نیا چیف: ذرا دل تھام کے رکھئے


\"zeeshan

دیکھئے طاقت نفسیات بدل دیتی ہے – ایک شخص جب تک عام شہری ہے یا عام افسر اس وقت تک اس کی نفسیات کا اور رجحان ہوتا ہے اور جب ساری طاقت اس کی ذات میں اکٹھی ہو جائے تو اس کی نفسیات میں دوسری طرح کے رجحانات سر اٹھانا شروع ہو جاتے ہیں –

انسانوں میں ایک شریر قسم کا جذبہ دوسروں کو یا معاشرے کو پلان کرنا بدلنا ڈیزائن کرنا اور اپنی سوچ کے مطابق ڈھالنا بھی ہے – جب طاقت نہ ہو تو یہ صرف بات چیت اور تبلیغ و تقریر تک محدود رہتا ہے اور جب بدلنے کی طاقت آ جائے تو اس کا رجحان ہی بدل جاتا ہے – کیا بدلا جائے اور کیسے بدلا جائے – ریاستی اداروں پر آئین و اصولوں کے شکنجے اور طاقت کی تحلیل (Decentralization) کے نظام اسی لئے قائم کئے جاتے ہیں کہ طاقتور کے شر سے بچا جائے اور وہ کھل کر نہ کھیل سکے –

فوج کا رجحان بطور ادارہ ایک مخصوص طرز کا ہے – مسئلہ چیف آف آرمی سٹاف کی ذات کا نہیں جن میں سے بعض عوامی حق انتخاب پر شب خون مارنے کا ارادہ رکھتے ہوتے ہیں – مسئلہ اس ادارہ جاتی تمدن کا ہے جو فوج میں پایا جاتا ہے اور ہر چیف اسی تمدن اور اسی طاقت کی نفسیات میں بیٹھ کر اپنا عہد مکمل کرتا ہے – فوج کے ادارہ جاتی تمدن میں دو نکات ابھی تک قائم و دائم ہیں –

– فوج اس ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی محافظ ہے – جغرافیائی تک تو بات ٹھیک ہے مگر نظریاتی والی بات فوج کی پس پردہ یا براہ راست آمریت کی راہ ہموار کرتی ہے –

– سارے سویلین ادارے کرپٹ ہیں اور ناکام ہیں – اگر ان پر کنٹرول نہ رکھا گیا تو ملک تباہ ہو جائے گا –

باقی رہ گئی بات اس تصور کی کہ نیا چیف سرحدوں سے زیادہ داخلی محاذ میں کامیابی کو ملک کی سلامتی میں اہم سمجھتا ہے تو حضور اس موجودہ چیف کے لئے بھی آپ نے یہی کہا تھا کہ اس نے امریکہ سے جس ڈاکٹرائن پر ریسرچ کی ہے اس میں داخلی محاذ پر زیادہ زور ہے ، نتیجہ دیکھ لیا ؟- مشرف کو نواز شریف نے لبرل سمجھا تھا کہ یہ قومی اداروں کے تقدس کا خیال رکھے گا نتیجہ دیکھ لیا ؟ ضیاء الحق کو بھٹو صاحب نے گائے سمجھا تھا نتیجہ انہوں نے بھی دیکھ لیا تھا – اسلم بیگ کو آپ جونیئر جنرل سمجھے تھے اور اس نے کیسی legacy چھوڑی ؟

سیاست میں اہم مسئلہ طاقت کے ارتکاز کا ہے – کتابیں تو یہ کہتی ہیں کہ خطرہ شخصیات سے نہیں بلکہ اس طاقت سے ہوتا ہے جو اقتدار میں آنے کے بعد ان میں مرتکز ہو جاتی ہے – جیسے ٹرمپ جب تک عام شہری تھا اس سے کسی امریکی کو خوف نہیں تھا اب وہ صدر کا حلف اٹھانے کے بعد ملک کا طاقتور ترین آدمی بن جائے گا یوں یہ طاقت شر بھی پھیلا سکتی ہے اور ممکن ہے کہ خیر بھی برآمد ہو مگر لارڈ ایکٹن کیا خوب کہہ گئے ہیں کہ \”طاقت بدعنوان ہوتی ہے اور جتنی زیادہ طاقت ایک فرد یا ادارے میں مرتکز ہو گی اتنا زیادہ بدعنوان ہو گی \” فوج جب تک سارے سیاسی منظر نامہ پر حاوی ہے اس وقت تک اس ادارے میں مرتکز طاقت ہی اپنا کھیل کھیلے گی بہ نسبت شخصیتوں کے –

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments