قطر میں نئے قانون سے کیا مزدوروں کی مشکلیں ختم ہو گئی ہیں؟


قطر نے اتوار کو اپنے لیبر قوانین میں تبدیلی کی ہے جس کا وہاں کام کرنے والے تارکین وطن افراد نے خیر مقدم کیا ہے۔

قطر میں نئے قانون کے تحت اب غیر ملکی مزدوروں کو نوکری بدلنے کے لیے اپنے موجودہ کفیل یا سپانسر سے این او سی نہیں لینا پڑے گا اور ان کی کم از کم ماہانہ تنخواہ ایک ہزار قطری ریال ہونا لازمی ہے۔

2020 کے فٹبال ورلڈ کپ کے لیے سٹیڈیمز کے تعمیراتی کام میں شامل بڑی تعداد میں انڈین، پاکستانی نیپالی اور بنگلہ دیشی مزدوروں کو اس خبر سے راحت ملی ہے۔ ماضی میں انسانی حقوق کے ادارے مزدوروں کے استحصال کا معاملہ قطری حکومت کے سامنے اٹھاتے رہے ہیں۔

دلی میں واقع سوسائٹی فار پالیسی ریسرچ اینڈ ایمپاورمینٹ کی سینیئر محقق ڈاکٹر ماہ جبین بانو کہتی ہیں کہ ‘یہ فلاح کی جانب ایک اہم قدم ہے۔’

اسی بارے میں

مشرقِ وسطی میں مقیم کتنے پاکستانی بیروزگار ہوئے ہیں؟

کورونا: بیرون ملک مقیم افراد کو گھر پیسے بھیجنے میں کن مشکلات کا سامنا ہے؟

قطر میں کفالہ کی جگہ نیا قانون کتنی بڑی تبدیلی؟

ماہ جبین مزدوری کے لیے بیرون ملک جانے والے افراد کے حقوق کے لیے برسوں سے کام کر رہی ہیں۔ انھوں نے کہا ‘میں قطر کے اقدامات کا خیر مقدم کرتی ہوں، کیوں کہ وہ مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے معاملے میں صحیح راستے پر آگے بڑھ رہا ہے۔’

ڈاکٹر بانو کے بقول ‘قطر میں اجرت کی ادائیگی نہ کیے جانے کے معاملے بڑی تعداد میں سامنے آتے ہیں۔ ایسے میں یہ بھی چیلنج ہوگا کہ قطر ان معاملوں سے کیسے نمٹے گا اور اجرت کی ادائیگی کس طرح کروائی جائے گی۔’

جس قسم کا قانون قطر میں متعارف کروایا گیا ہے، متحدہ عرب امارات نے اسے 2015 میں ہی متعارف کر دیا تھا۔

مزدور کیا کہتے ہیں؟

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں کام کرنے والے کچھ انڈین مزدوروں نے بتایا کہ نوکری بدلنے کے لیے کفیل کی اجازت لینے کی ضرورت نہ ہونا ایک بہت اہم خبر ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس سے ان کا استحصال نہیں کیا جا سکے گا۔ انھوں نے بتایا کہ کورونا کی وبا کے دوران سینکڑوں مزدوروں کی نوکری ختم ہو گئی۔ ان میں سے متعدد ایسے تھے جنہیں قطر میں دوبارہ نوکریاں مل سکتی تھیں لیکن کفیل کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے ان میں سے کئی کو انڈیا واپس لوٹنا پڑا۔

نئے قانون سے راحت تو ملی ہے لیکن قطر میں کام کرنے والے تقریباً تین لاکھ انڈین مزدوروں کے سر پر بے روزگاری کی تلوار اب بھی لٹک رہی ہے۔

عمارتوں کی تعمیر میں استعمال ہونے والی اشیا کی دکان چلانے والے نیاز صدیقی انڈین شہر حیدر آبار سے قطر گئے تھے۔ انھوں نے بتایا ‘انڈیا سے تعلق رکھنے والے مزدوروں میں نوکری کھونے کا خطرہ ہمیشہ برقرار رہتا ہے، لیکن وبا کے پھوٹنے کے بعد سے ہزاروں مزدوروں کی نوکریاں چلی گئیں۔ اب بے روزگاری کا خطرہ اور بھی زیادہ بڑھ گیا ہے۔’

कामगार

قطر میں کام کرنے والے تقریباً تین لاکھ انڈین مزدوروں کے سر پر بے روزگاری کی تلوار اب بھی لٹک رہی ہے

در اصل انڈیا سے جاکر کام کرنے والے مزدوروں کو مشرق وسطیٰ کے سبھی ممالک میں بے روزگاری کے خطرے کا سامنا ہے۔

نوکریاں گنوانے والے ہزاروں مزدور اب تک انڈیا واپس جا چکے ہیں۔ بہت سے اب بھی غیر قانونی طور پر وہاں رہ رہے ہیں۔

متعدد ایسے بھی ہیں جو لوٹنا چاہتے ہیں، لیکن واپس لوٹنے کے لیے ان کے پاس کرائے کے پیسے نہیں ہیں۔ ایسے ہی ایک مزدور نے سعودی عرب کے شہر مدینہ سے بتایا کہ وہ دوستوں کے ساتھ رہ رہا ہے اور کسی طرح گزر بسر کر رہا ہے۔

سعودی عرب نے وبا کے دوران غیر قانونی طور پر وہاں رہنے والے مزدوروں کو اپنے اپنے ملک واپس لوٹنے کی اجازت دے دی ہے۔ جس وجہ سے کئی مزدور واپس بھی لوٹے ہیں۔

لیکن اس وقت انڈین مزدوروں کو سب سے زیادہ پریشانی کویت میں ہو رہی ہے جہاں انڈین سفارت خانے کے مطابق دس لاکھ مزدور کام کرتے ہیں۔ سفارت خانے کے مطابق ان میں غیر قانونی طور پر رہنے والے دس ہزار مزدور شامل ہیں۔

کویت کی قومی اسمبلی نے گذشتہ ماہ ایک قانون پاس کیا جس کے مطابق وہاں مقیم انڈینز کی آبادی ملک کی کل 43 لاکھ آبادی کے 15 فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ اس وقت ملک کی کل آبادی کا 13 فیصد حصہ ہی کویتی ہیں۔

डॉलर

سعودی عرب، قطر، کویت، متحدہ عرب امارات اور بحرین میں کام کرنے والے انڈین ملازمین ہر برس 30 سے 35 ارب ڈالر ریمیٹنس انڈیا بھیجتے ہیں

اس قانون کے سبب انڈیا کے آٹھ لاکھ مزدوروں کو ملک واپس لوٹنا پڑ سکتا ہے۔ انڈین ریاستوں اتر پردیش، بہار، تیلنگانا اور آندھرا پردیش کے کئی تارکین وطن مزدوروں نے اس معاملے میں آواز اٹھانی شروع کر دی ہے۔ وہ انڈین حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں ملک واپس لایا جائے۔

ان میں سے تقریباً تیس ہزار انڈین کویتی حکومت کے ملازم ہیں۔ کویت کے وزیر معیشت نے کہا ہے کہ رقم کی صورت میں اس وقت حکومت کے پاس 6.5 ارب ڈالر ہی باقی ہیں جو اکتوبر کے بعد سرکاری ملازمین کی تنخواہیں دینے کے لیے کافی نہیں ہوں گے۔

اس سے سرکاری شعبوں میں کام کرنے والوں پر اثر پڑنے کے امکانات ہیں۔ انڈین سفارت خانے کے مطابق کویت میں سرکاری شعبوں میں 30 ہزار انڈین کام کرتے ہیں۔

انڈیا کی مشکلیں بڑھیں گی

مشرق وسطیٰ سے مزدوروں کی واپسی معاشی مشکلات میں الجھی انڈین حکومت کے لیے دو طرح سے بری خبر ہے۔

پہلا تو یہ کہ سعودی عرب، قطر، کویت، متحدہ عرب امارات اور بحرین میں کام کرنے والے انڈین ملازمین ہر برس 30 سے 35 ارب ڈالر ریمیٹنس انڈیا بھیجتے ہیں۔

مشرق وسطیٰ میں انڈین مزدوروں کی تعداد 85 لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ اگر ان میں سے آدھے بھی واپس لوٹ آئے تو ریمیٹنس کی رقم بھی آدھی ہو جائے گی۔ یعنی انڈیا کی کمائی کا ایک ذریعہ متاثر ہوگا۔

انڈیا کے سامنے دوسرا چیلینج یہ ہے کہ واپس لوٹنے والے مزدوروں کی دوبارہ زندگی کو آگے بڑھانے میں مدد کرنی ہوگی۔

بین الاقوامی پروازیں دوبارہ کھلنے کے بعد انڈیا کی وفاقی اور ریاستی حکومتوں کو آنے والے کچھ مہینوں میں سنگین چیلینجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انہیں مشرق وسطیٰ کے ممالک سے لوٹنے والے مزدوروں کو روزگار دینے اور بسانے کے لیے ابھی سے اقدامات کرنے ہوں گے۔

ڈاکٹر ماہ جبین بانو کہتی ہیں کہ ‘انڈین حکومت مشرق وسطیٰ کے ممالک سے لوٹنے والے مزدوروں کے ہنر اور ڈیموگرافی کا ڈیٹا اکٹھا کرے اور انڈین لیبر مارکیٹ میں ان کے روزگار کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بنائے۔’

انھوں نے کہا ‘یہ ضروری ہے کہ انڈین حکومت اپنے سفارت خانوں کے ساتھ مل کر یہ یقینی بنائے کہ واپس لوٹنے سے پہلے سب کو ان کی تنخواہ مل گئی ہو اور ان کا استحصال نہ ہوا ہو۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp