ہائبرڈ جمہوریت اور صدارتی نظام


پاکستان کرہ ارض پر وہ واحد ملک ہے جہاں ریل گاڑی کے حادثے سے لے کر کراچی کی بارشوں، کچرے سے لے کر ہوائی جہاز کے حادثے تک ہر بات کا اختتام اس جملے پر کیا جاتا ہے کہ ’پاکستان کا تو نظام ہی خر اب ہے۔‘ ملک عزیز کے نام نہاد پارلیمانی نظام کی ناکامی پر ہی ہر تان ٹوٹتی ہے۔

سیاسی طور پر باخبر عوام جانتے ہیں کہ اصل معاملہ کیا ہے مگر عوام کے سنجیدہ مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے آئے روز نت نئے موضوعات چھیڑ دیے جاتے ہیں۔ حکومت کو ناکامیوں کی فہرست تھمائی جائے تو بحث ہر اُس موضوع کی جانب موڑ دی جاتی ہے جو نہ صرف غیر ضروری بلکہ غیر اہم بھی ہے۔

ابھی کراچی کی بارشوں کا سلسلہ شروع ہی ہوا تھا کہ ملک میں صدارتی نظام کے نفاذ کے لیے ایک درخواست دائر کر دی گئی۔

درخواستیں آتی رہتیں ہیں لیکن اس درخواست کا متن نہ صرف دلچسپ بلکہ دلفریب ہے۔ ’ہم عوام پاکستان‘ نامی جماعت کے سربراہ نے استدعا کی ہے کہ اعلی عدالت آئین کے آرٹیکل 48 کی شق چھ کے تحت یہ پتہ لگائے کہ عوام پاکستان کی بھلائی اور بہبود کے لیے ملک میں صدارتی نظام چاہتے ہیں یا نہیں۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا سے ظاہر ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت پارلیمانی نظام سے نہ صرف اکتا گئی ہے بلکہ صدارتی نظام کے حق میں بھی ہے۔

درخواست گزار کہتے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت 64 فی صد نوجوانوں کی آبادی تناسب کے لحاظ سے دنیا میں سب سے اوپر ہے مگر مسائل بڑھ رہے ہیں اور وسائل محدود ہوتے جا رہے ہیں۔

درخواست میں موجودہ حکومت سے زیادہ نظام کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مارچ 2020 تک اندرونی، بیرونی قرضے تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔

42.8 کھرب کے اندرونی اور 112 ارب کے بیرونی قرضے بڑھ چکے ہیں۔ پاکستان صرف آئی ایم ایف کے 5.765 ارب ڈالرز کا مقروض ہے۔ مزید تفصیل میں جائے بغیر لُب لُباب یہ کہ اپوزیشن غیر ذمہ دار، پارلیمان غیر نمائندہ اور حکومت مکمل ناکام ہے۔

یاد رہے کہ ملک میں 40 سال مارشل لاؤں کی صورت بالواسطہ صدارتی نظام رائج رہنے کے باوجود انتظامیہ اور مقننہ کے اختیارات میں علیحدگی کی وجوہات ڈھونڈی جا رہی ہیں۔

گزشتہ سال بھی اپریل کے مہینے میں صدارتی نظام کے حوالے سے بحث خود حکومتی رہنماؤں سے بڑے شد و مد سے شروع کرائی گئی اور اس برس بھی یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا گیا۔

گورنر خیبر پختونخواہ کی اس موضوع پر تیاری سمجھنے والوں کو سمجھا رہی ہے جبکہ جناب وزیراعظم پہلے ہی جنرل ایوب صاحب سے بہت متاثر ہیں اور گاہے گاہے اُن کے کارناموں کا تذکرہ فرماتے رہتے ہیں۔

ملکی معاشی کی صورت حال دگرگوں ہے لیکن کیسے یہ حالت یہاں تک پہنچی اس پر بات کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ ملکی تاریخ میں دوسری بار زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم باہر سے منگوائی جا رہی ہے مگر ذمہ دار ڈھونڈنے کی بجائے صدارتی نظام کی بات کی جا رہی ہے۔

قرضوں اور مہنگائی کی بلند ترین شرح، بیروزگاری اور دن بہ دن کمزرور ہوتی مملکت کا حل شاید پارلیمانی نظام کے خاتمے اور صدارتی نظام کے نفاذ میں ہی چھپا ہو لیکن عوام کو یہ تو بتایا جائے کہ اس وقت پاکستان میں کون سا نظام رائج ہے؟

وطن عزیز میں نہ تو پوری جمہوریت ہے اور نہ ہی مکمل آمریت، یوں تو حکمرانی سیاسی لوگوں کے ہاتھ ہے مگر نظام غیر سیاسی افراد چلا رہے ہیں۔ جمہوریت کے لبادے میں فسطائیت اور پارلیمانی نظام کے روپ میں غیر فعال پارلیمانی نظام رائج ہو گا تو نظام پر سوال تو اُٹھیں گے ؟

اس ’ہائبرڈ نظام‘ کو اگر صدارتی نظام کا نام دے بھی دیا جائے تو کیا فرق پڑتا ہے؟

خاموش میڈیا، خاموش سیاسی جماعتیں، کمپرومائزڈ حزب اختلاف اور آہستہ آہستہ دم توڑتی سول سوسائٹی ایک اور نظام کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ملک میں رائج دو نظام، عوام اور اشرافیہ کے لیے الگ الگ انصاف کے پیمانے اور چنیدہ احتساب آپ کو ایسا کیسے کرنے دے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).