پیاری مقدس گائے اور عہد نو میں احترام کے تقاضے


پاکستان نے آج روایتی جوش و خروش سے یوم دفاع پاکستان منایا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ پاک افواج دشمن طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہیں اور ہر محاذ پر اس کے دانت کھٹے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس موقع پر ایک پیغام میں واضح کیا کہ ’پاکستان امن چاہتا ہے لیکن ہماری خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ ہم اس خطے کے عوام کی بہبود کے لئے امن چاہتے ہیں‘۔ اسی قسم کا اعلان پاک فوج کے سربراہ نے بھی جی ایچ کیو میں یوم دفاع کی مناسبت سے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے بعض بنیادی باتوں کی طرف اشارہ کیا جو اس وقت قومی بحران، انتشار اور پریشانی کی بنیاد کہی جاسکتی ہیں۔ ان کے یہ الفاظ خاص طور سے قابل غور ہیں: ’ہم آج بھی ملک اور آزادی کی حفاظت اپنے خون سے کر رہے ہیں۔ ہمارے سپاہوں کے حوصلہ و بہادری کی وجہ سے ہی پاکستان کی خود مختاری اور امن و سلامتی قائم ہے‘۔ فوج کے سربراہ نے یہ الفاظ پاک افواج کے عزم و استقامت کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال کئے ہوں گے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ اس خاص مزاج کا بھی پتہ دیتے ہیں جس سے یہ تاثر قوی ہوتا ہے کہ پاکستان اور اس ملک میں آباد 23 کروڑ لوگوں کی زندگی اور آزادی پاک فوج اور اس کی قربانیوں کی وجہ سے محفوظ ہے۔ حالانکہ بنیادی پیغام یہ ہونا چاہئے کہ اگر اس ملک کے عوام قربانی نہ دیں اور پاک فوج کو اپنے خون پسینے سے حاصل وسائل میں سے زر کثیر فراہم نہ کریں تو اس فوج کے لئے قائم رہنا مشکل ہو جائے۔

 یہاں یہ بنیادی نکتہ فراموش کیا جارہا ہے کہ وقت کے تقاضے بدل چکے ہیں۔ اب کوئی ملک فوجی طاقت کی بنیاد پر قائم نہیں رہتا بلکہ باہمی اعتماد و احترام کا رشتہ کسی قوم کا محافظ ہوتا ہے۔ لوگوں کے درمیان یا قوم اور فوج کے درمیان جب یہ رشتہ کمزور پڑنے لگے تو کسی بھی ملک کا وجود برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ ہمارے عہد میں اس کی سب سے بڑی مثال سوویٹ یونین کے ختم ہونے کی کہانی ہے۔ دنیا کی دوسری سپر پاور کہلانے والے اس ملک کے مختلف حصوں اور طبقوں میں اعتماد کی وہ فضا ختم ہوئی جس کی بنیاد پر اس ریاست کو استوار کیا گیا تھا تو اس کا وجود بھی ختم ہوگیا۔ سوویٹ یونین کا سپر پاور اسٹیٹس اور بھاری بھر کم فوج یا جوہری ہتھیاروں کا وسیع ذخیرہ اس ملک کو ٹوٹنے سے نہیں بچا سکا۔ تاریخی واقعات سبق سیکھنے کے لئے ہوتے ہیں۔ انہیں مسخ کر کے نعرے ضرور ایجاد کئے جا سکتے ہیں لیکن اس سے سبق کی تفہیم ادھوری رہ جاتی ہے۔ جو ہر عہد میں کسی بھی قوم اور لوگوں کے لئے اہم ہوتی ہے۔

بھارت کے ساتھ ہونے والی ہر جنگ میں دشمن ہمسایہ ملک کو قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے اور اپنی نسلوں کو یہ سبق پڑھایا گیا ہے کہ ہم نے ہر جنگ میں دشمن کے دانت کھٹے کئے ہیں۔ اور آئندہ بھی جب ایسا کوئی موقع آیا تو جارح کے ساتھ یہی سلوک کیا جائے گا۔ اس سبق سے البتہ نہ واقعات کی ترتیب تبدیل ہو گی اور نہ ہی یہ ممکن ہوسکے گا کہ تاریخ خود کو دہرانا بند کر دے۔ تاریخ اور انسانی تجربات ہی کا سبق ہے کہ اعتماد اور احترام ہی دو ایسی خوبیاں ہیں جو کسی قوم کو ایک مٹھی کی طرح باہم خوشحالی اور ترقی کے لئے ملا کر رکھتی ہیں۔ کوئی فوج کسی قوم کو یکجا رکھنے اور طاقت کے زور پر ساتھ رہنے پر آمادہ نہیں کر سکتی۔

بھارت کے ساتھ شروع ہونے والی چاروں جنگوں یا جھڑپوں کے حوالے سے دو باتیں محض نصابی کتابوں سے نکال دینے سے تبدیل نہیں ہوجائیں گی۔ ایک یہ کہ ہر بار جنگ کا آغاز کسی نہ کسی طور پاکستان کی طرف سے کیا گیا۔ دوسرے اگر فتح و شکست کا فیصلہ کرنا ہی مقصود ہے تو ان تمام معرکوں میں پاکستان کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ (اگر حوالے کی ضرورت ہو تو ایئر مارشل اصغر خان مرحوم کے معروف انٹرویو کے علاوہ پاکستان کے اعلیٰ عسکری عہدے داروں کی درجن بھر سے زیادہ تصانیف موجود ہیں۔)

پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت نے 1965 کی جنگ میں بین الاقوامی سرحد پر بھارت کی پیش قدمی کا اندازہ نہیں کیا تھا اور یہ امید لگا لی گئی تھی کہ کشمیر میں پاک فوج کی پیش قدمی کے باوجود بھارت، لاہور یا سیالکوٹ پر حملہ نہیں کرے گا۔ اسی لئے ان محاذوں پر فوجی دستوں کو کسی ناگہانی حملہ کے لئے تیار بھی نہیں کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھارت نے حملہ کیا تو یہ اچانک ثابت ہؤا اور سرحدوں پر پاک فوج کے دستوں نے غیر معمولی جرات، ہمت، حوصلہ اور قربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے سے کئی گنا بڑی فوج کی پیش قدمی روک دی۔ اسے بے شک پاکستان کی کامیابی کہا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس تنازعہ کا سبب بننے والے کشمیر کے معاملہ پر پاکستان کی پوزیشن کمزور ہوئی اور بعد کے برسوں میں اس حوالے سے پاکستان کی پریشانیوں میں اضافہ ہؤا۔ تاآنکہ گزشتہ برس 5 اگست کو بھارتی حکومت نے کشمیر کو وفاقی اکائیاں بنانے کا اعلان کرتے ہوئے اس کی خصوصی حیثیت ختم کر دی۔ پاکستان نعرے لگانے اور شور مچانے کے سوا کچھ نہیں کرسکا۔ دنیا کے کسی ایک ملک نے بھی بھارت کی اس افسوسناک حرکت کو باقاعدہ مسترد نہیں کیا۔

پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے آج کی تقریر میں اصرار کیا ہے کہ ’پاکستان علیحدہ اسلامی شناخت کے نظریہ کی بنیاد پر قائم ہے۔ یہ نظریہ آج بھی ہماری شناخت ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ دشمن اس نظریہ کو ختم کرنے کی سازشیں کرتے ہیں لیکن پاکستانی افواج اور قوم نے قوت ایمانی سے ان کوششوں کو ناکام بنایا ہے۔ پاکستان کی خود مختاری اور امن پاک فوج کا اولین فرض ہے‘۔ اول تو اسلامی شناخت کا دعویدار پاکستان اکیلا نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں پچاس سے زیادہ ملکوں میں مسلمان آباد ہیں جو اسلام کو ہی اپنی شناخت سمجھتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ دو قومی نظریہ کی بحث کا آغاز قیام پاکستان کے بعد ہؤا تھا۔ حتی کہ اسے پاک فوج نے قومی مفاد کی ایک خود ساختہ توجیہ کی بنیاد بنا کر خود کو پاکستان اور اس ملک میں آباد لوگوں کی حفاظت کرنے کا ذمہ دار سمجھنا شروع کردیا۔ یہ ذمہ داری چار مرتبہ ملک میں مارشل لا لگا کر پوری کرنے کی کوشش کی گئی اور گزشتہ پندرہ برس سے ملک میں ایسا نظام مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس میں عسکری حکمت عملی کو بنیادی حیثیت حاصل ہو۔ عمران خان، حکومت کے لئے فوج کی جس حمایت کا اعلان کرتے نہیں تھکتے، وہ دراصل سول آئینی معاملات میں فوجی فیصلوں کو ہو بہو تسلیم کرنے سے متعلق ہے۔ اس کی سادہ سی مثال اس سال کے شروع میں موجودہ آرمی چیف کی توسیع کے سوال پر پارلیمنٹ میں پیدا ہونے والا ’وسیع تر اتفاق رائے‘ تھا۔

