ملکہ پربت کے قدموں میں شام وادی کاغان اور ہائیک کہانی


زندہ رہنے اور جھیل میں گر کر ڈوبنے میں بس وہ اک لمحہ حائل ہوا۔ جب پہاڑی کی چوٹی سے اک ترنگ میں اترتے ہوئے میری رفتار تیز ہوتی چلی گئی اور میں جیسے پتھروں پر بے ارادہ دوڑنے لگا، نیچے ایک جھیل تھی اور پتہ نہیں کتنی گہری تھی۔ لیڈر ٹرینر اک دم سامنے آگئے اور اپنی ہائیکنگ اسٹک زمیں میں گاڑ دی اور پھر جم کر کھڑے رہے، میں ان سے ٹکرا کر رکا اور اس طرح اس جھیل میں گرنے اور پھر ڈوبنے سے بچ گیا۔

اگست کے دلفریب مہینے میں وادی کاغان کے پہاڑوں میں کہیں بلندیوں کی جانب جاتی پی ائی اے بوائے اسکاوٰٹس ایسویسی ایشن کی ایڈونچر ہائیک جاری تھی اور پاکستان ریلوے بوائے اسکاوٰٹس ایسوسی ایشن کے دو تجربہ کار لیڈر ٹرینرز رہنمائی کر رہے تھے۔

سفر کا آغاز اسلام آباد کے نیشنل بوائے اسکاوٰٹس ہیڈکواٹرز سے ہوا۔ اسلام آباد سے سفر کے آغاز کے بعد ہم ٹیکسلا، واہ کینٹ، ایبٹ آباد سے گزرتے ہوئے مانسہرہ میں داخل ہوئے، سفر جاری رکھتے ہوئے بالاکوٹ پہنچے تو وادی کاغان میں داخل ہوئے پہلے پڑاؤ مہانڈری جا پہنچے، رات گزاری اور پھر صبح سفر کا آغاز کرتے ہوئے ہم نے اب پہاڑوں کے اندر سے مختلف بلند مقامات اور مزید اونچائی کی جانب سفر کرتے ہوئے اپنے سفر کے بلند ترین مقام کو عبور کرکے ملکہ پربت کے بیس کیمپ سے ہوتے ہوئے جھیل سیف الملوک اور پھر ناران پہنچنا تھا جہاں ہماری اس ایڈونچر ہائیک کا اختتام ہونا تھا اور ہم نے پھر اسلام آباد کی جانب واپسی کے سفر کا آغاز کرنا تھا۔

اس وقت کہاں اندازہ تھا کہ ہم اپنی زندگی کے ایک یادگار سفر کا آغاز کرنے جا رہے ہیں۔ شروع کے اجنبی بعد میں دوست بنے جن کے ساتھ زندگی کے یادگار لمحے گزارے۔ بہت سے ایسے خوبصورت مقامات صرف ایڈونچر ہائیک کی بدولت دیکھ پائے۔ اس کے ساتھ ساتھ کیمپنگ، اسکاوٰٹنگ اور ہائیکنگ کے حوالے سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع بھی ملا۔

مہانڈری کے بعد دو یادگار پڑاوٰ مکمل کیمپنگ لائف کی خوبصورت یادوں کے خزانے میں حسین اضافہ بن کر محفوظ ہوگئے۔ پہلا ایک جنگل میں ندی کنارے جہاں لکڑی کا بنا چھوٹا سا فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ کا ایک ڈاک بنگلہ تھا اور دوسرا پڑاؤ پہاڑوں کی بلندیوں پر گھاس کے خوبصورت سرسبز میدان کے عین درمیان دیو ہیکل پتھروں کے سائے میں کیمپ لگا کر کیا گیا۔

ہائیک کے بلند ترین مقام پر پہنچ کرہم انجوائے کر رہے تھے۔ چڑھائی ختم ہونے کا جشن جو انرجائل کی صورت ہمارے سوکھے گلوں کر تر کر رہا تھا۔ پہاڑوں کی سیر کے شوقین ٹریکرز، ہائیکرز اور ماوٰنٹینرز جانتے ہیں کہ چڑھائی ہمیشہ سانس کو بے قابو کر دیتی ہے اور آپ چاہے کتنے تجربہ کار ہوں یا نوآموز، چڑھائی اپ کے پھیپھڑوں کو اک نئی طرز کے رویے سے آشنا کرتی ہے جو میدانوں میں چلنے، دوڑنے سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔

چڑھائی کی سب منزلیں پوری کرکے ہم اب اترائی کے سفر کی تیاری میں تھے اور قدرے بے پروا، خوش اور شوخے سے ہورہے تھے، کیوں کہ اک تو چڑھائی کی اذیت سے چھٹکارا مل رہا تھا اور دوسرا جو منظر ہمارے سامنے تھا وہ سب کو بن پئے مدہوش سا کر رہا تھا۔

پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنا مشکل سہی، مگر اک دفعہ چوٹی پر پہنچنے کے بعد وہاں سے اطراف کے مناظر کو دیکھنا زندگی کے انوکھے تجربوں میں سے اک ہوتا ہے۔ اب چوٹی پر کھڑے ہم سب کے اطراف بہت سے منظر بکھرے ہوئے تھے۔ اونچے اور نیچے پہاڑوں کی دلفریب چوٹیاں، بادل، ہریالی اور برف کے امتزاج سے بننے والے مختلف منظر اور ہماری چوٹی سے نیچے جانے والے راستے کے اختتام پر اک جھیل کا شاندار منظر جو دور سے جتنا خوبصورت نظر آ رہا تھا پر وہاں پہنچنا اتنا ہی دشوار بھی تھا۔

لیڈرٹرینر نے سب کو کہا کہ اب پہاڑی کی چوٹی سے نیچے کی جانب اترتے ہوئے قدم احتیاط سے رکھنے ہیں اور میدانی علاقوں کی مانند نہیں چلنا ہے بلکہ قدموں کو ترچھا رکھتے ہوئے اترنا ہے۔ سب نے یہ بات سنی مگر مجھ جیسے کچھ لوگ اس بات کی گہرائی کو سمجھ نہ پائے اور معمول کے مطابق قدم اٹھاتے رہے اور لاپروائی کے نتیجے میں اک حادثہ رونما ہونے سے بال بال بچے۔

چوٹی سے نیچے اترتے ہوئے میں جھیل کی جانب دیکھ رہا تھا جو بہت دور تھی مگر اونچائی سے دیکھتے ہوئے اک منفرد منظر میں بدل چکی تھی اور اس منظر میں ڈوب کر چلتے ہوئے پتہ ہی نہ چلا اور یکایک میری رفتار تیز ہوگئی اور میں جیسے پتھروں پر بے ارادہ دوڑنے لگا، نیچے ایک جھیل تھی اور پتہ نہیں کتنی گہری تھی۔ وہ ایک دم سامنے آگئے اور انہوں نے اپنی ہائیکنگ اسٹک زمیں میں گاڑ دی اور وہ وہاں جم کر کھڑے رہے، میں جاکر ان سے ٹکرایا اور اس طرح اس پہاڑی جھیل میں براہ راست گرنے اور پھر ڈوبنے سے بچ گیا۔

کچھ لمحوں کے لیے میں بالکل خالی الذہن سا ہوگیا اور اندازہ ہی نہ کر سکا کہ اگر وہ مرے آگے نہ آ جاتے تو پھر کیا ہوتا۔ مگر پھر کچھ لمحوں بعد حادثے سے بچ پانے کی خوشی اور چڑھائی سے چھٹکارا مل جانے کا احساس مجتمع ہوکر حوصلہ دینے لگے اور سفر کا سلسلہ دوبارہ جاری ہوا مگر اب قدم ذرا مختلف انداز اور احتیاط کے ساتھ اٹھ رہے تھے۔

جھیل کے کنارے پہنچے تو اندازہ ہوا کہ دور سے دلفریب اور دلکش دکھائی دینے والی جھیل بہت زیادہ گہری اور برف سے بھی یخ پانی سے بھری ہوئی ہے۔ سفر کافی باقی تھا اور ہم نے اپنے وقت کا اچھا خاصہ حصہ پہاڑ کی چوٹی تک کی چڑھائی میں صرف کر دیا تھا اور ہمیں اب اندھیرا ہونے سے قبل ہی اپنی آج کی منزل تک ہرحال میں پہنچنا تھا تو جھیل پر رکنے کے لیے کوئی فرصت کا لمحہ میسر نہ تھا۔ چڑھائی کی نسبت اترائی میں سانس تو بے قابو نہیں ہورہا تھا مگر احتیاط چار گنا زیادہ برتنے کی ہدایت تھی اور کچھ ساعت قبل کے ممکنہ حادثے سے بچ جانے کا تجربہ بھی۔

جھیل کے کنارے پر قد آدم سے بڑے چٹانی پتھروں اور ان کے ساتھ سفید پھسلواں برف کا میدان، شروع میں کچھ نے اس برف پر چلنا آسان جانا مگر بار بار پھسلنے کے بعد کچھ نے چٹانی پتھروں پر کچھ قدم چلنے اور پھر چھلانگ مار کر دوسرے پتھر پر جانے کو مناسب جانا۔ مختلف لوگوں نے اپنی ہمت، استطاعت اور تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف راستے اختیار کیے اور بالاآخر یہ فاصلہ بھی تمام ہوا۔

اب سفر آسان ہو چلا تھا ہم اک اور چوٹی پر تھے اور نیچے جانے والا راستہ برف کی چمکتی، ٹھوس اور پھسلواں اترائی پر مشتمل تھا جس پر سے چل کر جانا ویسے تو اتنا مشکل نہیں لگ رہا تھا مگر درحقیقت بہت ہی مشکل تھا کیوں کہ پھسلنے کی صورت میں گرنے کا خطرہ موجود تھا۔ لیڈر ٹرینرز نے تجربے کی بنا پر سللائیڈنگ کا آسان اور تیزرفتار طریقہ تجویز کیا اور سب سے پہلے کرکے دکھایا جس کے بعد سب نے اس طریقہ کی پیروی کرتے ہوئے اترائی کو آسانی اور مزے سے عبور کیا اور اب پھر اک اور اترائی جو بہت زیادہ ڈھلوان نہیں تھی کیوں کہ اب ہم اپنی منزل کے قریب پہنچ چکے تھے جو تھی مشہور ملکہ پربت کے بیس کیمپ کے آغاز میں پہاڑی چرواہوں کی غار میں واقع بیٹھکیں۔

کچھ ہی گھنٹوں کے اترائی کے سفر کو طے کرتے اب ہم اپنی ہائیک کے اک اور پڑاوٰ پر پہنچ چکے تھے جہاں ہمارا استقبال کیا پہاڑی چرواہوں نے جو ہمارے ریلوے اسکاوٰٹس کے لیڈرٹرینرز کے واقف نکلے کیوں کہ یہ لیڈرز ہر سال ان وادیوں میں ہائیک کے لیے آتے رہتے تھے۔

سفر کی اک اور شام مگر سب سے سرد کیونکہ اب ہم اک بلند و بالا پہاڑ ملکہ پربت کے عین نیچے موجود تھے۔ اس رات شاید ہی کوئی آرام سے سو پایا۔ اسی تگ و دو میں آخر کار صبح کا انتظار ختم ہوا اور سورج نے اپنی روشنی سے سردی کے جان لیوا لمس کو شکست دی اور ہم اک نئی امید کے ساتھ اٹھے کہ اگلا پڑاوٰ اب پہاڑوں کا آخری اور آرام دہ پڑاوٰ ہونے والا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).