نیا سالار ہے نئے قصیدے لاؤ


\"afroz-humayun-1\"یوں تو قصیدہ گوئی یا قصیدہ نگاری کا آغاز عربی زبان سے ہوا تھا۔ مگر یہ صنف فارسی زبان سے ہوتے ہوئے اردو زبان میں داخل ہوگئی۔ مگر ہے قصیدہ گوئی شاہی نظام کی پیداوار۔ کہا تو یہ جاتا ہے کہ قصیدے کی بھی مختلف قسمیں ہیں۔ مثلاً کسی کی تعریف میں لکھے گئے قصیدے کو مدحیہ قصیدہ کہتے ہیں جبکہ اگر کسی کی لعن طعن کی جائے تو ایسے قصیدے کو ہجویہ قصیدہ کہتے ہیں۔ مگر عام طور پر قصیدے سے مراد کسی کی تعریف میں کہی گئی نظم ہی ہوتی ہے۔

عربوں کے تو رنگ ہی نرالے تھے۔ گھوڑے پر سوار ہوکر چند میل کا فاصلہ طے کرتے اور قصیدے کے اشعار مکمل کرلیا کرتے تھے۔ جب یہ صنف گونگوں یعنی عجمیوں تک پہنچی تو گھوڑوں کی ضرورت نہ رہی۔ گھوڑے عرب میں ہی رہ گئے اور قصیدہ برصغیر چلا آیا۔ قصیدے کا سامنا جب مغل شہزادوں سے ہوا تو اسے اپنائیت سی محسوس ہوئی اور اس نے مغلوں کے دربار میں ڈیرے جمالئے۔ مغلوں کے دربار ختم ہوئے تو انگریز دربار لگاکر بیٹھ گئے۔ آقا گورے اور غلام کالے تھے۔ بہت سے غلاموں نے انگریزی سرکار سے میل ملاپ بڑھانے کے لئے خوشامد اور چاپلوسی سے کام لیا اور یوں قصیدہ گوئی کے جراثیم ٹوٹی پھوٹی شکل میں انگریزی زبان میں بھی داخل ہوگئے۔

تقسیمِ ہند کے ساتھ قصیدہ بھی تقسیم ہوگیا اور اپنی اصل شکل میں نہ رہا۔ کئی قسمیں غائب ہوگئیں۔ صرف مدحیہ قصیدے کو پذیرائی ملی۔ اردو بولنے والوں کے ساتھ قصیدہ بھی ہجرت کرکے پاکستان چلا آیا اور یہاں کی علاقائی زبانوں میں بھی داخل ہوگیا۔ بالفرض قصیدہ گوئی سے مراد اگر کسی کی خوشامد لی جائے تو وہ بھی اردو زبان میں سب سے بہتر انداز میں کی جاتی ہے۔ قصیدہ گوئی کے جراثیم اردو ادب سے جب صحافت میں داخل ہوگئے تو وہ کسی نظم کی بجائے نثر میں کہے گئے یا لکھے گئے الفاظ بن گئے۔ الیکٹرونک میڈیا قصیدہ گوئی کے فن میں مہارت حاصل کرگیا اور جہاں طاقت کا پلڑا بھاری نظر آیا اس کے قصیدوں کا رخ اسی طرف ہوگیا۔ ہمارے ملک میں طاقت کا توازن ہمیشہ ڈولتا رہتا ہے۔ مگر زیادہ تر ترازو کا ایک پلڑا سپہ سالاروں کی طرف جھکا رہتا ہے۔

بالخصوص راحیل شریف صاحب کے معاملے میں زیادہ تر چینلوں پر حد درجہ مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا۔ گو کہ انہوں نے اپنے ہر عمل سے اپنے آپ کو ایک پیشہ ور فوجی ثابت کیا اور اپنے وقت پر ریٹائر ہونے پر بخوشی راضی ہوگئے۔ عقبی دروازے سے داخل ہوکر اقتدار حاصل کرنے کے خواہشمندوں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح سے بوٹ پالش (جسے قصیدہ گوئی ہی کی ایک جدید قسم کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا) کے ذریعے کسی طرح سپہ سالار کو ورغلایا جائے مگر وہ ناکام رہے۔ اسی طرح مخصوص ایجنڈوں پر کام کرنے والے تجزیہ کاروں اور اینکروں نے بھی کوئی کثر نہیں چھوڑی تھی۔ بلکہ دھرنوں کی پہلی قسط کے دوران تو یہ نعرہ زبان زد عام ہوگیا تھا یا کردیا گیا تھا کہ راحیل تیرے فون سے انقلاب آئے گا۔ مگر نہ فون آیا اور نہ ہی وہ فونی انقلاب۔ البتہ عمران خان کی زندگی میں اندرونی انقلاب ضرور آگیا تھا۔ جو بعد میں بدشگونی انقلاب کی نظر ہوگیا۔

سپہ سالار کے بدلنے کے بعد اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے قصیدے پڑھے جائیں گے یا وہی پرانے راگ الاپے جائیں گے۔ سب سے پہلے تو نیا نام زبان پر چڑھانا مشکل ہوگا اور اس کے ساتھ شکریہ کی بجائے کوئی نیا لاحقہ تلاش کرنا پڑے گا۔ شروع کے دنوں میں نئے کے ساتھ ساتھ پرانے سپہ سالار کی بھی تھوڑی بہت تعریف کردی جانی چاہئے تاکہ ایکدم دین دھرم بدلنے کا الزام نہ آئے۔ خدا سے دعا یہی ہے کہ نیا سپہ سالار بھی ایک پیشہ ور فوجی ثابت ہو اور ان قصیدہ گو تجزیہ کاروں، اینکروں اور سیاست دانوں کی باتوں میں کسی طور نہ آئے اور اپنے وقت پر ہنسی خوشی چلاجائے۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments