کیا کتاب جلانا آزادئ اظہار ہے؟


پاکستانی وزارت خارجہ نے فرانس کے جریدے چارلی ہیبڈو کی طرف سے ایک بار پھر رسول پاک ﷺ کے خاکےشائع کرنے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اس قسم کی حرکت آزادی اظہار نہیں ہے بلکہ یہ دنیا کے کروڑوں مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی کوشش ہے۔ فرانس کے مزاحیہ و طنزیہ جریدے چارلی ہیبڈو نے جنوری 2015 میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں ملوث 14 افراد کے خلاف مقدمہ کی سماعت شروع ہونے کی مناسبت سے ایک بار پھر متنازعہ خاکے شائع کئے ہیں۔ یہ خاکے سب سے پہلے ڈنمارک کے اخبار ’ای لاندس پوستن‘ نے 2005 میں شائع کئے تھے۔

 7جنوری 2015 کو القاعدہ سے تعلق رکھنے والےدو بھائیوں سعد اور شریف کاؤچی نے پیرس میں  مزاحیہ اور طنزیہ جریدے چارلی ہیبڈو کے دفتر پر حملہ کرکے جریدے کے مدیر، متعدد کارٹونسٹوں اور کالم نگاروں سمیت 12 افراد کو ہلاک کردیا تھا۔ اس حملہ کے بعد ایک طرف فرانس میں شدید احتجاج اور سراسیمگی کی فضا پیدا ہوئی تو دوسری طرف 7سے9 جنوری کے دوران پیرس اور اس کے نواح میں متعدد دہشت گرد حملے ہوئے۔ ایک شخص آمادی کولوبالے نے یہودیوں کے ایک اسٹور میں انیس افراد کو یرغمال بنایا اور چار یہودیوں کو چن کر ہلاک کیا۔ اس کے علاوہ چارلی ہیبڈو کے دفتر کے باہر ایک مسلمان پولیس افسر اس وقت ہلاک ہوگیا جب اس نے جریدے پر حملہ میں ملوث دو بھائیوں کو فرار ہونے سے روکنے کی کوشش کی۔ تینوں دہشت گرد بعد میں پولیس مقابلہ میں مارے گئے تاہم پولیس نے ان لوگوں کی معاونت کرنے والے 14 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ ان لوگوں پر اقدام قتل اور دہشت گردی کی سازش کے الزامات عائد ہیں۔

تین افراد حملوں کے بعد مقدمہ سے بچنے کے لئے ملک سے فرار ہو گئے تھے جن میں ایک دہشت گرد کولوبالے کی بیوہ بھی شامل ہے۔ تاہم ان کے خلاف بھی ان کی غیر موجودگی میں مقدمہ کی کارروائی مکمل کی جائے گی۔ باقی گیارہ ملزم سخت حفاظت میں عدالت میں پیش ہوئے۔ مقدمہ کی کارروائی 49 دن تک جاری رہے گی اور اس میں 144 گواہ پیش کئے جائیں گے۔ متعدد ملزموں کو طویل المدت سزائیں ملنے کا امکان ہے۔ اس عدالتی کارروائی کو وسیع عوامی دلچسپی کی وجہ سے براہ راست ٹیلی کاسٹ کرنے کا انتظام بھی کیا گیا ہے ۔ ملک بھر میں بڑی اسکرینوں پر اس عدالتی کارروائی کو دکھایا گیا۔ چارلی ہیبڈو نے اپنے ادارتی عملہ پر دہشت گرد حملہ کے ملزموں کے خلاف مقدمے کا آغاز ہونے کی مناسبت سے آج ہی شائع ہونے والے شمارے میں متنازعہ خاکے ایک بار پھر شائع کئے ہیں۔ مسلمان اسے اشتعال انگیزی سمجھتے ہیں اور پاکستان نے سرکاری طور پر اس حرکت کو آزادئ اظہار تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ لیکن چارلی ہینڈو کے مدیر کا کہنا ہے کہ یہ’ تاریخ کا حصہ ہے۔ ہم صرف تاریخ کو سامنے لائے ہیں جسے نہ تو بدلا جاسکتا ہے اور نہ ہی چھپانا ممکن ہے‘۔

تاہم چارلی ہیبڈو کا یہ دعویٰ اتنا آسان نہیں ہے۔ یہ جریدہ سیاستدانوں کے علاوہ مذہبی شخصیات کے خلاف کارٹون چھاپنے کی شہرت رکھتا ہے۔ البتہ دیگر لوگوں کے علاوہ جریدے کے ساتھ ماضی میں کام کرنے والے بعض افراد کا کہنا ہے کہ یہ جریدہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں شدید اور امتیازی رویہ کا مظاہرہ کرتا ہے۔ متعصبانہ طرز عمل کو آزادئ اظہار کی آڑ میں چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ گزشتہ برس فرانس کی ایک 22 سالہ لڑکی کسی معاملہ میں ایک ٹی وی رپورٹ کا حصہ بنی تھی۔ اس لڑکی نے حجاب پہنا ہؤا تھا جس پر چارلی ہیبڈو نے اس لڑکی کی تصویر میں بندر کا چہرہ لگا کر اس کی تصویر شائع کی۔ ناقدین اس قسم کی حرکتوں کو چارلی ہیبڈو کے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف تعصب کی مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں لیکن جریدے کا مؤقف ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے لیکن مذہب کی حقانیت کو چیلنج کرتا ہے جو اس کا صحافتی اور قانونی حق ہے۔

