ہمارے تایا، عاصم باجوہ اور دندان شکن جواب


پہلے اک نہایت غیر متعلق قصہ سنیں۔ اپنے پنڈ بستی کا واقعہ ہے۔ سارے پنڈ کے اک تایا جی ہیں، جو ہمارے بھی تایا ہیں۔ چار بندے، دو پنڈ لڑانے ہوں، چلتے کام روکنا ہوں، یا ہوتے کام بگاڑنا۔ ان سب میدانوں میں ان کی مہارت ڈنکے بجاتی شرماتی رہتی ہے۔ شرمانا ان کی ہر کہانی میں کسی نہ کسی کو پڑتا ہی ہے۔

 

المختصر اک عاشق کو مشاورت فراہم کر رہے تھے۔ اس کو کاکی گھیر قسم کی ساری سکیمیں بتایا کرتے تھے۔

 

کاکی کے بھائیوں کو بھی بتاتے کہ پنڈ کی عزت دا خیال رکھو۔ اس دو طرفہ مشاورت کا جو نتیجہ نکلنا تھا پھر وہی ہوا کہ عاشق کڑی کو لے کر فرار ہو گیا اور تیسرے پنڈ ہی پہنچا تھا کہ اسے پہلے پکڑ گرایا گیا، پھر پنڈ واپس لایا گیا۔
پریا بیٹھی صورتحال پر غور کیا۔ نتیجہ نکالا گیا تو پتہ لگا کہ کام بہت غلط ہوا ہے۔ آئندہ واسطے سب کو کن ہو جائیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس عاشق کو سارے بزرگ اک اک جوتا تو لگائیں۔ پریا نے یہ فیصلہ کرتے وقت نہ عاشق کی صحت کا خیال کیا۔ نہ اس کے جذبات کا نہ اس کے عزائم کا اندازہ لگا سکی۔

جیسے ہی عاشق کی سروس شروع کی گئی۔ وہ سبھی کو جڑ گیا۔ ظاہر ہے اکیلا تھا زیادہ وہی پٹا۔ پر جسے اس کا ہاتھ لگا وہ بھی آج تک یاد کرتا ہے۔

 

تایا نہایت سمجھ دار دنیا دار انسان ہیں۔ موقع سے فرار ہو کر مناسب فاصلے سے صورتحال کا جائزہ لے رہے تھے۔ ایسے میں عاشق نے طعنہ مارا کہ او بڈھے آ لاگے تجھے بتاؤں۔ تو تایا نہایت غلط موقع پر غیرت کھا کر عاشق کو چانٹا مارنے اس کے قریب چلے گئے۔ عاشق نہایت مصروف تھا تھپڑ کھا اور تھپڑ مار مہم میں۔ تایا اس کے قریب پہنچ گئے۔ عاشق کا جائزہ ہی لے رہے تھے کہ اس کمبخت کو تایا کا منہ عین نشانے پر آیا مل گیا۔ اس جوان نے گھما کر ایسا ریپٹا مارا ہے کہ بس۔
تایا اپنا تھپڑ سیدھا کرتے رہ گئے۔ عاشق کو موقع دے بیٹھے جس نے انج اے تے فر انج ای سئی کے سنہری اصول پر عمل کرتے ہوئے ان کے جبڑے ہلا دیے۔
تایا کو تارے نظر آ گئے۔ لڑکھڑاتے ہوئے مجمع سے باہر نکلے۔ ان سے پوچھا گیا کہ تایا کیا ہوا؟ یہ منہ اتنا لال غصے سے ہے؟ پنڈ کی عزت کا مسئلہ اتنا دل پر نہیں لیتے۔ تایا ہمت کر کے بولے بھی تو مری ہوئی منماتی سی آواز نکلی۔ توڑ آیا ہوں اس کے دند (دانت) اب یاد رکھے گا، ہائے۔
اگلی سویر نائی کے پاس بیٹھے تایا اسے کہہ رہے تھے، “او کنجرا بال بعد میں کاٹنا پہلے میرا یہ دانت نکال ہل رہا ہے، کتھے تیرا زنبور۔ “
عاصم باجوہ نے یہ دند توڑ جواب دیا ہے۔ یہ پھرتی سے مشیر اطلاعات سے استعفی دیا۔ یہ جا وہ جا۔ سلوٹ ہے جناب۔
پچھلے ڈی جی آئی ایس پی آر جس طرح میڈیا پر ایکٹیو تھے، جیسے سوشل میڈیا پر وہ سرگرم تھے، پٹواری اور غیر پٹواری جیسے ان کی بلائیں لیتے تھے۔ ایسے میں ان کے جانے کے بعد آئی ایس پی آر کو سوچ سمجھ کر لو پروفائل پر لے جایا گیا۔ ابھی یاد کرنے کے باوجود نئے ڈی جی کا نام یاد نہیں آ رہا۔
عاصم باجوہ نے لپک کر اطلاعات کی مشاورت قبول کی، تو پٹواری مزاج یہی سیاپا کرتے رہے کہ میڈیا کا سیاسی مورچہ بھی ڈھے گیا۔ ایسا نہیں ہوا تھا۔ یہ ہمارے عظیم لیڈر کپتان کا اپنا کوئی وژن تھا۔ اور کیا وژن تھا، یہ کپتان کی کپتان ہی جانے۔

جسے دنیا بونگی کہتی ہے ویسا آئٹم کپتان پیش کرے تو کپتانی کہلاتا ہے۔ کپتان کسی بونگی کے اثر میں آ جائے تو پھر اسے دنیا بھر کی فوج مل کر نہیں سمجھا سکتی کہ یہ کپتانی ہے، یہ نہ کریں۔ نہ ماریں، رک جا، ٹل جا۔ یہ منڈا نہیں ٹلتا پھر۔

 

اب کسی نے اسے ایسا ہی سمجھا رکھا کہ جو کپتانیاں تم تمھاری ٹیم میڈیا اور سوشل میڈیا پر کرتی ہے، ٹرینڈ وہی ہے، سٹائل وہی ہے۔ بزتی بونگی جبلوتی سب وہی ہے اور کپتانی کہلاتی ہے اب۔ اک جیسی دکھائی دیتی یہ جبلوتیاں کپتانیاں قسما قسم کے اثرات پیدا کرتی ہیں۔ عاصم باجوہ کو وزارت اطلاعات میں لانا بھی ایسی ہی اک جبلوتی تھی۔

 

لو پروفائل کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ کوئی اپنا کام نہیں کرے گا۔ بس وہ زیادہ نمایاں ہوئے بغیر نظر آئے بغیر اپنا کام کرتا رہے گا۔ اتنا ہی مقصد ہوتا ہے۔
عاصم باجوہ اطلاعات میں آئے تو اپنی ٹیم بھی لے آئے۔ میڈیا نے منہ ول مشیر اطلاعات کر کے نیت باندھ لی۔
پریکٹیکلی ہوا یہ تھا کہ اطلاعات اور آئی ایس پی آر میں حاضر سروس اور ریٹائر کے فرق کے ساتھ ایک سے افسر بیٹھے تھے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہی تھا کہ کام میں فرق پڑتا۔ وزارت اطلاعات پرائی ڈومین میں لینڈ کر گئی تھی۔ یہ اک ناپسندیدہ عمل تھا۔ اک دو عملی سی طاری ہو گئی تھی۔
ایسے میں کپتان ایک ہی منجی پر پڑے ہیں دل تھام کے، بانہوں میں بانہیں ڈال کے بھی گاتا رہا، تو اعتراض کی کیا گنجائش نکلتی کسی کا دھیان تک نہیں گیا کہ گڑبڑ سی ہے۔
لڑکی کے بھائیوں سے پٹ کر جب احمد نورانی نے درد سچے کے مارے اک سٹوری کی، تو اس کا اثر پھر کیسے نہ ہوتا، دل دکھا ہو تو پھر ایسے ہی اثر آتا ہے کام میں۔ ہمارے صوبیدار صاحب تک سٹوری پڑھ کر صاف انکاری ہو گئے تھے کہ ہم کس کس کا دفاع کریں۔ ادھر تو اٹ چکو نیچے سے سابق افسر نکل آتا ہے۔ یہ افسر اب آپ ہی کر لیں اپنا دفاع۔
یہ حالات دیکھ کر دند توڑ جواب دے کر عاصم باجوہ نے مشیر اطلاعات سے استعفی دیا۔ جن کی ڈومین تھی انہیں واپس کی۔ اک قسم کی توبہ استغفار کی۔ بروقت یاد آ گیا کہ سول کے اپنے فضائل ہوتے ہیں۔ ریٹائر ہو جانے کی اپنی محدودات ہوتی ہیں۔ دفع مارو اطلاعات کو۔ سی پیک اتھارٹی کی چیئرمین شپ کو اور گھٹ کر جپھا ڈال لیا۔

اگلا جب باقاعدہ دوڑ گیا ہے تو کپتان نے کپتانی انہونی کر دی ہے۔ استعفی مسترد کر دیا ہے۔ دند توڑ جواب کو تسلی بخش مان لیا ہے۔ عاصم باجوہ کو کام جاری رکھنے کی ہدایت کر دی ہے۔

 

آگے کیا ہو گا، اس کا ہمیں کیا پتا۔ جو کچھ لکھا ہے، اس کا بھی ہمیں کون سا پتا ہے کہ ٹھیک ہے یا غلط۔ ہماری تو نہ باجوہ صاحب سنتے ہیں نہ احمد نورانی۔
وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi