بجلی کے بلوں کے جلنے سے دلوں کے جلنے تک


تازہ ترین خبروں کے مطابق کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے کے الیکٹرک کے لئے ایڈجسٹمنٹ ٹیرف کے تحت بجلی 1.09 روپے فی یونٹ مہنگی کرنے کی منظوری دیدی۔ بدھ کو کابینہ ڈویژن میں مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی زیر صدارت ای سی سی کا اجلاس ہوا جس میں کے الیکٹرک کے لئے 2016 تا 2019 کے عرصے کے لئے سہ ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کی بھی منظوری دی گئی۔ ایڈجسٹمنٹ کے مطابق کے الیکٹرک بجلی کی قیمتوں میں 1.09 روپے فی یونٹ کے حساب سے اضافہ کرسکے گی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ حکومت جو ہر قسم کی سبسڈی کے خلاف ہے اور عوام کو جن جن مدات میں حکومت سبسڈی ادا کیا کرتی تھی وہ سب واپس لے کر عوام پر مہنگائی کا اضافی بوجھ تو ڈال دیا گیا ہے لیکن کے الیکٹرک جیسا ادارہ جو عوام کو مسلسل بجلی کی کے جھٹکے پر جھٹکے دینے سے باز آ کر نہیں دے رہا، اسی اقتصادی اجلاس میں زر تلافی کی مد میں کے ای کو 4 ارب 70 کروڑ روپے جاری کرنے کی منظوری کے احکامات بھی جاری کر چکا ہے۔

پاکستان کے عوام کا سب سے سنگین مسئلہ یہی رہا ہے کہ اس کے قیام سے لے کر تا حال رہنماؤں نے پاکستان بننے سے پہلے اور پاکستان بن جانے کے بعد ہر حکومت نے اقتدار پر براجمان ہونے سے پہلے جو جو وعدے عوام سے کیے اور جو جو سبز باغ عوام کو دکھائے، وہ سب کے سب جھوٹ اور دھوکے کی ٹٹی کے علاوہ اور کچھ بھی ثابت نہیں ہوئے۔ جب پاکستان بنانے کی تحریک چل رہی تھی تو اس وقت کے مسلمانان ہند سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ہم ایک ایسا خطہ زمین حاصل کرنے کے لئے جہاد کر رہے ہیں جہاں اللہ کا نظام نافذ کیا جائے گا لیکن پاکستان بنتے ہی خلافت کا اعلان کرنے کی بجائے گورنر جنرل بننے کا اعلان سامنے آیا اور اسلامی نظام کے نفاذ کی بجائے آقاؤں کے بنائے ہوئے آئین و قانون کو فوری طور پر ملک کے طول و عرض میں نافذ کر دیا گیا۔

اس کے بعد بھی جمہوریت یا فوجی ڈکٹیٹر شپ میں بھی مسلسل یہی مذاق عوام سے جاری رہا اور آنے بہانے ہر آنے جانے والی حکومت آنے سے پہلے عوام سے جو جو وعدے اور دعوے کرتی رہی، اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد اپنے وعدوں اور دعووں سے انحراف کرتی رہی اور ہر وہ قدم اٹھا یا جاتا رہا جو دعووں اور وعدوں سے بالکل مختلف اور بر عکس تھا۔

موجودہ حکومت نے تو اپنے ہر وعدے اور دعوے سے پھر جانے کی حد ہی کر دی۔ اس سے پہلے جو جو حکمران آئے وہ بھی اپنے دعووں یا وعدوں کو کبھی پورا تو نہیں کر سکے لیکن وہ آدھا تہائی ضرور پورے کرتے نظر آئے۔

جب اسلام آباد میں موجودہ حکومت نے 126 دن کے لئے ڈیرہ ڈالا تو خیال یہی تھا کہ اگر ان کے سر پر اقتدار کا ہما لہرایا تو پاکستان اور پاکستان کے عوام کی قسمت بدل جائے گی اور خوشحالی کی ایسی صبح کا آغاز ہو گا جس کی کبھی شام نہ ہو سکے گی۔ گیس، بجلی، پانی کے بلوں میں اگر کمی نہ بھی ہو گی تو ان میں اضافہ کسی صورت نہ ہو سکے گا۔ کھانے پینے کی اشیا ارزاں ہو جائیں گی۔ پٹرول کوڑیوں کے مول بکنے لگے گا۔ بسیں پلوں پر سے اور ٹرینیں پلوں کے نیچے سے گزرا کریں گی۔

بڑے بڑے ڈیم تعمیر ہوں گے۔ سڑکیں تو سڑکیں، محلوں کی گلیاں تک پختہ ہو جائیں گی۔ تعلیم کا ایک جیسا معیار ہوگا۔ تعلیمی ادارے ہزاروں کی تعداد میں تعمیر ہو جائیں گے۔ چپے چپے پر ایسے ہسپتال ہوں گے جن میں مفت علاج کی سہولت ہوگی۔ بے چھتوں کے لئے لاکھوں مکانات تعمیر کیے جائیں گے۔ زمین سونا اگلنے لگے گی۔ چور اور لٹیرے جیلوں میں ہوں گے، جتنی دولت انھوں ملک کے خزانوں سے لوٹ کر بیرون ملک منتقل کردی ہے وہ سب کی سب مع سود ملک کے خزانے میں لوٹ کر رہے گی اور وسائل کی اتنی فراوانی ہو گی کہ وہ تمام پاکستانی جو ملک میں ملازمتوں کے نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے ممالک میں اپنے اپنے روزگار حاصل کر رہے ہیں وہ بحری اور ہوائی جہازوں میں لد لد کر ملک میں آ رہے ہوں گے۔

یہ تھا وہ تصور جو پاکستان کے عوام اپنے دل و دماغ میں بسائے ہوئے تھے لیکن صد افسوس کہ موجودہ حکومت نے سب کے خوابوں کو خواب و خیال اور ہر فرد کے تصوراتی بت کو پاش پاش کر کے رکھ دیا۔ آج اگر ایمانداری سے حالات کا جائزہ لیا جائے تو نہ صرف یہ کہ کسی شے کی قیمت بھی اس کے اصل ٹھکانے پر نہیں البتہ پاکستانیوں کی عقلیں ضرور ٹھکانے پر آ گئی ہیں اور لوگ سوچ رہے کہ وہ آخر اعتماد کریں تو کس پر کریں۔

بجلی کا بل 8 روپے فی یونٹ پر جلایا جا رہا تھا، مہنگائی کے خلاف پاکستان کے ایک ایک شہر میں جلوس نکالے اور جلسے کیے جا رہے تھے، لاکھوں مکانات تعمیر کیے جانے تھے، کروڑوں نوکریاں عوام میں تقسیم ہونی تھیں اور کروڑوں روزگار کے مواقع جن کو طلسماتی انداز میں اتنا بڑھ جانا تھا کہ 1947 سے لے کر اب تک پاکستان سے باہر جانے والے پاکستان لوٹ آنے پر مجبور ہو جانے تھے، سب کچھ اس کے خلاف ہوتا دکھائی دینے پر بجلی کے بل جلائے جا رہے ہیں یا نہیں، دل ہے کہ جل جل کر ضرور راکھ ہوا چاہتا ہے۔

کے ای کو تقریباً 5 ارب روپے کی سبسڈی کی ادائیگی کی رقم بھی اگر کے ای کے بلوں میں 1 روپے 9 پیسے فی یونٹ اضافہ کر کے عوام ہی سے وصول کر کے ملک کے خزانے کا پیٹ بھرا جانا ہی ٹھہرا تو پھر بلوں کی بجائے دل نہیں جلیں گے تو اور کیا جلے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).