اس تناظر میں بہتر ہوگا کہ سیاست میں فوجی مداخلت کی بحث سے پہلے اس بنیاد پر بات کی جائے جسے دو قومی نظریہ اور اس کی روشنی میں قومی مفاد جیسی مبہم اور غیر واضح اصطلاح کا نام دیا گیا ہے۔ دو قومی نظریہ کو کبھی عام بحث کے لئے پیش نہیں کیا گیا بلکہ ریاست اور فوج کی طرف سے ایک تصور پیش کرکے اسے تسلیم کرنے کا ماحول پیدا کیا گیا ہے۔ حالانکہ اگر پاکستان کسی دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہؤا تھا تو سقوط ڈھاکہ یا بنگلہ دیش کے قیام کے بعد اس ’نظریہ‘ پر زیادہ کھلے انداز میں گفتگو کی ضرورت تھی ۔ سوچنا چاہئے تھا کہ ایسا نظریہ جو کسی ریاست کو ربع صدی بھی اکٹھا رکھنے میں کامیاب نہیں ہؤا، اس میں ضروری رد و بدل کیا جائے اور بچے کھچے پاکستان کو نئی بنیاد فراہم کرنے کے لئے کسی نئے عمرانی معاہدے کی جانب پیش قدمی کی جائے۔ یہ طریقہ چونکہ باہمی احترام اور لوگوں کے درمیان مواصلت کے اصول سے مشتق ہے، اس لئے اسے استعمال کرنے سے گریز ضروری سمجھا گیا۔ پاکستان کے موجودہ بحران کی بنیاد اسی گریز میں رکھی ہے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے مزید ارشاد کیا ہے کہ ’پاکستانی قوم سے محبت پاک فوج کے ایمان کا حصہ ہے۔ اور پاکستانی قوم کی افواج پاکستان کے لئے محبت دائمی ہے۔ اعتبار کا یہ تعلق کمزور نہیں پڑ سکتا‘۔ یہی نکتہ کسی قوم کی سرفرازی اور فوج کی طاقت کا سبب ہوتا ہے۔ لیکن محبت فطری جذبہ کا نام ہے۔ اسے کسی پر مسلط نہیں کیا جاسکتا۔ پاک فوج نے قومی سیاست کے بارے میں جو رویہ اختیار کیا ہے، اس سے دن بدن اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ محبت و احترام کا یہ رشتہ دو طرفہ نہیں ہے۔ جس طرح یکے بعد دیگرے منتخب حکومتوں کو بے توقیر کرکے اقتدار سے رخصت کیا گیا ہے اور ملکی عوام کی خواہشات کو ایک خاص ڈھب سے بیان کرنے کے لئے جس طرح تحریک انصاف اور عمران خان کی صورت میں ایک گروہ کو ملک پر مسلط کرنے کا اہتمام ہؤا ہے، اس سے فوج کے طرز عمل اور سیاست میں اس کی غیر جانبداری کے بارے میں سنگین سوالات جواب طلب ہیں۔ ان سوالوں کو حب الوطنی ، دو قومی نظریہ اور قومی مفاد کے نام پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

پاک فوج کے سربراہ جس پروپیگنڈا مہم جوئی کے لئے ففتھ جنریشن یا ہائیبرڈ وار کی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں ، اسے جیتنے کے لئے اعتماد سازی اور باہمی احترام استوار کرنے کا کام کرنا اہم ہوگا۔ اگر یہ اصطلاحات آزادی رائے کو ختم کرنے اور متوازن رائے کو دبانے کے لئے استعمال ہوں گی تو دشمن کے کرنے کا کام ہم خود ہی کرنے کا سبب بنیں گے۔ قوم نئے عہد میں اسی وقت افراتفری سے بچ پائے گی اگر اس کے لوگوں کو اپنی بات کہنے، سوال کرنے اور غلطیوں کی نشاندہی پر دشمن کا ایجنٹ بنانے کے خوف سے نجات دلائی جائے گی۔

اس صورت حال میں دست بستہ عرض کیا جا سکتا ہے کہ کسی ادارے کے ملک و قوم کے لئے مقدس گائے بننے سے بے چینی و افراتفری ختم نہیں ہوگی۔ اس کے لئے اعتماد اور احترام پیدا کرنا ضروری ہے۔ جنگوں میں جذبہ اور قوت ایمانی کی بجائے باہمی اعتماد و بھروسہ بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں اس وقت اس اعتماد کی کمی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali