پاکستان کے لوک فنکار: ’موسیقی ہمارے لیے بزنس نہیں گزر بسر کا واحد سہارا ہے‘


واحد بخش فقیر

واحد بخش فقیر

’دنیا میں ایک وبا آئی ہے۔۔۔ اس سے ہم بھی متاثر ہوئے ہیں، پاکستان میں بھی بہت نقصان ہوا ہے، اور اس کا سب سے زیادہ نشانہ آرٹسٹ ہی بنے ہیں، کیونکہ جب بھی فنکار کوئی فنکشن یا پروگرام کرتے ہیں تو اس کو سننے والے دو چار سے لے کر سینکڑوں کی تعداد میں ہوتے ہیں۔۔۔ لیکن وہ سب تو بند ہے کئی مہینوں سے، یہ آرٹسٹ لوگ جو ہوتے ہیں وہ اتنے مالدار نہیں ہوتے۔۔۔ خیر اب تو کچھ ہیں بھی۔ مگر جو لوک فنکار ہیں، وہ ویسے ہی فقیر طبعیت ہوتے ہیں۔‘

یہ کہنا تھا موہنجو دڑو تہذیب کے ایک آلہِ موسیقی ’بھورینڈو‘ کے اس وقت پاکستان میں واحد استاد اور ماہر فقیر ذوالفقار علی کا۔

ذوالفقار علی گذشتہ کئی روز سے اسلام آباد میں ایک ایسے تربیتی پروگرام میں شرکت کرنے کے لیے موجود ہیں، جہاں انھیں انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے کام کو دنیا کے سامنے لانے اور اس سے آمدن حاصل کرنے کے طریقے سکھائے جا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان کے دم توڑتے ساز

’شدت پسندی کا مقابلہ صوفی موسیقی سے‘

’سروز کے بغیر بلوچ قبائلی موسیقی نامکمل ہے‘

’موجودہ دور کی موسیقی اپنا تاثر نہیں چھوڑتی’

پاکستان میں فنکاروں اور ان کے فن کی ترویج کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم فیس (فاؤنڈیشن فار آرٹس، کلچر اینڈ ایجوکیشن) کے ’ہیریٹج لائیو‘ کے نام سے منعقد کردہ ریزیڈینسی پروگرام میں ملک کے طول و عرض سے 20 لوک فنکار تربیت حاصل کر رہے ہیں۔

ان تمام فنکاروں کا تعلق ایسی لوک موسیقی اور سازوں سے ہے جو اپنی بقا کے خطرات سے دوچار ہیں۔

لوک فنکاروں کو کیا مشکلات درپیش ہیں؟

اس تربیتی ورکشاپ میں آئے الن فقیر کا انداز اپنائے سندھ کی روایتی موسیقی اور صوفی کلام گانے والے واحد بخش کو دنیا زیادہ تر ’واحد فقیر‘ کے نام سے جانتی ہے۔

مشکلات کے بارے پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کیا پوچھتے ہو بابا۔۔۔؟ اس سوال کا جواب تو کئی دن میں بھی مکمل نہیں ہو گا۔ زمین آسمان گھومنے لگیں گے۔ مشکلات کی لسٹ اتنی طویل ہے کہ میں پڑھ نہیں پاؤں گا۔ بس صوفیا کے ذریعے خدا کا جو پیغام ہمیں ملا کہ اللہ کا شکرانہ کرو۔۔۔ وہی کرتا ہوں۔‘

ذوالفقار علی

ذوالفقار علی

برصغیر کی معروف گلوکارہ ریشماں کے خاندان سے تعلق رکھنے والی لوگ گلوکارہ گلشن جہاں اس تربیتی ورکشاپ میں شامل واحد خاتون ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اب موسیقی ہمارے لیے بزنس تو نہیں ہے لیکن گزر بسر کا واحد سہارا بھی یہی ہے مگر اتنے مہینے کورونا کی وبا سے کوئی کام نہیں ہے، پوری دنیا کا حال ایک جیسا ہے، تو جتنا جمع تھا سب کھا لیا، جتنی برداشت تھی وہ گزر چکی۔۔۔‘

اجمل بھیل چولستان سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا خاندان کئی نسلوں سے ریگستانی ساز ’چنگ‘ اور ’رائنتی‘ بجا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں اُن کے بڑوں نے بھی یہ ساز بجا کر چولستان میں کوئی محل تو کھڑے نہیں کیے تھے مگر یہ ساز اس سے پہلے اس قدر مشکل میں نہیں تھا جتنا آج ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’گزر بسر کا بڑا اور ترجیحی ذریعہ تو یہی ہے مگر جب کام نہ ملے تو بچوں کا پیٹ تو پالنا ہے، جس کے لیےمیں اور محنت مزدوری ڈھونڈتا ہوں۔ کبھی کسی کی فصل کی بوائی کا کام مل جاتا ہے کبھی کٹائی کا۔۔۔ سلسلہ چل جاتا ہے۔‘

مرلی یا بین کے ماہر استاد ستار جوگی کہتے ہیں کہ ’میں نے پوری زندگی محنت کی اور مرلی کو کلاسیکل موسیقی کے ساتھ بجانے کے قابل ہوا، اس ساری محنت کے بعد کوئی پھل نہیں ملا۔۔۔ کام ہے نہیں، کام ہے تو معاوضہ نہیں، معاوضہ ہے تو معقول نہیں۔‘

ذوالفقار کہتے ہیں کہ ’میں بھورینڈو کو دو سُروں سے سات سُروں پر لے آیا ہوں صرف اس لیے کے موسیقی کے دیگر سازوں کے ساتھ بھورینڈو کا ملاپ ہو سکے، یہ کوشش میں نے صرف اپنے کام کے لیے نہیں اس ساز کو زندہ رکھنے کے لیے بھی کی ہے۔‘

لوک فنکاروں کو کیا سکھایا جا رہا ہے؟

فیس تنظیم کی پروگرام کوآرڈینیٹر نوشین بخاری کہتی ہیں کہ اس ورکشاپ کا بنیادی مقصد ان فنکاروں کو سامنے لانا ہے جن کے پاس ہنر تو ہے مگر انھیں وہ توجہ حاصل نہیں ہوسکی جن کے وہ مستحق تھے۔ جس کی وجہ سے یہ فنکار خود بھی مشکلات کا ہوئے اور یہ قدیم ساز بھی۔

گلش جہاں

گلش جہاں

نوشین کہتی ہیں کہ ’ہم نے یہ ذمہ داری لی ہے کہ ہم ان کے کام کو سامنے لائیں گے، عوام تک لے جائیں گے ۔ان فنکاروں کو جو آج جدید موسیقی سے وابستہ ہیں اور اپنی پہچان رکھتے ہیں، ہم ان کو بھی ان لوک موسیقاروں کا کام دکھائیں گے، کہ وہ بھی ان کے ساتھ کام کر سکتے ہیں، جس سے دونوں جانب ہی فائدہ ہو گا۔‘

خواتین کی تربیتی ورکشاپ میں کم شرکت کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ ’ہیرٹیج لائیو کی تیاری کے دوران ہی مجھ پر یہ انکشاف ہوا کے لوک موسیقی سے وابستہ خواتین کی تعداد انتہائی کم رہ گئی ہے۔ جو ہیں وہ مشکلات کا شکار ہیں، انھیں اس طرح کی تربیتی ورکشاپ میں آ نے کی اجازت نہیں ملتی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس ورکشاپ کے انعقاد میں ’پاکستان پاورٹی الیوی ایشن فنڈ‘ اور نئی پاکستانی سوشل میڈیا ایپلیکیشن ’رنسٹرا‘ اور لوک ورثہ جیسے اداروں کا تعاون آئندہ بھی برقرار رہا تو وہ پرعزم ہیں کہ نہ صرف یہ پروگرام جاری رکھا جائے گا بلکہ اس میں وسعت میں لائی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ فیس فاؤنڈیشن خواتین فنکاروں کے لیے ایسی ہی خصوصی تربیتی ورکشاپس کرانے کا منصوبہ بھی تشکیل دے رہی ہے۔

نوشین کہتی ہیں کہ ’اس ورکشاپ میں ان فنکاروں کو سوشل میڈیا کے استعمال کی بنیادی ٹریننگ، سوشل میڈیا کے ذریعے خود کو برینڈ کے طور پر متعارف کرانے، شخصیت سازی اور موسیقی کے کاروبار سے متعلق ٹریننگ دی جا رہی ہے۔ اس وقت بنیادی نقطہ ان کے کام کا فروغ ہے، کہ یہ خود اپنے کام کو سوشل میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچا سکیں۔‘

لوک ورثہ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر طلحٰہ علی خان کہتے ہیں کہ ’ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے تہذیب کو دکھاوے کی حد تک محدود کر رکھا ہے، شناخت کے طور پر نہ اپنانا بھی اس کی ایک وجہ ہے کہ آج ہمیں اس کے معدوم ہونے کے خطرات لاحق ہیں۔‘

’ترقی کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ ہم اپنے روایتی لباس، موسیقی یا دیگر چیزوں کو وہاں ہی سامنے لائیں جہاں تاریخ کی بات ہو رہی ہو۔اس طرح تہذیب ایک سفید ہاتھی بن جاتا ہے۔‘

طلحٰہ علی خان کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کے دور میں بھی نہ اپنے اس قدیم اثاثے کو دنیا کے سامنے نہ لا جانا بھی ایک افسوسناک عمل ہے۔ انھوں نے اُمید ظاہر کی ہے کہ ہیرٹیج لائیو کا یہ آغاز یہاں رُکے گا نہیں بلکہ یہ سفر جاری رہے گا۔

اجمل بھیل

اجمل بھیل

کیا قدیم ساز بجانے والے یہ فنکار معاشی خود مختاری حاصل کر پائیں گے؟

گلشن جہاں کا کہنا تھا کہ ’انٹرنیٹ کا استعمال کی حد تک تو علم تھا، یہ بھی معلوم تھا کہ دنیا اس سے پیسے کما رہی ہے، مگر خواہش کے باوجود نہ کبھی یہ جان پائی اور نہ ہی کسی نے اس حوالے سے مدد کی۔ اب اس ٹریننگ میں اس امید سے آئی ہوں کہ گھر پر بیٹھ کر بھی اگر روزگار کا سلسلہ چلتا رہے تو اچھا ہے۔‘

اس سوال کے جواب میں واحد فقیر اپنی جیب سے ٹریننگ میں ہی ملنے والا سمارٹ فون نکالتے ہوئے بولے ’یہ موبائل میں نے کبھی استعمال نہیں کیا، نہ ہی آتا تھا۔ اب یہاں یہ ملا ہے، اس کا استعمال معلوم ہوا ہے۔ یہ بھی میں نے سیکھ لیا ہے کہ تصویر کیسے بنانی ہے، ویڈیو کیسے بنانی ہے۔ اس کام کے لیے وقت اور منظر کا انتخاب کیسے کرنا ہے۔ یہ سب اب میں کروں گا۔ میں پوری دنیا کو بتاؤں گا کہ میں بھی یہ کرسکتا ہوں۔ اب محتاجی تو نہیں ہونی چاہیے ناں۔۔۔!‘

ستار جوگی کہتے ہیں کہ ‘مرلی کا ساز دنیا میں زیادہ پھیلا ہوا نہیں، میں اسے بناتا بھی خود ہوں، ایک شاگرد بھی ہے۔ اگر اس کو میں انٹرنیٹ کے ذریعے بیچنے یا سیکھانے کی کوشش کروں تو دنیا میں ہزاروں خواہشمند سامنے آجائیں گے۔ یہ بات بھی مجھے یہاں ٹریننگ میں آ کر ذہن میں آئی ہے۔’

اجمل بھیل کہتے ہیں کہ انہیں کسی نے کبھی نہیں بتایا کہ وہ بھی انٹرنیٹ سے معاشی مسائل کے حل میں مدد لے سکتے ہیں۔ ’ہماری چنگ اور رائنتی کی ریکارڈنگز بھی ہیں، ہمارا چھ سات فنکاروں پر مشتمل گروپ ہوتا ہے، سب کا کام الگ اور منفرد ہے۔ مگر یہ کسی نے نہیں بتایا۔۔۔اب پتہ چلا ہے۔ محنت کریں گے، برکت ہو گی۔‘

نیا سوشل میڈیا پلیٹ فارم رنسٹرا کیا ہے؟

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے رنسٹرا کی چیف کریٹیو آفیسر مصاح اسحاق خالد کہتی ہیں کہ ’رنسٹرا اپنی نوعیت کی پہلی پاکستانی ایسی سوشل میڈیا ویب سائٹ ہے جو عوام اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار اور آمدن کا ایک ساتھ موقع فراہم کر رہی ہے۔ اس کے استعمال کا طریقہ دیگر بڑی معروف سوشل میڈیا ویب سائٹس جیسا ہی ہے اور رنسٹرا پر پوسٹ کیا جانے والا مواد دیگر سماجی رابطوں کے ذرائع پر بھی باآسانی شیئر کیا جا سکتا ہے۔‘

مصباح کہتی ہیں کہ ’پاکستان میں صلاحیتوں کی صحیح انداز میں پذیرائی نہ ہو پانا ایک بڑا مسئلہ ہے، کوئی بھی شعبہ ہو، اظہار کے مواقعے نہ ملیں تو ٹیلنٹ ضائع ہوتا ہے۔ رنسٹرا کے ذریعے ہم پاکستان کی عوام خصوصاً نوجوانوں کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو سامنے لا کر معاش کا ذریعہ فراہم کر رہے ہیں۔ اور چونکہ رنسٹرا ایک نیا پلیٹ فارم ہے لہٰذا دیگرسوشل میڈیا ذرائع کے مقابلے میں فنکاروں، تخِلیق کاروں کو آمدن کے زیادہ حصے کی پیشکش کررہا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ رنسٹرا پاکستان میں فلم اور ڈرامہ انڈسٹری کے بڑے ناموں کو اپنےساتھ منسلک کر رہا ہے۔ جن میں حسینہ معین، منیزہ ہاشمی، مہرین جبار، فیصل کپاڈیہ سمیت دیگر متعدد لوگ شامل ہیں۔

مصباح کہتی ہیں کہ ’تجربہ کار اور نوجوان فلم سازوں اور ڈرامے بنانے والوں کی ایک بڑی تعداد بھی رنسٹرا کے لیے مختلف منصوبوں پر کام کررہی ہے، جن میں ویب سیریز کے مختلف پروجیکٹس زیر تکمیل ہیں، اس طرح نہ صرف یہ کہ وہ نوجوان جو اپنا کام دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کررہے ہیں وہ ناصرف کامیاب ہوں گے بلکہ مستقبل میں انھیں بڑے منصوبوں میں شمولیت کا موقع بھی حاصل ہو گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32496 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp