بلوچستان کی فکر آخر کس کو ہے؟


جام کمال کی حکومت کو بلوچستان پر مسلط ہوئے دو سال اور غالباً دو ماہ ہو چکے ہیں۔ اگر ان کی بحیثیت حکمران خوبیوں کا جائزہ لیا جائے تو سوائے پرو اسٹیبلشمنٹ اور قدرے تعلیم یافتہ ہونے کے تیسری کوئی خوبی نظر نہیں آتی۔ اب اگر پرو اسٹیبلشمنٹ والی بات کی جائے تو ہمارے صوبے کے بہت سی نامور ہستیاں اس لسٹ میں شامل نظر آتی ہیں۔ تاہم ایک عوامی حکومت کی خصوصیات سے عاری جام کمال کی حکومت کا ایک ہی کمال ہے کہ یہ اب تک عوامی منشا کے برخلاف قائم ہے۔ جس میں شاید ان کا کمال کم ہے البتہ سلیکٹرز کی کاوشیں اور کمال زیادہ لگتا ہے۔

ایک دوست کے بقول اگر جام حکومت پر سایہ کیے ہوئے ہاتھ اٹھ جائیں تو اسمبلی میں زوروشور سے جام کے حق میں بولنے والے سب سے پہلے مخالف میں بول رہے ہوں گے اور شاید لسبیلہ تک جانے کے لیے بھی اپنے ذاتی ڈرائیور کو بلانا پڑے گا۔ پنجاب خوش قسمت ہے کہ ان کے لکھاری ہر چیز پر نظریں مرکوز کیے ہوئے ہیں اور صوبے کی بہترین بیوروکریسی کے باوجود انہیں وزیراعلی عثمان بزدار کی کارکردگی ناقص نظر آتی ہے۔

جبکہ بلوچستان وہ بد قسمت صوبہ ہے جہاں وزیراعلی کی کارکردگی تمام صوبوں کے وزراء اعلی سے بد تر ہے لیکن ان کی بات کوئی نہیں کرتا بلوچستان میں بیوروکریسی کا عالم یہ ہے کہ صوبے میں اب تک بمشکل ایک سال سروس کرنے والے چیف سیکرٹری بھی از خود اپنی کارکردگی بہترین بیان کر کے چار مہینوں کی اضافی تنخواہ کی صورت میں تقریباً 34 لاکھ روپے لے چکے ہیں۔ اس سال ماہ جون میں صوبائی اسمبلی 105 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ پاس کرتی ہے جس کے محض دو ماہ بعد صرف کابینہ کی منظوری سے تقریباً مزید ساڑھے چھ ارب کی 185 نئی ترقیاتی اسکیمیں شامل کر دی جاتی ہیں۔ یہ اسکیمیں کس قانون کے تحت پی ایس ڈی پی کا حصہ بنیں جب اس بارے میں پی اینڈ ڈی کے ذمہ داران سے بات کی تو معلوم ہوا کہ ان اسکیمیں کا کوئی ورکنگ پیپر یہاں سے بھیجا ہی نہیں گیا۔ گویا تمام کام چیف منسٹر سیکریٹریٹ میں قائم ایک سیل نے کیا۔ اور کسی نے اس غیر قانونی عمل میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔

اس حکومت نے شروع سے ہی سینئر بیوروکریٹ کو ہٹا کر جونئیر کو پوسٹنگ دی ہوئی ہے۔ لہذا مخالفت کی ہمت کون کرے گا۔ آج بھی بہت سی 20 اور 21 گریڈ کی پوسٹوں پر 18 اور 19 گریڈ کے افسر کام کر رہے ہیں۔ یہاں حقیقی سیاست اور سیاسی رویے دم توڑ رہے ہیں کل تک صوبے کے بہتر مستقبل کی نوید سنا کر وجود میں آنے والی باپ پارٹی صوبے کو مسائل سے نکالنے میں تو ناکام رہی ہے مگر اب خود اندرونی خلفشار کا شکار ہو چکی ہے نوجوانوں پر مشتمل یہ جماعت جہاں سیاسی بلوغت سے محروم ہے وہیں پر اس کے ارکان غیر سنجیدہ بھی ہیں حکمراں جماعت کے آنا پرست وزیراعلی برملا کوئی ایسا ایک بھی منصوبہ اپنے کریڈٹ میں دکھا نہیں سکتے جس کو تبدیلی قرار دیا جاسکے۔

سب کچھ صوبائی حکومت میں ماضی کے طور طریقوں پر چل رہا ہے تاہم کچھ وارداتی منصوبے ضرور بنے کہ جیسے ائر ایمبولینس، ٹاؤن پلاننگ دالبندین، کوئٹہ پیکیج وغیرہ جس سے عوام کا تو کیا بھلا ہونا تھا البتہ نالائق اور کرپٹ بیوروکریسی کہ جس کے سرخیل ایک ریٹائرڈ کپتان صاحب ہیں ان کا بھلا ضرور ہوا۔ المیہ یہ ہے کہ وزیراعلی بلوچستان نے پوری کابینہ کے مقابلے میں 60 فیصد وزارتیں اپنے پاس رکھی ہوئی ہیں۔ جن کی کارکردگی ماضی کی طرح بلکہ اس سے بھی بد تر ہے۔ موجودہ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے تاریخ بدل دی ہے اور کام کا ایسا سٹائل اپنایا ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔

فائل پر کوئی واضح آرڈر کرنے سے کتراتے ہیں۔ ان کے دور حکومت میں کوئی دس فائلیں نہیں دکھا سکتا کہ جس پر واضح طور پر اپرووڈ لکھا ہو۔ ہاں البتہ جس فائل کو مسترد کرنا ہو اس پر ایک یا ڈیڑھ صفحے کا بھاشن ضرور لکھا مل جائے گا۔ بادشاہوں کی طرح حکومت چلائی جا رہی ہے جس میں اپنے ساتھیوں کو بھی اختلاف کی اجازت نہیں بلکہ انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے غالباً وہ اپنی مایوس کن کارکردگی اور مخالف رائے عامہ سے اس قدر خائف ہیں کہ اپنی کارکردگی کو بہتر کرنے کی بجائے ہر اختلاف کرنے والے شخص سے نالاں نظر آتے ہیں اگر کسی ممبر کے بارے میں اگر شبہ بھی ہو کہ یہ متبادل ہو سکتا ہے تو اس کے لیے تمام دروازے بند سمجھئے۔

کچھ دن قبل وزراء کے لئے اپنے بنائے ہوئے واٹس ایپ گروپ پر صوبائی وزیر خزانہ جو کہ پڑھے لکھے اور ٹھہری ہوئی معتبر شخصیت کے مالک ہیں نے تحریر کیا کہ بلوچستان کے معاملات کو سوشل میڈیا کے ذریعے نہیں چلائے جا سکتے ہیں اور پنجاب یا سندھ سے تعلق رکھنے والے شخص کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے جس پر وزیراعلی بلوچستان اس قدر سیخ پا ہوئے کہ اپنے وزیر کو ہی واٹس گروپس سے نکال دیا۔ اب چونکہ مقتدر حلقوں میں وزیراعلیٰ بلوچستان کی تبدیلی کی خبریں بازگشت کر رہی ہیں جس نے کارکردگی سے محروم وزیراعلیٰ بلوچستان کو پریشان کر رکھا ہے شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ظہور بلیدی ان کی جگہ متبادل امید اور ہو سکتے ہیں لہذا وہی سازشیں کر رہے ہیں اب شک کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔

حالانکہ گزشتہ دو سال سے جام کمال خود اپنے خلاف سازشیں کر رہے ہیں اور قوت فیصلہ سے محروم شخصیت کے مالک ہیں ایک ہی طرح کے ڈائریکٹو چیف منسٹر سیکریٹریٹ سے دو تین مختلف سیکشنز سے جاری ہوتے ہیں جبکہ ان پر عمل درآمد کرنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ ہمارے وزیراعلی بلوچستان کو نت نئے خیال سوجھتے ہیں۔ سرکاری فائلوں سے زیادہ تر دور رہنا ہی پسند کرتے ہیں اور واٹس ایپ پر ہی تمام معاملات کو حل کرنے کے خواہشمند رہتے ہیں۔

بعض جہاں دیدہ بیوروکریٹ ان کی واٹس ایپ والی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کی بجائے فائل پر آرڈر کے لیے اصرار کرتے ہیں۔ جبکہ بعض کمزور دل آفیسر واٹس ایپ میسیج کو آرڈر مان لیتے ہیں۔ جس کا خمیازہ شاید انھیں آنے والے دنوں میں بھگتنا پڑے۔ عقل و دانش کے مالکوں کو اب سوچنا ہوگا کہ جام کمال کی تبدیلی اب ناگزیر بن رہی ہیں ورنہ بلوچستان میں پہلے سے وفاق مخالف رائے عامہ بنانے والوں کے لئے ان کا بطور وزیراعلی بلوچستان موجودگی مزید کارآمد ہوگی ہر حب الوطن کے زیر لب الفاظ ہیں کہ بلوچستان کی فکر آخر کس کو ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).