چارلی ہیبڈو جیسے جرائد کےصحافتی کام پر مسلمانوں کی طرف سے چونکہ غصہ اور احتجاج کا اظہار ہی سامنے آتا ہے جس کی وجہ سے اس معاملہ پر دلائل کے ساتھ کوئی دانشورانہ گفتگو ممکن نہیں ہوتی۔ 80 کی دہائی میں سلمان رشدی کے خلاف آیت اللہ خمینی کی طرف سے موت کا فتویٰ جاری ہونے کے بعد سے یہی صورت حال موجود ہے۔ متعدد مسلمان عالم اور دانشور اس معاملہ پر گفتگو کرنے اور دلیل کے ذریعے یہ واضح کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ ایک اچھے سماج کی طرح اچھی صحافت اور نقطہ نظر کے اظہار کے بھی کچھ آداب اور حدود و قیود ہونی چاہئیں۔ البتہ بعض انتہا پسند مسلمانوں کی طرف سے تشدد کے مظاہروں یا احتجاج میں مار ڈالنے کے نعروں سے دلیل کی اہمیت ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ یورپی مباحث میں عام طور سے یہی جواب سننے کو ملتا ہے کہ جب تک کسی ادیب کو ماردینے کے فتوے موجود ہیں اور جب تک مسلمانوں کی طرف سے مذہب کے سوال پر تشدد کو جائز سمجھا جاتا رہے گا، اس معاملہ پر عقلی دلیل کے ساتھ بات ممکن نہیں ہے۔

چارلی ہیبڈو جیسے چند اختصاصی جریدوں کے علاوہ یورپ اور امریکہ کا مین اسٹریم میڈیا عام طور سے مسلمانوں کے جذبات کے احترام میں متنازعہ خاکوں کی اشاعت اور تشہیر سے گریز کرتا ہے۔ گویا وسیع طور سے اس اصول کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ کسی ایک مذہب یا اس سے متعلق شخصیت کی توہین کرنا آزادئ اظہار کے بنیادی آداب کے خلاف ہے۔ تاہم اس حوالے سے مسلمان آبادیوں اور ملکوں کی پوزیشن تبدیل نہیں ہوئی۔ پاکستان، ترکی اور ایران جیسے ممالک ایسے کسی واقعہ پر مذمتی بیان جاری کرکے ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوجاتے ہیں لیکن آزادئ اظہار ، مذہبی روایت پر ناقدانہ گفتگو ، فرد اور عقیدہ یا نظریہ کو علیحدہ کرکے دیکھنے کی بحث میں مسلمانوں کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ دیکھا جائے تو اس معاملہ میں مسلمانوں کا رویہ بھی اتنا ہی سخت گیر ہے جتنا آزادئ اظہار کے نام پر توہین کرنے والے مٹھی بھر مغربی عناصر کی طرف سے سامنے آتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ مسلمانوں میں عام طور سے یہ اصرار کیا جاتا ہے کہ مذہب کے حوالے سے کوئی توہین آمیز حرکت کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی جبکہ مغربی معاشرے توہین مذہب کے طریقے کو نظر انداز کرکے اس کا جواب دینا مناسب سمجھتے ہیں۔

دہشت گردی میں ملوث چند افراد کے خلاف مقدمہ کے آغاز کو بہانہ بنا کر فرانسیسی جریدے نے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت سے ایک بار پھر آزادئ اظہار اور حدود کی بحث زور پکڑ سکتی ہے۔ یہ مقدمہ چونکہ ڈیڑھ ماہ کے لگ بھگ چلنے کا امکان ہے ، اس لئے اس مدت میں متعدد ناخوشگوار مباحث اور واقعات دیکھنے میں آسکتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں اس وقت سیاسی رائے کی شدید تقسیم کی صورت حال موجود ہے اور عقیدے کے علاوہ نسلی بنیادوں پر امتیازی رویوں میں شدت محسوس کی جارہی ہے۔ ایسے میں مذہب کے احترام اور آزادئ اظہار کے حوالے سے مباحث میں مسلمانوں کا حصہ صرف نعروں اور مذمت تک محدود ہوچکا ہے۔ موجودہ گلوبلائز دنیا میں اس رویہ سے خود کو عقلی مباحث سے علیحدہ کرکے دراصل اپنی بات کہنے کا اہم ترین موقع ضائع کیا جاتا ہے۔ مسلمان عالموں اور دانشوروں کو اس پہلو پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی مباحث سے گریز اور صرف جذباتی نعرے کی بنیاد پر اپنی بات تسلیم کروانے کا طرز عمل مسلمانوں کی بہبود اور اسلام کی تفہیم کے حوالے سے مناسب نہیں ہے۔

پاکستان اور دیگر مسلمان ملکوں میں مغربی ممالک میں مذہب مخالف اظہار رائے کو ’اسلامو فوبیا‘ کی صورت حال کے ساتھ ملا کر دیکھنے کا رجحان بھی عام ہے۔ سب سے پہلے تو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ مغرب میں عقیدہ کی بنیاد پر نفرت کرنے والے بہت کم لوگ ہیں لیکن جب مسلمان ملکوں میں مذہب کے نام پر تشدد اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف ظلم کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں تو ان عناصر کو زیادہ شدت سے اپنی بات کہنے اور مذہب اور سماجی معاملات سے بے خبر لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے کا موقع مل جاتا ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت امن پسند ہونے اور دوسرے عقائد کا احترام کرنے کے باوجود اپنی بات سمجھانے یا اپنی بہتر تصویر سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہوتی۔ یہ مواصلت ایک ایسے عہد میں ناگزیر ہوچکی ہے جب مسلمان دنیا کے کم و بیش ہر ملک میں آباد ہیں اور وہ اکثر ممالک میں آبادی کے لحاظ سے اقلیت میں ہیں۔

گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران اسکنڈے نیوین ملکوں ناروے، ڈنمارک اور سویڈن میں اسلام دشمن گروہوں نے مظاہرے کرنے اور قرآن جلانے یا اس کی توہین کی کوششیں کی ہیں۔ ایسے ہر مظاہرے کے موقع پر ان کے خلاف احتجاج کرنے والے بھی کثیر تعداد میں جمع ہوتے ہیں۔ ان میں مسلمانوں کے علاوہ مقامی آبادی کی اکثریت ہوتی ہے جو ہمہ قسم انتہا پسندی کو مسترد کرتے ہیں۔ تاہم بعض مشتعل مسلمان نوجوان ایسے موقع پر توڑ پھوڑ یا تشددمیں ملوث ہوکر منفی شہرت کا سبب بنتے ہیں۔ اور ایسے گروہ جو کسی اسلام دشمن مظاہرے میں درجن بھر افراد بھی لانے کے قابل نہیں ہوتے ، میڈیا کے ذریعے اپنی بات لاکھوں لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔

گزشتہ دنوں سویڈن کے شہر مالمو میں ایسا ہی واقعہ دیکھنے میں آیا۔ پولیس نے اسلام دشمن ایک ڈینش لیڈر کو سویڈن میں داخلے کی اجازت نہیں دی لیکن اس کے چند حامیوں نے کسی دور دراز جگہ پر قرآن کا نسخہ جلانے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر جاری کرکے اشتعال انگیز صورت پیدا کر دی۔ سینکڑوں ناراض مسلمان نوجوانوں نے مظاہرہ شروع کردیا اور متعدد کاروں کو نذر آتش کردیا۔ مظاہروں کو کنٹرول کرنے والے 12 پولیس افسر زخمی ہوئے۔ ایسے واقعات مسلمانوں کے لئے ہمدردی کی بجائے نفرت اور دوری کے رویہ پیدا کرتے ہیں۔ حالانکہ اس افسوسناک واقعہ پر توڑ پھوڑ کرنے کی بجائے کسی مضمون، تقریر یا مکالمہ میں یہ سوال کیا جاسکتا تھا کہ کیا کسی کتاب کو جلانا آزادئ اظہار ہے؟ یقین ہے اس سوال کا جواب دینا آسان نہ ہوتا۔

فرانسیسی صدر میکرون نے چارلی ہیبڈو کی طرف سے متنازعہ کارٹون دوبارہ شائع کرنے پر ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ’فرانس کے لوگوں کو مذہب کی توہین کی اجازت ہے۔ اس کا تعلق ضمیر کی آواز سے ہے۔ میرا کام ان آزادیوں کی حفاظت ہے‘۔ مسلمان حقیقی قانونی پوزیشن اور اہم سماجی رویہ کا جواب توڑ پھوڑ یا پتلے جلانے سے نہیں دے سکتے۔ بہتر ہوگا کہ اس بحث پر علمی نکات کے ساتھ شریک ہونے کی روایت مستحکم کی جائے ۔ اس کے ساتھ ہی مسلمان ملکوں میں غیر مسلم اقلیتوں کے خلاف نفرت، تشدد اور امتیازی سلوک کے خلاف آواز اٹھائی جائے۔ مسلمان اگر اپنا اور اپنے عقیدے کا احترام چاہتے ہیں تو انہیں ثابت کرنا ہوگا کہ وہ بھی دوسرے عقائد اور انسانوں کا احترام کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali