’اگر عاصم باجوہ صفائی نہ دے سکے تو لوگ سوچیں گے احتساب جانبدار ہے‘


Asim Bajwa

Getty Images

عاصم باجوہ نے یہ قدم ایک ایسے وقت پر اٹھایا ہے جب ان پر یہ الزام گردش کر رہا ہے کہ انھوں نے اپنی اہلیہ کے کاروبار کی تفصیلات بطور مشیرِ اطلاعات جاری کیے گئے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیں۔

حال ہی میں صحافی احمد نورانی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عاصم باجوہ اور ان کے فیملی کے مالی وسائل میں اضافہ ان کے اہم عہدوں پر فائض ہونے کے ساتھ ساتھ تیزی سے بڑھتے رہے ہیں۔

تاہم عاصم باجوہ نے ان تمام الزاما کی سختی سے تردید کی ہے۔ جمعرات کی شام انھوں نے تفصیلی پریش ریلیز میں اپنے پر لگائے گئے الزامات کا تفصیلی جواب دیا ہے۔

تاہم اس حوالے سے سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث جاری ہے جس میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عاصم باجوہ کی جانب سے صرف استعفیٰ دیا جانا ناکافی ہے حکام کو ان کی مزید تفتیش کرنی چاہیے۔ دوسری جانب عاصم باجوہ کے حامیوں کی بھی کمی نہیں ہے جو کہ ان کے جواب کو کافی مان رہے ہیں۔

ثارف عادل انجم نے سوال اٹھایا ہے کہ جنرل عاصم کی وضاحت کے مطابق ان کے بیٹوں کی کمپنیاں منافع کیوں نہیں دیکھا رہیں اور کہیں وہ شیل کمپنیاں تو نہیں ہیں۔

صارف سندھو نواز کا کہنا تھا تھا کہ کیا ایک ایسا شخص جس کی ساخ کے بارے میں سوال اٹھے ہیں، سی پیک اتھارٹی کا سربراہ رہ سکتا ہے؟

صارف رانا رمیض رضا کے خیال میں یہ استعفیٰ ایک طاقتور شخص کے خلاف پبلک پریشر کی ایک مثال اور کامیابی ہے۔

عالیہ زھرا کہتی ہیں کہ اگر عاصم باجوہ کرپشن کے الزامات کے حوالے سے مکمل صفائی نہ دے سکے تو اس خیال کو فوقیت ملے گی کہ ملک میں احتساب کی کوششیں جانبدار ہیں۔

مگر دوسری جانب جنرل عاصم باجوہ کے حامیوں نے بھی شودل میڈیا پر آواز اٹھائی ہے۔

ایک صارف نعمان سرور نے اس معاملے کو سی پیک کے ساتھ جوڑا کہ جب بھی سی پیک میں تیزی آتی ہے تو پاکستانی میڈئا سی پیک حکام پر حملے شروع کر دیتا ہے۔

https://twitter.com/NomanSarwarr/status/1301543479915446279

جہانزیب ورک کے لیے عاصم باجوہ کی جانب سے دی گئی وضاحت مکمل اور کافی رہی۔

https://twitter.com/JahanVirk/status/1301547310929915915

عاصم سلیم باجوہ کون ہیں؟

نامہ نگار فرحت جاوید کے مطابق جنرل عاصم سلیم باجوہ پاکستانی فوج میں ایک نہایت زیرک افسر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ وہ بریگیڈیر کے طور پر ٹرپل ون بریگیڈ، منگلا کور میں چیف آف سٹاف، بطور میجر جنرل جی او سی ڈیرہ اسماعیل خان اور پھر جنوبی وزیرستان میں تعینات رہے۔

وہ مئی 2012 میں ڈی جی آئی ایس پی آر کے عہدے پر تعینات ہوئے اور دسمبر 2016 تک اسی عہدے پر رہے۔

آئی ایس پی آر میں وہ پہلے تھری سٹار افسر تھے جنھوں نے اس عہدے پر تقریباً سوا سال خدمات سرانجام دیں۔

کچھ مدت کے لیے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے انھیں آئی جی آرمز تعینات کیا جس کے بعد وہ بطور کور کمانڈر سدرن کمان تعینات ہوئے۔

ان کے کریڈٹ پر آرمی پبلک سکول حملے کے بعد میڈیا منیجمنٹ کو خود فوج میں بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے انھیں سی پیک اتھارٹی کا سربراہ مقرر کیا اور اب انھیں معاون خصوصی کا درجہ دیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp