اسلام آباد کی سیسیلین مافیا


قانون بھی کیا خوب دلچسپ حرکات کا مجموعہ ہے جو کمزور پر چڑھائی کے لیے ہمیشہ سینے کو دو فٹ آگے نکال کے رکھتا ہے جبکہ طاقتور کے لیے بہترین کمانڈو کی طرح محافظ بن کے کھڑا ہو جاتا ہے۔ یہاں روز ہر گلی کوچے میں آپ کا سامنا ایسے ہزاروں مافیاز سے ہو جاتا ہے۔ شہر اقتدار کے ایک تھانے کا منظر پیش خدمت ہے جہاں بڑے افسران کی کالز سے کمزور ٹیلی فون سیٹ تھانے کے در و دیوار کو ہلا رہا تھا، پولیس اسٹیشن مقامی سیسیلین مافیا کے غضب کا شکار ہونے والا تھا۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب کرونا نے پہلی بار شہر اقتدار پر حملہ آور ہونے کی جسارت کی تھی اور ایس او پیز کے نام پہ تمام چھوٹے دکانداروں کو قانون اپنی ہیبت ناک شکل دکھاتا تھا، وہیں ایک سر پھرے پولیس اہلکار نے شہر کے ایک بڑے شاپنگ سنٹر کو بھی ایس او پی کی خلاف ورزی پر وارننگ دینے کی جسارت کر ڈالی۔

سراہنے کی بجائے ہر طرف سے اتنا پریشر جو کہ شاید کلبھوشن یادیو کی گرفتاری پہ انڈین نے پاکستان پہ بھی نہ دیا ہو گا۔ خیر بڑے پر وقار طریقے سے قانون کا جنازہ نکالتے ہوئے متعلقہ اہلکار کو وارننگ دی گئی اور ستم تو یہ کہ اگلے دن پانچ سات لاکھ روپے دے کر اس کے پاس بھجوا دیا گیا کہ منہ بند رکھو آئندہ مہربانی کر کے ادھر مت آئیں خیر پیسے لینے سے تو انکار کیا گیا لیکن اس اہلکار کو شٹ اپ کال ضرور دی گئی کہ آئندہ ادھر منہ نہیں موڑنا اب اس کے بدلے افسران وہاں سے کیا کچھ فوائد لیتے رہے اللہ بہتر جانتا ہے۔

اسکے کچھ ہی روز بعد آبپارہ مارکیٹ کے ایک مشہور ڈرائی فروٹ والے کو پولیس اہلکاروں نے ایس او پی پر عمل درآمد کرنے کا کہا تو دس منٹ بعد قانون کے رکھوالے معطل ہو چکے تھے۔

اس شہر کی سیسیلین مافیا کی داستانیں بہت لمبی ہیں ان کی ایک جنبش سے نظام ادھر سے ادھر ہو جاتا ہے، اس شہر میں جنہیں اللہ نے لوگوں تک حق سچ پہنچانے کی ذمہ داری لگائی ہے وہ صحافی بھی سیسیلین مافیا کا با ضابطہ طور پر حصہ بن چکے ہیں، اپنے تعلقات استعمال کر کے ہر جائز و ناجائز کام کروانا ان کے لیے بائیں ہاتھ کا گیم ہے، یہ کھیل کیونکہ دو طرفہ مفادات کا مجموعہ ہے لہذا بدلے میں سب اچھا ہے ٹی وی پہ دکھا کے عوام کو گمراہ کیا جاتا ہے۔

شہر میں زمینوں پر قبضے کروانے ہوں تو بڑے بڑے قبضہ مافیا کے سربراہان صحافیوں کے روپ میں سیسیلین مافیا کو باقاعدہ پارٹنر شپ پہ ہائر کرتے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ سیسیلین مافیا نے طاقت کے تمام کیمپوں کو رنگینیاں دکھاتے ہوئے مکمل طور پر زیر کر لیا ہے، اس مافیا سے چھٹکارا تب ہی ممکن ہے جب قانون پر عمل درآمد کروانے والوں کو اپنا قبلہ درست کرنے کے ساتھ ساتھ قانون پر عمل درآمد نہ کرنے کی کڑی سزا کا خوف ہو اور ڈر پیدا کرنے کے لیے چند کالی بھیڑوں کو نشان عبرت بنانا ہو گا تاکہ سیسیلین مافیا کا کارندہ بننے سے پہلے پولیس، انتظامیہ اور صحافی ہزار بار سوچیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).