وہ تھی ایورسٹ کی چوٹی


ریحان بھائی، آپ میرے کمرے میں آئیے ذرا۔
بھئی کیوں میری بوڑھی ہڈیوں کو تکلیف دے رہے ہو، تم کیوں میرے کمرے میں نہیں آ جاتے۔
کوئی وجہ ہے نا، آپ آئیے تو ۔
اور یہ تم کھس پسا کیوں رہے ہو؟
اب ہر بات فون پر تو نہیں ہو سکتی، اسی لئے تو بلا رہا ہوں۔
تو خود کیوں نہیں آ جاتے؟

میں نہیں آ سکتا، آپ کو کوئی چیز دکھانی ہے۔
ٹی وی پر دکھانی ہے، تو ٹی وی میرے کمرے میں بھی ہے۔
ایک تو آپ جرح بہت کرتے ہیں، وہ چیز ٹی وی پر نہیں ہے۔
تو ساتھ لے کر آ جاؤ۔
پھر وہی حجت۔ لائی نہیں جا سکتی۔

ایسی کون سی چیز ہے؟
ایورسٹ کی چوٹی۔
واہ بھئی، یہ بھی خوب چیز ہے!
آپ کو نہیں آنا تو نہ آئیں۔ بعد میں بتاؤں گا تو آپ یقین نہیں کریں گے۔ میں فون بند کر رہا ہوں۔

ریحان یوں تو جہاں زیب سے عمر میں بہت بڑے تھے مگر دونوں میں دوستی خوب تھی۔ جہاں زیب اپنے تازہ رومان انھیں سناتا تھا اور ان کے باسی رومان سن کر خوش ہوتا تھا۔ دونوں ہم مشرب تھے مگر اب ہم پیالہ نہیں رہے تھے کیونکہ جہاں زیب اب بھی پیتا تھا جب کہ ریحان نے دل کے دورے کے بعد چھوڑ دی تھی۔ البتہ یاروں کی ضد پر شب ماہتاب میں اب بھی کبھی کبھی چکھ لیتے تھے۔ ایک عادت پرانی اور بھی تھی۔ ہر بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے تھے۔

کیوں اور کیا کہنے کی ایسی عادت پڑی تھی کہ لوگ ان سے کترانے لگے تھے۔ شاید اسی لئے ان کے زیادہ دوست نہیں تھے۔ کون ان کے سوالوں کے جواب دیتا پھرے مگر جہاں زیب کو ان کی اس بات میں بھی مزا آتا تھا۔ وہ ان کو ایسے کرارے جواب دیتا تھا کہ وہ سوال کرنا چھوڑ دیتے تھے۔ یہی ہوا ایورسٹ کی چوٹی کا نام سن کر وہ خاموش ہی نہیں ہوئے بلکہ کمرے کا تالا لگا کر جہاں زیب کے کمرے کی طرف روانہ ہو گئے۔

جہاں زیب کو بھی معلوم تھا کہ اب حضرت کو ایورسٹ کی چوٹی کا تجسس کھینچ کر لائے گا۔ وہ باہر ہی کھڑا تھا۔ دروازہ اس نے کھلا رکھا تھا۔

آئیے، شطرنج کی بازی لگی ہوئی ہے۔
یہ کیا بے موقع بات ہے۔ سیمینار میں آئے ہیں یا شطرنج کا مقابلہ جیتنے!
ریحان بھائی کبھی کسی کی بات مان بھی لیا کیجئے۔ میں بھی عاقل بالغ ہوں۔ شکار پور سے نہیں آیا ہوں۔
اچھا بھئی جو تم کہو، مگر وہ ایورسٹ کی چوٹی!

جہاں زیب نے صرف ہونٹوں پر ہاتھ رکھا اور ہاتھ پکڑ کر انھیں اندر لے آیا۔ واقعی شطرنج کی بساط بچھی ہوئی تھی۔

اندر آن کر ایک کرسی پر خود بیٹھ گیا اور دوسری پر ریحان کو بٹھا دیا۔ ریحان نے جیسے ہی منھ کھولا جہاں زیب نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر سرگوشی میں کہا اس وقت بحث کا موقع نہیں، چپ چاپ بیٹھ کر شطرنج کھیلنے کا وقت ہے۔ اور خود پہلی چال کردی۔

ریحان فوراً میدان کارزار میں اتر گئے۔
معرکہ آرائی شروع ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد چونکے۔ غسل خانے میں کوئی ہے۔

ہاں، وہی ایورسٹ کی چوٹی۔
میں سمجھا نہیں۔
دیکھیں گے تو سمجھ جائیں گے۔
بھئی یہ شطرنج۔ ۔ ۔
آپ کی باری۔ جہاں زیب نے پھر خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
ریحان نے پھر شطرنج میں غوطہ لگا لیا۔

ذرا دیر بعد غسل خانے کا دروازہ کھلا۔ ریحان نے نظریں اٹھائیں۔ ارے مس جھنڈے والی! وہ گاؤن پہنے اپنے گیلے بالوں پر تولیہ مسلتی ہوئی آ رہی تھی۔ ریحان کو دیکھ کر جھجکی، کچھ ٹھٹکی۔ پھر اسے سلام کیا اور اسی طرح بالوں کو تولیہ سے رگڑتی بیڈ روم میں چلی گئی۔

لوگ اسے طرح طرح کے ناموں سے پکارتے تھے۔ آج جہاں زیب نے اسے ایورسٹ کی چوٹی کا خطاب دیا تھا۔ اس کا نام نہ مس جھنڈے والی تھا نہ ایورسٹ کی چوٹی۔ کسی نے جھنڈے والی کا نام دیا تھا کہ وہ اپنی انا کا جھنڈا بلند رکھتی تھی۔ کسی نے اسے بے پر کی چڑیا بھی کہا تھا اور کسی اور نے اس کا گانا بھی بنا دیا تھا۔ اڑتی جاؤں گاؤں گاؤں۔ کسی کے ہاتھ نہ آؤں۔

آپ کہتے تھے کہ اس کو کوئی سر نہیں کر سکتا۔ جہاں زیب نے کہا۔ اور سارے مہرے ہاتھ سے ایک طرف سرکا دیے۔

ہاں میں نے کہا تھا کہ کوئی اسے سر نہیں کر سکتا سوائے ہمارے جہاں زیب کے۔ اس کی وجاہت اور فصاحت سے کون بچ سکتا ہے بھائی۔ کسی نہ کسی نے تو ایورسٹ کو بھی سر کیا ہے۔ ۔ ۔ ایسے وقت ڈھیٹ بن جانا بھی ریحان کی عادت تھی۔

بھائی صاحب، خوشامد سے کام نہیں چلے گا، ہار مانیے ہار۔
ہاں بھئی میں ہارا۔ کیا سزا ہوگی۔
خود سوچئے۔ ایورسٹ کو سر کرنے کی بات تھی، معمولی نہیں۔
ٹھیک ہے، سزا بھی بڑی ہوگی۔ ہمیں منظور ہے، جو مزاج یار میں آئے۔
اب آپ جا سکتے ہیں۔ میں اس سے کہہ دوں گا کہ آپ شطرنج کی بازی ہار کر چلے گئے۔

مگر ریحان کے اٹھنے سے پہلے وہ ایورسٹ کی چوٹی اپنے پورے لباس میں میک اپ کے ساتھ ہاتھ میں ایک بیگ لئے نکلی اور جہاں زیب سے کہا۔ ان کو بلانے کی کیا ضرورت تھی۔ کل کے اخبار میں خبر چھپوا دیتے۔ ۔ ۔ باہر کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے وہ بڑبڑائی، مجھے بھی کسی نے چیلنج کیا تھا۔ ”کے ٹو“ ۔ سر کرنے کے لئے۔
اور پھر دروازے سے نکلتے ہوئے اس نے پلٹ کر کہا۔ اب مجھ سے کبھی بات کرنے کی کوشش مت کرنا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).