ایک نظر ادھر بھی


ویسے تو یہ بات باعث شرم ہے کہ کسی ذمہ داری کو نبھانے کے لئے حلفیہ اقرار کرنے کے بعد بے ایمانی کی تمام حدود پار کرتے ہوئے اس کی پاسداری نہ کی جائے۔ ہمارے ہاں یہ رجحان سرکاری اداروں سے لے کر سیاست اور ان اداروں میں بھی نظر آتا ہے جنہیں ہمارے ملک میں مقدس گائے کا درجہ حاصل ہے۔ لیکن یہ بات اور بھی بھیانک ہوجاتی ہے کہ جب کوئی مذہبی پیشوا اپنے منصب کا ناجائز استعمال اس حد تک کرے کہ نوبت عدالتوں تک پہنچ جائے۔

جی ہاں، آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ کس طرح ہمارے مسیحی مذہبی راہنما خصوصاً چرچ آف پاکستان اور پرسبٹیرین چرچ کے پادری اور بشپ صاحبان پراپرٹیز بیچنے اور عہدوں کے حصول کے لئے گزشتہ چند دہائیوں سے آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ میرے لیے یہ بات اس لیے بھی تعجب کا باعث ہے کہ یہ لوگ مسیحیت کی تعلیم دینے کے دعویدار ہیں، لیکن انجیل مقدس میں 1۔ کرنتھیوں 6 باب اس کی پہلی 8 آیات کے مطابق یہ فعل مسیحیت میں ناپسندیدہ ہے۔ اب یہ فیصلہ کلیسیا کو کرنا ہے جو لوگ بذات خود اس تعلیم پر عمل نہیں کرتے جو دوسروں کو دیتے ہیں اور کیا یہ لوگ اس قابل ہیں کہ تبلیغ کرسکیں اور کیا انہیں سننا روا ہے؟

ویسے تو متعدد مقدمات کئی سالوں سے عدالتوں میں زیرسماعت ہیں لیکن گزشتہ روز کراچی میں ایک عدالت نے جب یہ فیصلہ جاری کیا جس میں یہ کہا گیا کہ بشپ آف کراچی صادق ڈینیل مدت پوری ہونے کے بعد بشپ کے عہدے سے الگ ہوجائیں گے اور نئے بشپ کی تقرری میں کوئی رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ تفصیلی فیصلہ تو بعد میں آئے گا لیکن یہ خبر مسیحی حلقوں میں آگ کی طرح پھیل گئی ساتھ ہی ساتھ یہ بھی خبر ہے کہ موصوف نے عدالت کے فیصلے کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے اسے اعلیٰ عدالت میں چیلنج کرنے اور عہدے سے الگ ہونے سے انکار کر دیا ہے۔

اس کے علاوہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ چرچ آف پاکستان، لاہور دفتر سے سیکرٹری انتھونی اعجاز لیموئیل نے کلیم جان کو کراچی ڈائیوسس کا کامیسری بشپ مقرر کر دیا ہے۔ یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب پشاور ڈائیوسس پر براجمان بشپ اور چرچ آف پاکستان کے ماڈریٹر ہمفری پیٹر نے بشپ صادق ڈینیل کو ستمبر 2020 کو مدت پوری ہونے کے بعد اخلاقاً عہدے سے الگ ہونے کے لئے خط لکھا، جس کے جواب میں موصوف نے قانونی نوٹس کے ذریعے ٹکا سا جواب دے دیا۔

صادق ڈینیل کے بشپ بننے اور عہدے پر براجمان ہونے کے بعد کے کارناموں پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ اب پشاور ڈائیوسس کے بشپ ہمفری پیٹر کی کہانی یہ ہے کہ موصوف مبینہ طور پر پشاور ڈائیوسس میں چھوٹی موٹی نوکری کیا کرتے تھے اور اس وقت کے بشپ منورومل شا کے تعاون سے جولائی 2009 میں Domissory letter جاری کروا گیا بعد ازاں وطن واپس آ کے پشاور ڈائیوسس پر قبضہ کر کے بشپ کے عہدے پر براجمان ہو گئے۔

اس سے قبل جب ہم نے عوامی بھلائی کے لئے ایک کالم کے ذریعے ان کی کارستانیوں کو عوام کے سامنے رکھا تو موصوف نے کروڑوں روپے ہرجانے کا دعوی دائر کیا کہ وہ ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر ایک عزت دار اور مذہبی راہنما ہیں اور اس کالم کے ذریعے ان کی عزت نفس کو مجروح کیا گیا ہے۔ اب خبر یہ بھی ہے کہ ناردرن ڈائیوسس کے کامیسری بشپ جمی میتھیو نے پشاور ڈائیوسس کے بشپ ہمفری پیٹر کی حیثیت کو نہ صرف رٹ پٹیشن کے ذریعے عدالت میں چیلنج کیا ہے بلکہ ان کی حب الوطنی پر بھی سوالات کیے ہیں۔

پشاور کی عدالت میں دائر کردہ ایک درخواست میں ان کے خلاف یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ بشپ ہمفری پیٹر نے بشپ بننے کے لئے نہ صرف چرچ آف پاکستان کے وضع کردہ طریقہ کار کو پامال کیا ہے بلکہ مختلف طریقوں سے ملکی عدالتوں کی توہین کی ہے اور ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ عدالتی کارروائیوں کا سلسلہ کہاں تک جاتا ہے یہ تو معلوم نہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ اب یہ فیصلے کلیسیا کو کرنے ہیں کہ ایسے لوگوں کو کب تک برداشت کریں گے کیونکہ میری رائے میں یہ تو واضح ہے کہ یہ لوگ خدا کی خدمت کے لئے موزوں نہیں بلکہ یہ مقدس کام کو بدنام کر رہے ہیں۔ اگر حالات بدستور برقرار رہے تو پاکستان میں مسیحیوں کی بچی کچھی عزت کا جنازہ نکل جائے گا۔ ہمارا کام عوام کے سامنے حقائق پیش کرنا ہے فیصلہ ضمیر اور کلام پاک کی تعلیم کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام کو کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).