یکم ستمبر کا فضائی معرکہ اور سرفراز رفیقی شہید


ماہ ستمبر شروع ہو چکا۔ یہ مہینہ ہمیں 1965ء کی جنگ کی یاد دلاتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ انفرادی جودت اور اجتماعی کوتاہیوں کا دلچسپ امتزاج ہے۔ جنگ ستمبر کئی اعتبار سے اس امتزاج کا مظہر تھی۔ بتایا گیا مسئلہ کشمیر جنگ کی بنیادی وجہ تھا۔ آج تک ہم یہ تعین نہیں کر سکے کہ کشمیر جیسے پیچیدہ مسئلے کے حل کے لیے ملک کے قیام کے بیس سال کے اندر اندر کسی بڑی مسلح کشمکش میں ملوث ہو جانا دانشمندانہ اقدام تھا یا پالیسی سازی کا پھوہڑپن۔۔۔۔ اس بحث سے قطع نظر دوران جنگ قومی یکجہتی اور میدان جنگ میں داد شجاعت دیتے سپاہیوں کی پیشہ ورانہ دیانت ہماری تاریخ کی روشن مثالیں ہیں۔ بیدار قومیں فیصلہ سازوں سے سوال کرتی ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے سپاہیوں کی قربانیوں کا اعتراف اور ہدیہ سپاس میں بخل سے کام نہیں لیتں۔

یہ تحریر یکم ستمبر 1965 کو پیش آنے والے ایک فضائی معرکے کی کہانی ہے جو نہ جانے کیوں جنگ ستمبر کی تاریخ کے اوراق میں نمایاں مقام حاصل نہیں کرسکا حالانکہ اثرات کے لحاظ سے یہ جنگ ستمبر کا اہم ترین معرکہ تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ سرکاری طور پر جنگ کا آغاز 6 ستمبر کو مان لیا گیا اور یہ یکم ستمبر کا واقعہ تھا۔ آئیے یکم ستمبر 1965 کے واقعات کی طرف چلتے ہیں۔

آپریشن گرینڈ سلام جنگ ستمبر کا ایک اہم آپریشن تھا جس کا مطلوبہ ہدف چھمب جوڑیاں سیکٹر میں پیش قدمی کر کے اکھنور کا کنٹرول حاصل کرنا تھا۔ یکم ستمبر کی صبح میجر جنرل اختر حسین ملک کی قیادت میں آپریشن کا آغاز ہوا۔ اس پیش قدمی میں دریائے توی ایک اہم قدرتی رکاوٹ تھا اور توقعات کے مطابق بھارتی افواج نے وہیں مزاحمت کے لئے اپنی صفوں کو منظم کیا۔ پاک فضائیہ ہائی الرٹ پر تھی اور سرگودھا بیس کو خصوصی طور پر آپریشن کی سپورٹ کے لئے ٹاسک دیا گیا۔ پاک فضائیہ کے نمبر 15 اسکواڈرن کے ہوا باز صبح چار بجے سے دن بارہ بجے تک ائیرڈیفس الرٹ پر تھے۔ بارہ بجے نمبر5 اسکواڈرن دوسری شفٹ کے لئے آیا تو 15 اسکواڈرن کے جوان سال فلایئٹ لفٹنٹ امتیاز نے نمبر5 اسکواڈرن کے کمانڈنگ آفیسر اسکوڈ رن لیڈر سرفراز رفیقی سے دوسری شفٹ کے لئے بھی درخواست کی جسے رفیقی نے مسکراتے ہوئے قبول کرلیا۔

پاک فضائیہ ہائی کمان کو پاکستانی افواج کی پیش قدمی کو روکنے کے لئے بھارتی فضائیہ کی مداخلت کے بارے میں کوئی شکوک نہیں تھے۔ اس لۓ صبح ہی سے پاک فضائیہ کےایف 86 سیبر اور ایف 104 سٹار فائیٹر طیارے سیالکوٹ کے گردونواح کی فضائوں میں موجود رہے۔ لیکن حیران کن طور پر سارا دن بھارتی فضائیہ ایکشن میں نہ آئی۔ بعد دوپہر پاک فضائیہ کے قائد ائیرمارشل نور خان نے بنفس نفیس میدان جنگ کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ایک ٹی۔37 طیارے میں محو پرواز ائیر چیف نے دیکھا کہ پاکستانی افواج کسی بھی فضائی حملے کی صورت میں خطرناک سچوئشن میں تھیں۔ انہوں نے فوری فیصلہ کیا اور فضا سے ہی کمانڈ آپریشن سنٹر کو سرگودھا سے حفاظتی مشن کے لئے احکامات ٹرانسمنٹ کر دئیے۔ آپریشن سنٹر کے احکامات ملتے ہی سرفراز رفیقی نے خود اس مشن کی قیادت کا فیصلہ کیا۔ حالانکہ وہ اسکوڈرن کمانڈر تھے اور کسی کو بھی مشن پر بھیج سکتے تھے۔ اپنے ساتھ ونگ مین کے طور پر انہوں نے فلائیٹ لیفٹیننٹ امتیاز کو منتخب کیا کیونکہ وہ صبح سے انتظار میں تھے۔ ٹیک آف کے بعد ریڈار کنٹرولر نے فارمیشن کو بیس ہزار فٹ کی بلندی کے لئے کلیئر کیا اور پھر چھمب سے تھوڑا پہلے پاکستانی فضائی حدود کے اندر جنگی فضائی پٹرول کے مخصوص پیٹرن میں پرواز کے لئے ہدایات دیں۔

آخر کار بھارتی فضائیہ ایکشن میں آگئی اور پٹھانکوٹ کے ہوائی مستقر سے بھارتی فضائیہ کے نمبر45 اسکوڈرن کے ویمپائر طیارے بھارتی افواج کی مدد کے لئے نمودار ہوگئے۔ ریڈار کنٹرولر نے فارمیشن کو ویمپائر طیاروں کی سمت ویکٹر کیا۔ میں نے امتیاز کا 1994 میں انٹرویوکیا تھا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ ’’ہم جب میدان جنگ کی فضائوں میں پہنچے تو ہمیں دو ویمپائر طیارے تقریباً آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر نظر آئے۔ لیڈر (رفیقی) نے ان کی طرف ڈائیو کیا اور بہت جلد ان کے پیچھے اپنے آپ کو پوزیشن کر لیا۔ تقریباً اسی وقت میں نے مزید دو ویمپائر طیاروں کو رفیقی کے پیچھے پوزیشن لینے کی کوشش کرتے دیکھا۔ شائد وہ مجھے نہیں دیکھ سکے تھے۔ میں نے لیڈر کو ان کی موجودگی سے آگاہ کیا۔ اس دوران رفیقی ایک ویمپائر کو نشانہ بنا چکے تھے۔ میرے سامنے اب دو طیارے تھے لیکن میں انہیں نشانہ نہیں بنا سکتا تھا کیونکہ میرے فائر سے لیڈر کے طیارے کو نقصان پہنچنے کا احتمال تھا۔ کمال سرعت سے رفیقی نے دوسرے طیارے کو بھی ٹھکانے لگا دیا اور پھر بائیں طرف کو بریک کیا (بریک فضائی جنگ میں انتہائی تیز اور ٹائٹ ٹرن کو کہتے ہیں) اس دوران میں ہم سب خاصی کم اونچائی تک پہنچ آئے تھے۔ لیڈر کے بریک کرتے ہی میں نے اپنے سامنے والے ویمپائر کو تباہ کر دیا۔ دوسرے ویمپائر کو بھی میرا فائر لگا اور میں نے اسے درختوں کے پیچھے جاتے دیکھا۔ بعد میں پتہ چلااس کا پائلٹ بچ گیا تھا۔” اس شام رفیقی اور امتیازکا نشانہ بننے والے بھارتی فضائیہ کے فلائیٹ لفٹنٹ اے کے بھگوھاگار، فلائیٹ لفٹنٹ وی ایم جوشی اور فلائیٹ لفٹنٹ بھردواج تھے جبکہ فلائنگ آفسر سوندھی ایک بری طرح گھائل طیارے کے ساتھ بچ گۓ۔

یہ فضائی معرکہ انتہائی کم اونچائی پر دریائے توی کے کنارے دونوں ملکوں کی افواج کی نظروں کے سامنے ہوا تھا۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ پاکستانی اور بھارتی افواج کے میدان جنگ میں موجود سپاہیوں پر اس معرکے کے کیا اثرات ہوئے ہوں گے۔ رفیقی اور امتیاز نے واپس سرگودھا لینڈ کیا تو ائیر مارشل نور خان ان کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ واضح رہے کہ اس وقت تک باقاعدہ اعلان جنگ نہیں ہوا تھا تھا۔ امتیاز کے مطابق انہیں کوئی علم نہیں تھا کہ ائیر چیف ان کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ ائیر مارشل نور خان اس معرکے کے دوران فضا میں تھے۔ انہوں نے رفیقی اور امتیاز کی پیشہ ورانہ کارکردگی کو سراہا اور دونوں کے لئے ستارہ جرات کا اعلان کیا۔

افواج کے مورال کے علاوہ بھی اس معرکے کے جنگ ستمبر پہ گہرے اور معنی خیز اثرات مرتب ہوئے۔ 1965ء میں بھارتی فضائیہ کے پاس تقریباً 80 ویمپائر طیارے تھے جو زیادہ تر بھارتی بری افواج کی سپورٹ کے لئے مختص تھے۔ اس معرکے کے بعد وہ تمام ویمپائر طیارے فرنٹ لائن سے ہٹا دئیے گئے۔ اس کے علاوہ بھارتی فضائیہ کے پاس لگ بھگ 50 اوراگان طیارے بھی تھے۔ انہیں بھی جنگی فضائی آپریشنز سے ہٹا لیا گیا۔ یوں سرفراز رفیقی کی پیشہ ورانہ مہارت اور اعلیٰ قیادت کی بدولت اس ایک مشن سے بھارتی فضائیہ کے کم و بیش 130طیارے غیر موثر ہو گئے۔

یہ کہانی یہاں ختم ہو جاتی ہے لیکن اس مشن کا ایک ٹیل پیس بھی ہے۔1994ء میں جب میں پاک فضائیہ کے شعبہ تعلقات عامہ میں پوسٹ ہوا تو میری ملاقات پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک انتہائی باصلاحیت کیمرہ مین علی اختر وڑائچ (مرحوم) سے ہوئی۔ علی اختر سابقہ ائیر مین تھے۔ا ن کے ائیر فورس کے بیک گراؤنڈ کی وجہ سے ان سے دوستانہ تعلق قدرتی بات تھی۔ ایک دن علی اختر نے بتایا کہ 1965ء میں وہ نمبر 5 اسکوڈرن میں تھے اور کمانڈنگ آفیسر اسکوڈرن لیڈر سرفراز رفیقی کے کرو چیف کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے تھے۔

پڑھنے والوں کی معلومات کے لیے کرو چیف اور ہوا باز میں خصوصا ملٹری فلائینگ میں ایک خاص رشتہ ہوتا ہے۔ کرو چیف ہوا باز کو پرواز سے پہلے جہاز میں سوار ہونے سے لے کر ٹیکسی آؤٹ ہر مرحلے میں اسسٹ کرتا ہے۔ لینڈنگ بعد واپسی پر بھی وہ جہاز کو ریسیو کرتا ہے اور ٹیکسی ان اور سوچ آف میں ھواباز کا مختلف مراحل میں معاون ہوتا ہے ۔علی اختر نے بتایا کہ وہ یکم ستمبر کے مشن کے لئے سرفراز رفیقی کے کرو چیف تھے۔ ’’جب رفیقی مشن کے بعد واپس آئے اور ہمیں ان کی شوٹنگ کا پتہ چلا تو پورے اسکوڈرن کا جوش و خروش دیدنی تھا سب نے ٹارمک پ رہی ان کا استقبال کیا۔ ائیر چیف کی روانگی کے بعد تھوڑا سکون ہوا۔ اسکوڈرن کی عمارت کے پیچھے ایک چبوترا سا تھا جس کے ساتھ چھوٹا سا ایک درخت بھی ہوا کرتا تھا۔ اس چبوترے پہ ہمارے پائلٹ اکثر بیٹھ کر چائے سگریٹ پیا کرتے تھے۔ خاصا اندھیرا ہوچکا تھا۔ میں نے رفیقی کو چبوترے پہ بیٹھے دیکھا۔ ان کے ساتھ سیسل چوہدری کھڑے کچھ بات کر رہے تھے۔ میں انتظار کرتا رہا کہ کمانڈر کو اکیلے میں مبارکباد پیش کروں۔ جونہی سیسل وہاں سے گئے میں فوراً رفیقی کے پاس پہنچ گیا۔ وہ بیٹھے کسی گہری سوچ میں گم تھے۔ میں نے سیلوٹ کرکے مبارکباد دی تو رفیقی نے سوچتے ہوئے مدہم سی آواز جو کچھ کہا وہ میں آج تک نہیں بھلا سکا۔”

“رفیقی نے ایسا کیا کہا تھا؟”میں نے اشتیاق سے پوچھا

“وہ مجھے اختر کہتے تھے۔”علی اختر نے جواب دیا۔

“انہوں نے کہا تھا۔ اختر تمہارا شکریہ اور ہاں آج میں نے ایک کامیاب کومبٹ مشن کیا ہے اور ستارہ جرات بھی مل گیا اور یہ میرے اکیلے کی نہیں ہم سب کی کامیابی ہے۔ لیکن یار میں تھوڑا اداس بھی ہوں۔‘‘

“آپ اداس ہیں سر؟” میں (علی اختر) نے حیرت سے پوچھا۔

’’ہاں یار ‘سچ یہ ہے کہ ان ویمپائر طیاروں کا ہمارے مقابلے میں کوئی چانس نہیں تھا۔ یقینا ہم سپاہی ہیں اور ہمیں وہی کرنا ہوتا ہے جس کے لئے ہم ٹریننگ کرتے ہیں لیکن ہم انسان بھی تو ہیں۔۔۔۔ میں سوچتا ہوں جنہیں ہم نے آج مار گرایا ان کے خاندان ہوں گے، ان سے محبت کرنے والے ہوں گے، مشن کے بعد انہوں نے گھر جانا ہو گا اور کوئی وہاں ان کا انتظار کر رہا ہو گا”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).