کے کاغذ اکٹھے کرتے ہی ہیں کہ پتا چلتا ہے عمر 30 سال ہو گئی۔ اب کہ جب ہم اپنی آدھی زندگی گزار چکے ہوتے ہیں پتا چلتا ہے کہ ہم بہت سے عزیزوں اور دوستوں سے دور ہو چکے ہیں۔ زندگی کا جو مقصد تھا کہ اللہ کی عبادت اور مخلوق خدا سے حسن سلوک، ہم تو اس سے کوسوں دور ہیں۔ کم بخت ڈگریوں اور جابوں کے چکر میں ہم اپنے محلے کے بابا فیض کا حال بھول چکے اور گاوں، محلے، سکول، کالج اور یونیورسٹی کے تمام دوستوں کو سرسری سا فون پر یا فیس بک پر بات تک رکھ چکے ہیں۔ کیسے حسن سلوک ہو اور کیا ملنا بیٹھنا ہو؛ ہم نے ”آج کل سب مصروف ہوتے ہیں“ کو بہانہ بنا کر سب سے قطع تعلقی کر دی۔ اللہ کی عبادت کو ہم ”ابھی تو اتنے کام کرنے ہیں“ کو بہانہ بنا کر کل پر چھوڑ دیا، جبکہ ہمیں اللہ کہتے ہیں آنے والے ایک پل کا بھروسا نہیں تم اس دنیا میں ’ہو‘ سے ’تھے‘ بن جاو گے۔

مجھے درس ملا کہ اپنی سوچوں کو محدود کر کے جس قدر طاقت ہو اتنا ہی چلنا اچھا ہے۔ اپنے عزیزوں، دوستوں اور رشتہ داروں سے ملنا جلنا بڑھا کر اور یقین سے نماز دعا کر کے جو سکون ملا وہ کہیں نہیں میسر!

بابا اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ یہ سوچ کر سب قطع تعلق ہو جائیں گے کہ ”اس نے مجھے یاد کیا نہیں تو میں کیوں کروں!“ تمام باتوں کی بات اور اس بات کے ساتھ ہی رخصت ہوتا ہوں کہ ڈیپریشن اس پل میں اٹیک کر سکتا ہے، جبکہ ہم فارغ بیٹھے ہوں لہاذا ہم کو چاہیے ہم فارغ نہ بیٹھیں۔ خود کو کسی نہ کسی مثبت سر گرمی میں مصروف رکھیں۔

عبداللہ محمود
Latest posts by عبداللہ محمود (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).