نوشیرواں خان اور الو کا جہیز


بہت پرانے زمانے کا ذکر ہے کہ ملک ایران میں ایک شہزادے کو تخت پر بٹھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ شہزادے کا نام نوشیرواں خان تھا۔ شہزادے کو تخت پر بٹھانے میں کچھ رکاوٹیں حائل تھیں مثلاً یہ کہ تخت خالی نہیں تھا بلکہ اس پر پہلے ہی ایک بادشاہ موجود تھا۔ مگر خیر، جہاں چاہ وہاں راہ۔ پرانے بادشاہ کو بہ جبر و اکراہ اس بات پر قائل کر لیا گیا کہ جان ہے تو جہان ہے، اس لیے تم دنیا کی سیر پر نکل جاؤ، ظاہر ہے کہ اتنا وسیع ملک بغیر بادشاہ کے تو نہیں چھوڑا جا سکتا اس لیے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں نوشیرواں خان کو تخت پر بٹھا کر تاجپوشی کر دیں گے۔

چند روز بعد نوشیرواں نہایت دھوم دھام سے تخت پر بیٹھا۔ تمام فوجی سرداروں، امیروں اور وزیروں نے نذریں پیش کیں اور وفاداری کا حلف اٹھایا۔ بادشاہ کا اتالیق ایک بزرجمہر نامی بزرگ تھا۔ ساری سلطنت میں اس کی عقل کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ اس میں اس کی عقل سے زیادہ بہترین میڈیا مینجمنٹ کا ہاتھ تھا۔ بہرحال شہنشاہ نوشیرواں خان نے بزرجمہر کو اپنا وزیراعظم مقرر کر دیا اور عہد کیا کہ بزرجمہر سے مشورہ کیے بغیر کوئی کام نہ کرے گا۔

جونہی نوشیرواں کو تخت ملا وہ حسب توقع عیش و عشرت میں پڑ گیا اور سلطنت کے کاموں سے غافل ہو گیا۔ دوسری طرف بزرجمہر کی پبلسٹی کے ذریعے جو شخصیت بنائی گئی تھی وہ کاغذی نکلی۔ یوں ہر طرف رشوت اور ظلم ہونے لگا۔ سرکاری افسر لوگوں کو پریشان کرنے لگے۔ چوریاں اور ڈاکے عام ہونے لگے۔ چائنا کٹنگ کی شکایت بہت ہو گئی۔ معمولی سی بارش ہوتی اور شہر میں کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہو جاتا۔ سفارشی اور خوشامدی وزیر نے نوشیرواں خان پر کچھ ایسا جادو کر دیا تھا کہ وہ ان ہی کی بات پر عمل کرتا اور ہر کام میں ان سے مشورہ لیتا تھا۔ نااہل وزیروں نے بھی لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ بزرجمہر یہ سب کچھ دیکھتا اور کڑھتا کہ جو مجھے کرنا چاہیے تھا وہ دوسرے کر رہے ہیں۔ کئی بار اس نے نوشیرواں کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وزیروں نے اس کی ایک نہ چلنے دی۔ آخر کار بزرجمہر مایوس ہو کر چپ ہو گیا۔

انہی دنوں ایک مشہور ڈاکو پکڑ کر دربار میں لایا گیا۔ وزیروں نے دیکھا کہ بندہ ہمارے جیسا ہی پروفیشنل ہے تو بھائی بندی میں اسے سزا سے بچانے کی صلاح کی۔ انہوں نے ڈاکو کو سمجھایا بجھایا کہ ویسے تو نوشیرواں خان انصاف پر سمجھوتہ نہیں کرتا لیکن اسے پرچانا بہت آسان ہے، خواہ تمہیں سو جھوٹ بولنے پڑیں مگر ایک مرتبہ نوشیرواں خان کو یہ یقین دلا دو تم سے زیادہ سچا، ایماندار اور باصلاحیت آدمی کوئی نہیں، پھر تم چاہے کتنا ہی بڑا ڈاکا کیوں نہ ڈالو، تمہیں کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا سکے گا۔ ڈاکو نے بات پلے سے باندھ لی۔

جب سزا کے لیے اسے نوشیرواں خان کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے اقبال جرم کرتے ہوئے اپنی گزشتہ زندگی پر ندامت ظاہر کی اور کہا کہ اسے علم ہے کہ سچ بولنے پر اسے پھانسی ہو گی کیونکہ نوشیرواں خان انصاف کے معاملے میں سمجھوتہ نہیں کرتا اور اپنے قریب ترین شخص کو بھی سزا دے دیتا ہے، لیکن وہ جھوٹ نہیں بول سکتا خواہ اس کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ اس کی سزا بھی موت کے سوا کچھ نہیں مگر اسے ایک ایسا علم آتا ہے جو اس کی موت کے بعد دنیا سے اٹھ جائے گا۔ پہلے وہ علم وہ کسی کو سکھا دے، پھر وہ مطمئن ہو کر دنیا سے رخصت ہو گا کہ اس نے ملک کی خدمت کا فریضہ سرانجام دے دیا ہے۔

نوشیرواں خان کانوں کا بہت کچا تھا۔ باتوں میں آ گیا۔ اس نے بزرجمہر کو حکم دیا کہ ڈاکو سے جانوروں کی بولی سیکھ کر اس سے نجات حاصل کر لے۔ بزرجمہر اسے اپنے محل میں لایا۔ ڈاکو نے کہا کہ چالیس دن تک میری خوب ٹہل سیوا کرو، میری تمام خواہشات پوری کرو، پھر میں بولی سکھاتا ہوں۔ بزرجمہر نے ایسا ہی کیا۔ چالیس دن بعد وہ ڈاکو کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میاں اب سکھاؤ جانوروں کی بولی۔ ڈاکو ہنسنے لگا، بولا حضت عقل نام کی کوئی شے نہیں آپ کے پاس؟ جانور کون سی بولی بولتے ہیں؟ وہ تو کائیں کائیں اور بھاں بھاں کرتے ہیں۔ میں تو بس آخری دن اچھے گزارنا چاہتا تھا، نوشیرواں خان اور آپ کو الو بنا کر گزار لیے۔

بزرجمہر یہ سن کر بہت متاثر ہوا کہ یہ باصلاحیت شخص کس نیچ کام میں پڑا ہے جبکہ یہ تو فنانشل کنسلٹنٹ لگنے کے لائق ہے۔ اس نے ڈاکو کو خوب سمجھایا کہ یوں تلوار پکڑ کر ڈاکے مارنا نہ صرف بہت بری بات ہے بلکہ اس میں رسک فیکٹر بھی بہت زیادہ ہے۔ بندہ خود بھی مر سکتا ہے اور پرافٹ بہت کم ہے۔ بہتر ہے کہ لوٹ مار کرنی ہے تو سلیقے سے کرو جس میں جان کا بھی خطرہ نہ ہو اور آمدنی بھی چوکھی ہو۔ ڈاکو سمجھدار تھا جلد سیکھ گیا۔ ایک مہینے بعد بزرجمہر نے اسے اپنی حق حلال کی کمائی میں سے کچھ ملین ڈالر دے کر دساور بھیج دیا کہ ادھر میرے نام پر کاروبار کرو۔

اس واقع کے چند روز بعد نوشیرواں خان بندروں کا شکار کھیلنے کے لیے اپنی سلطنت کی مرکزی بندرگاہ کی طرف جا نکلا۔ اس وقت بادشاہ کے ساتھ بزرجمہر کے سوا اور کوئی نہ تھا۔ ساون بھادوں کی رت تھی اور شہر کی گلیوں میں ہو کا عالم طاری تھا۔ نوشیرواں اس ویرانے کو دیکھ کر بزرجمہر سے کہنے لگا: ”کیسی خوف ناک جگہ ہے۔ دور دور تک آدم زاد نظر نہیں آتا بلکہ زیادہ غم یہ ہے کہ آدم زادی بھی دکھائی نہیں دیتی۔ ہر طرف پانی ہی پانی ہے۔“

فوٹو کریڈٹ: ندیم فاروق پراچہ

بزرجمہر ابھی جواب دینے نہ پایا تھا کہ الوؤں کا ایک جوڑا کہیں سے اڑتا ہوا آیا اور بجلی کی تاروں پر بیٹھ گیا جن میں پچھلے ایک سو گھنٹوں سے بجلی نہ آئی تھی۔ آدمیوں کو اپنے قریب دیکھ کر الو ہو ہو ہو کرنے لگے۔

نوشیرواں خان نے کہا : ”قدر الو کی الو جانتا ہے، ہما کو کب چغد پہچانتا ہے۔ ہمیں بتاؤ یہ جانور آپس میں کیا باتیں کر رہے ہیں۔“

” حضور، یہ آپس میں رشتے دار ہیں۔ بڑا الو چھوٹے الو سے کہہ رہا ہے کہ اگر تم اپنے بیٹے کی شادی میری بیٹی سے کر دو تو میں جہیز میں ایسے ہی تین ویرانے دوں گا۔ چھوٹا الو کہہ رہا ہے کہ تین نہیں دس ویرانے لوں گا تب شادی کروں گا۔ یہ سن کر بڑا الو بولا کہ گھبراتے کیوں ہو۔ نوشیرواں خان کی بادشاہی قائم رہی تو دس کی جگہ سو ویرانے دوں گا۔“

بزرجمہر کے منہ سے یہ باتیں سن کر نوشیرواں خان کے چہرے کا رنگ اڑ گیا کہ ہائے میں اتنا ناکام ہو گیا ہوں، مجھ میں کوئی صلاحیت ہی نہیں، کیا میں اتنا ہی نااہل ہوں؟ پانچ برس میں صرف سو ویرانے؟ یہ تو کوئی پرفارمنس نہ ہوئی۔ اس سے تو بہتر ہے کہ میں کام کرنے لگ جاؤں۔ نوشیرواں خان سمجھ گیا کہ استاد بزرجمہر نے اسے الوؤں کی باتیں سمجھانے کے بہانے نصیحت کی ہے۔

اس نے آگے بڑھ کر بزرجمہر کو سینے سے لگایا اور کہا ”استاد بزرجمہر، آپ نے میری آنکھیں کھول دیں۔ میں اپنا فرض بھول گیا تھا۔ اب عہد کرتا ہوں کہ آئندہ غفلت نہ کروں گا اور اس الو کے پٹھے کی شادی ہو کر رہے گی اور اسے اس کی توقعات سے بڑھ کر جہیز ملے گا۔ اسے کہو کہ گھبرانا بالکل نہیں ہے۔“
(داستان امیر حمزہ جدید کی ایک کہانی)۔

Published on: Aug 31, 2020 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments